دو قومی نظریہ اور اسلامی ونڈو

کمپیوٹر سے وابستہ لوگ‘ اس امر سے خوب خوب آگاہ ہوں گے‘ کہ جب سسٹم میں وائرس داخل ہو جاتا ہے‘ تو وہ کمپیوٹر کی مت مار دیتا ہے۔ اچھا خاصا چلتا چلتا کمپیوٹر‘ آسیب زدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ بعض وائرس‘ کمپیوٹر کی غیر طبعی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔ کچھ اسے موت کے گھاٹ نہیں اتارتے‘ لیکن دائمی فالج کا موجب بن جاتے ہیں۔ ٹھیک ٹھاک اور قیمتی مواد کھا پی جاتے ہیں۔ یہی نہیں‘ ستم اس پر یہ‘ کہ مواد کو دسویں جماعت کا ریاضی بنا دیتے ہیں۔ دسویں جماعت کے ریاضی میں الجبرا بھی شامل ہے اور یہ الجبرا‘ جبر کے تمام رویوں اور رجحانات پر استوار ہوتا ہے۔ ہستا مسکراتا کھیلتا کودتا کمپیوٹر‘ نامراد وائرس کے باعت سکتے میں آ جاتا ہے۔ گویا وائرس کی بن بلائے مہمانی‘ کچھ بھی گل کھلا سکتی ہے یا یوں کہہ لیں‘ وہ کچھ ہو سکتا ہے‘ جس کا خواب بھی نہیں دیکھا گیا ہوتا۔

وائرس مرتا نہیں‘ مارتا ہےاور ہر حالت میں‘ من مانی میں‘ اپنی اصولی عمر‘ دبدبے اور پورے بھار سے پوری کرتا ہے۔ کوئ دوا‘ دارو ٹیکہ اس کا بال بیکا نہیں کر پاتا‘ ہاں متاثرہ کی قوت مدافعت میں‘ اضافہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اس امر سے آگاہ نہیں ہیں‘ کہ انٹی وائرس‘ وائرس کو مارنےکے لیے فیڈ نہیں کیے جاتے۔ یہ وائرس سے پاک سسٹم میں اس لیے فیڈ کیے جاتے ہیں کہ سسٹم میں وائرس داخل نہ ہونے پائے۔ انٹی وائرس کا‘ اول تا آخر مقصد یہ ہوتا ہے‘ کہ وائرس کو سسٹم سے دور رکھا جائے۔ دوسرا یہ سسٹم کی قوت مدافعت کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی مثل ویکسین کی سی ہوتی ہے۔ عمومی زبان میں‘ اسے حفاظتی ٹیکے کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ انٹی وائرس یا ویکسین‘ وائرس کے دخول سے پہلے کی چیزیں ہیں۔
مختصر مختصر یوں کہہ لیں‘ انٹی وائرس یا ویکسین‘ دراصل سسٹم کی حفاظت سے متعلق چیزیں ہیں۔ انھیں خطرے سے بچاؤ کا عمل بھی کہا جا سکتا ہے۔ جیسے مچھر سے بچنے کے لیے مچھر دانی کا استعمال کیا جائے۔ ڈینگی سے بچنے کے لیے‘ یعنی لاخق ہونے سے پہلے‘ حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں۔ ڈینگی حملے کی صورت میں‘ فوری موت واقع نہیں ہوتی‘ تو مدافعتی نظام کی طرف توجہ دی جائے۔

کسی دوائی وغیرہ سے وائرس نہیں مرے گا۔ متاثرہ کو پانی کی بھرتی رکھیں۔ سیب کا خود جوس نکال کر پلائیں۔ مرد ہو تو عورت اور عورت کی صورت میں‘ مرد کا جوس تیار کرنا مناسب رہے گا۔ اگر یہ خدمت‘ گھریلو‘ ذاتی اور پالتو قسم کے خواتین و حضرات نہ ہی انجام دیں تو مناسب رہے گا۔ وائسرسی علالت بد کی صورت میں‘ بیرونی‘ مگر حسین دنیا سے رابطہ‘ مریض کی قوت مدافعت میں‘ خاطر خواہ اضافے کا سبب ہو گا۔ شہتوت کے پتوں کو پانی میں ابال کر‘ ٹھنڈا کرکے پلائیں۔ اس حالت میں کڑوی اشیا کا‘ قدرے اور خفیف استعمال‘ مفید رہتا ہے۔ دن میں ٹی ڈی ایس یعنی تین بار ذاتی جنس مخالف کا چہرہ کراتے رہنا‘ مریض کے لیے ناسہی‘ مرض کے لیے مناسب رہتا ہے۔ ہاں اس ذیل میں‘ ہمہ وقتی دیدار‘ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
برصغیر عرصہ دراز سے‘ خارجی اور غیر درآمدہ وائرس کی زد میں ہے۔ سکندر سے پہلے‘ یہ یہاں سے بچے پکڑ کر لے جاتا اور ان کی قربانی‘ دیوتاؤں کے حضور نظر کر دیتا تھا۔ اس سے پہلے یا بعد کے وائرس بڑے خطرناک تھے۔ کیا کچھ کرتا تھا‘ زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ بہرطور‘ یہ تو طے ہے کہ وائرس سسٹم کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ حفاظتی عمل اور مدافعتی قوت کے کامل صحت مند ہوتے ہوئے‘ جسم یعنی سسٹم کے اندر سے‘ کوئ میر جعفر پیدا ہو جاتا ہے‘ جو داخلے کا رستہ بتا کر‘ ہنستے بستے‘ کھیلتے کودتے نظام کو‘ مٹی میں ملا دیتا ہے۔ اس کی مت ماری جاتی ہے اور وہ یہ نہیں سمجھ پاتا‘ کہ وہ اسی سسٹم کا حصہ ہے۔
ہوتا تو وہ بھی وائرس ہی ہے‘ اس کے کام بھی وائرسوں والے ہوتے ہیں‘ لیکن مقامی سسٹم‘ اسے اس کے کاموں سمیت‘ قبول چکا ہوتا ہے۔ سسٹم اس وائرس کی منفی فطرت کے باوجود‘ اس سسٹم کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی‘ اسے اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ اس کے باعث‘ سسٹم میں سو طرح کی خرابیاں آتی رہتی ہیں‘ لیکن سسٹم کا مدافعتی نظام چلتا رہتا ہے۔ حالاں کہ اس کا سسٹم میں رہنا‘ کسی بھی حوالہ سے ٹھیک نہیں ہوتا۔ کیا کیا جائے‘ وائرس داخلی ہو یا خارجی‘ اس کا اس کی طبعی عمر سے پہلے‘ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ سسٹم کو اس کی طبعی عمر تک‘ برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ بس کرنے کا کام یہ ہوتا ہے‘ کہ سسٹم کے مدافعتی نظام کو ڈولنے نہ دیا جائے۔

چٹی چمڑی والا وائرس‘ تو کل پرسوں سے تعلق رکھتا ہے اور ہم اس کی تباہ کاری کے باعث‘ بیمار جیون جی رہے ہیں۔ اس وائرس نے کمال ہوشیاری سے‘ تقسیم کے بہت سارے دروازے کھول دئیے۔ کبھی زبان کے حوالہ سے تقسیم کرکے‘ باہمی نفرتوں کو سسٹم کا حصہ بنایا۔ زبان ہی کیا‘ رنگ‘ نسل‘ قومیت اور علاقہ کی افواہ بھی‘ تقسیم کی اگنی کو بڑی راس آئی۔ میں یہاں مولوی‘ پنڈت یا فادر کا نام احتراما نہیں لوں گا۔ الله نے پیٹ تو خیر ان کو بھی دیا ہے۔ کیا ہوا‘ جو وہ عمومی کی ذیل میں نہیں آتا۔ خصوص کا تذکرہ‘ موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی مراد لیتا ہے‘ تو یہ اس کی اپنی جی جان پر۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدھی سی بات ہے‘ میرا ذمہ اوش پوش۔۔۔۔۔۔۔ میری زبان پر‘ ان کے لیے عزت کے کلمے ہی رہے ہیں۔ عقیدے میں‘ زبان سے اقرار کو‘ ایمان کا حصہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ باقی رہ گیا دل‘ تو دلوں کی الله ہی جانتا ہے۔ دل کے معاملے‘ کسی قسم کے فتوے کی زد میں نہیں آتے۔
1905
میں‘ دو قومی نظریے کو داخلی وائرس کے ذریعے‘ عام کیا گیا اور پھر اس تماشے سے‘ خوب لابھ اٹھایا۔ یہ کون سا ایسا نیا نظریہ تھا‘ یہ نظریہ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ سورہ کافرون میں بھی‘ تو دو قومی نظریے کی ہی نشان دہی کی گئی ہے۔

لوگوں نے اصل مطب نہ سمجھا‘ وہ یہ ہی سمجھتے رہے‘ کہ الگ مملکت میں اپنے نظریاتی نظام کے تحت اصولی‘ قانونی اورآئینی زندگی بسر کریں گے۔ داخلی وائرس نے‘ مٹھی بند رکھی‘ تاہم اس ذیل میں کوئ قرارداد بھی منظور نہ کی اور ناہی کوئ قرارداد پیش ہوئی۔ اس سسٹم کو کبھی بھی‘ اسلامی ونڈو نہیں دی گئی۔ جمہوریت کے حوالہ سے‘ اسلامی ونڈو کرنے کی ضرورت تھی۔ داخلی وائرس‘ جو سسٹم پر ڈومینٹ رہا ہے‘ اسے اسلامی ونڈو کس طرح خوش آسکتی تھی یا خوش آسکتی ہے۔ وائرس سسٹم کے لیے بہتری سوچے‘ یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے؟!
مزے کی بات یہ کہ
پاکستان کا مطلب کیا‘ لا الہ الا الله۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نعرہ سیال کوٹ کے پروفیسر اصغر سودائی نے دیا۔ لوگ اسے لیڈری نعرہ سمجھھ بیٹھے۔ حقیقت تو یہ ہے‘ کہ یہ نعرہ پروفیسری تھا۔ پروفیسر اور سیاست کا کیا تعلق؟ یہ نعرہ بھی غیر سیاسی ثابت ہوتا ہے‘ تاہم پاکستان بننے میں‘ اس نعرے کا کلیدی رول ہے۔ بنانے والے عوام ہیں۔ اس تناظر میں “پاکستان“ غیر لیڈری اور غیر سیاسی ٹھہرتا ہے۔

ایک صاحب مرغے کے ساتھ روٹی کھا رہے تھے‘ یعنی ایک لقمہ خود لیتے‘ دوسرا لقمہ اپنے مرغے کو پھینک رہے تھے گو کہ مرغا سائز اور حجم میں چھوٹا ہوتا ہے۔ کسی نے پوچھا‘ میاں یہ کیا رہے ہو؟ بولے‘ ہم خاندانی لوگ ہیں‘ ہمیشہ مرغے کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں۔

چٹی چمڑی والا وائرس بڑا خاندانی ہے‘ مرغے کے ساتھ روٹی کھاتا ہے۔ جو لوگ مرغ باز ہیں‘ وہ اپنے مرغے کی صحت‘ توانائ اور جوانی کا خیال رکھتے ہیں۔ سسٹم کے ہر پرزے پر‘ یہ واضع کرنے کی اشد ضرورت ہے‘ کہ وائرس دسترخوان اور شہوت کے حوالہ سے‘ کبھی کسی نظریے کا قائل نہیں رہا۔ مرغا غیر زمین پر رہتے ہوئے‘ خارجی وائرس کے لیے‘ محترم اور معتبر رہتا ہے۔ وہ اس کا جٹھکا‘ اس وقت کرتا ہے‘ جب مرغا میدان کا نہیں رہتا۔ میدان والا مرغا‘ خاندانی لوگوں کے ساتھ ہی‘ ناشتہ پانی کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا۔

اسلامی ونڈو کرنے سے‘ خارجی وائرس کبھی بھی‘ سسٹم میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ داخلی وائرس کو‘ سسٹم کا مدافعتی نظام‘ پہلی سانس پر ہی‘ دبوچ لے گا۔ اس ونڈو میں‘ قباحت یہ ہے کہ لیڈری نہیں‘ عوامی ہے۔ عوام ڈبے میں ووٹ ڈالنے تک‘ محترم اور معزز ہیں‘ اس کے بعد کیا ہیں‘ کچھ بھی نہیں ہیں۔ اگر یہاں‘ میں ناہیں سبھ توں‘ تصوف والا ہوتا‘ تو شاہ حسین لاہوری کے پیرو ہوتے۔ یہاں معاملہ برعکس ہے۔ لیڈری توں میں‘ عوام نہیں کے درجے پر فائز رہ کر‘ تصوف کے توں سے کوسوں دور رہتے ہیں۔

رونا سکول کے گرنے کا نہیں‘ اصل رونا تو ماسٹر کے بچ جانے کا ہے۔ ماسٹر مائنڈ وائرس سے پہلے‘ داخلی وائرس کو نکال باہر کرنے کے لیے‘ بڑا ہی موثر سافٹ وائر دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ آتی نسلوں کو‘ اس سے بچانے کے لیے‘ سماجیات کے ڈاکٹر قدیر‘ سر جوڑ کر سوچیں‘ اور اس نوع کے سوفٹ وئر دریافت کرنے کی کوشش کریں۔ ہاں اس کی کسی کو‘ ہوا تک لگنے نہ دیں‘ اور پھر‘ اچانک دھماکہ کردیں۔ سسٹم جب داخلی وائرس سے آزاد ہو گیا‘ تو خارجی وائرس سے بچنے کے لیے‘ ایک نہیں‘ بیسیوں انٹی واءرس دریافت ہو جاءیں گے۔ (اکتوبر ٢٠١٢ کی بہترین ماہانہ تحریر کا بیج حاصل کرنے والی تحریر)

 
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 174186 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.