یقینا یہ شہر اپنی سماعت میں سنگ
جیسا ہے ۔صفدر حیدری نے سو فیصد درست لکھا کہ بڑ بو لوں کو ایک بنا بنایا
موضوع میسر آیا۔ یہ بڑ بولے کون ہیں ؟ ہر ایک جانتا ہے ۔ صحافت کے منہ زور
گھوڑے کے شہسوار ہیں ۔ لفظ’’ شہسوار ‘‘تو محض تکلف کیلئے استعمال ہو گیا ہے۔
انہیں تو محض دھاڑتی سر خیوں کی تلاش رہتی ہے۔ جس قدر اوند و ہناک واقعہ
رونما ہوگا۔ ان بے لگام گھوڑوں کی خوشی میں مسلسل اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یعنی
سنسنی خیز ی کا ان کی ریٹنگ بڑھا نے میں اہم کردار ہے ۔ ننانوے فیصد جھوٹ
رپور ٹنگ میں شامل کر نا ان بڑ بولوں کی نفسیات میں شامل ہے۔ اس قسم کی
صحافت کو آزاد یا بے لگام صحافت کا نام دیا جائے ؟ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے جو
مجھ سے نہیں ہو رہا ۔ میری رائے میں بے لگام ہے ۔ جس کا تدارک ہے کہ ذہنی
تربیت کو لازمی قرار دیا جائے۔ تب کہیں جا کر ملکی و ملی ترقی کیلئے فائدہ
مند صحافت کا وجود قائم ہو سکے گا۔ بد عنوانی کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔
ذہن سازی مثبت سمت کی طرف رواں ہو گی۔ منفی سوچ انجام پذیر ہوگی ۔ ہر طرف
امن و امان ہوگا۔ امیر اور غریب میں فرق نہ رہے گا۔ ایک طرح سے عوامی فلاح
کیلئے نظام ترتیب پا جائے گا۔ مساوات کا دور دورہ ہوگا ۔ آمنہ مائی کی طرح
آمنائیں خود سوزی نہیں کریں گی ۔ مجرموں کو جرموں کی بر وقت سزائیں ملیں گی
بلکہ ایک صالح معاشرے کی طرح جرم سر زد بھی نہ ہوگا۔ معاشی و اقتصادی تفریق
جرائم کو جنم دیتی ہے ۔ معاشرتی عدم مساوات بھی نا انصافی کا وجود بر قرار
رکھتی ہے ۔ مٹی کے دیے اور ستارے کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہوگا ۔
میں زمیں زاد سہی گو شہ پستی کا مکیں
تو ستارا ہے تو مٹی کا دیا ہوں میں ( فرید ساجد )ؔ
شعور کی دولت بانٹتے بانٹتے ایک عرصہ بیت چکا ہے ۔ کئی بے عقلوں جیسا انمول
رزق دے چکا ہوں جو محض اﷲ کی ذات ہی عطاء کر سکتی ہے ۔ لیکن محنت کا صلہ
ضرور ملتا ہے ۔ مقاصد میں کامیابی یقینا ہوتی ہے ۔ پاگلوں کو عقل مند ہوتے
دیکھا ہے۔ عقل مندوں کو پاگل ۔۔۔۔! کئی نا بینا دیدہ بینا حاصل کر کے
دیکھنے والے ہو گئے ۔ مگر پیدائشی اندھے نہیں ۔۔۔!
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
یہ پیدائشی اندھے دیدہ بینا کو سدا تر ستے ہی رہیں گے جو ان کا مقدر ہے کیو
نکہ انہیں نگاہ ( قوت بصیرت ) راس ہی نہیں ہے ۔ بصیرت اور بصارت کے بغیر
بسیرت ممکن ہے ۔ مگر بسیرت کے بغیر بصیرت اور بصارت ممکن ہی نہیں ۔۔۔ ! خوش
قسمت ہیں وہ لوگ جو بصیرت اور بسیرت کے حامل ہیں ۔ دنیا کا نظام انھی کے دم
قدم سے رواں دواں ہے ۔ ورنہ نظام عالم کب کا رک گیا ہوتا یعنی قیامت واقع
ہو چکی ہوتی ۔ قیامت قیام سے ہے یعنی ٹھہر جانا یا ٹھہر اؤ ۔
دیکھ لینا کہ ہر ستم کا نام
عدل ہوگا کسی زما نے میں
اکثر یت نے ٹھکر ایا ۔ دلبر داشتہ کرنے کی کوشش کی ۔ امن کے منطق کو مسترد
کیا ۔ تصادم کی راہ اپنائی مگر با حو صلگی نے شجاعت کا درس دیا ۔ پھر بھی
حقہ کے بد اثرات سے آگاہ کرنے کو میں نے فرض اولین سمجھا کیونکہ ’’ جو مرا
فر ض تھا میں نے پورا کیا ‘‘ مگر اس بڑ بولے پر میرے و عظ نے کوئی اثر نہیں
کیا جس میں میرا قصور شاید نہیں ہے ۔ میں نے تو حجت تمام کی کہ اﷲ تعالیٰ
نے مجھے جو شعور کی دولت عطا کی ہے اس سے کوئی بڑ بولا مستفید ہو سکے ۔
دھرتی سے با راتر سکے ۔ میری معصوم خواہش اس امید کی طرح ٹھہری جس کے بارے
میں غالب ؔ نے کہا تھا کہ
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی ( غالب)ؔ
یہی وہ صورت ہے جو نظر نہیں آرہی ۔ فضا دھند اور گرد سے اٹ چکی ہے ۔ قریب و
دور کچھ نظر نہیں آرہا ۔ حقائق چھپائے جا رہے ہیں ۔ سچ مبالغہ آرائی کی نذر
ہو رہا ہے۔ جھوٹ کو مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔ مخبری کر کے دستار فضیلت کے
حصول کی کوششیں جاری ہیں ۔ چا پلوسی شیوہ بن چکا ہے ۔ حق کے پیام بر کو
سولی کی طرف گھسیٹا جا رہا ہے ۔ حقہ کی تخریبی کار روائیاں اذہان کو سرطان
زدہ کر رہی ہیں ۔ ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جو اب دے چکی ہے ۔ آخرت سے
ایمان جاتا رہا ہے ۔ اﷲ پر ایمان نہیں رہا ہے تو ایسے میں ان عقل کے اندھوں
سے عقل سے کام لینے کی امید ۔۔۔۔؟
عجب شئے کھو چکا ہوں میں
کہ پاگل ہو چکا ہوں میں ( فرید ساجد ؔ)
نا انصافی کا رواج ہے ۔ ظلم قانون بن چکا ہے ۔ انصاف معدوم ہو چکا ہے ۔
معاشرہ بے راہروی کا شکار ہے ۔ رزق حرام کے حصول کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا
دی جاتی ہے حلال رزق کے حصول کی کوشش کرنے والوں پر آوازیں کسی جاتی ہیں ۔
ان حلا لیوں کو مطعون ٹھہر ایا جاتا ۔ جو حرام کو حرام اور حلال کو حلال ہی
کہتے ہیں ۔ اس کے سوا کچھ نہیں کہتے کیونکہ ان کے خمیر میں حلال ہے ۔۔۔۔!
حقیقتوں کے ابلاغ کیلئے ضروری ہے کہ پاکیزہ الفاظ ادا ہوں ۔ مقدس الفاط کی
ادائیگی تب ممکن ہو گی جب عقل سے فتور جاتا رہے گا ۔ یہی فتور ہی ہے جس کی
بنیا دپر کوئی فاتر العقل قرار پاتا ہے ۔ بھلا فاتر العقل قابل اصلاح ہیں
۔۔۔۔؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب یقینا نفی میں ہے ۔ فاتر العقل ہی میری لغت
میں بڑبولے ہیں ۔ بکتے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ بکتے ہی چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔ سچ
اور جھوٹ کی تمیز نہیں کر سکتے ۔ زہر ا گلنا ہی ان کا وطیرہ ہے ۔ یہ نہیں
جانتے کہ ان کے زہر یلے الفاظ اور اور منافقانہ طر ز عمل سے کوئی جسمانی و
ذہنی سطح پر شدید تکالیف کا شکار ہو رہا ہے ۔ یہ عمل انسانی حقوق کی خلاف
ورزی ہے ۔ یہاں تو عام انسانوں ، عاملوں ، ادیبوں اور شاعروں کو بھونڈے
الزامات کے تحت قتل کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ قانون کو غلط استعمال کر
کے سچ کے پیام بروں کو شہید کرنے کی کوششیں جار ہیں ۔ یہ مذموم حر کتیں
قابل مذمت ہیں ۔ تھر میں فاقہ مستی و قحط ، چو لستان میں ٹو بھے ( چشمے )
خشک ہو رہیں ۔ آمنائیں خود سوزی کے ذریعے انصاف حاصل کر رہی ہیں ۔ لیکن لا
حاصلی قسمت ہے۔۔۔۔! ابلاغ کے ذرائع ہی سماجی انصاف میں اہم کر دار ادا کر
سکتے ہیں ۔ ضرورت ذرا ئع ابلاغ میں کام کرنے والوں کی ذہنی اصلاح کی ہے ۔
خدا یا بانجھ مٹی میں
محبت بو چکا ہوں میں ( فرید ساجد ؔ) |