ھمارا خاندانی نظام

یہ مسجد نبوی کا صحن ھے۔الله کے رسول اپنی سب سے کم عمر زوجہ سیدنا عائشہ کا ھاتھ پکڑے دوڑیں لگا رھے ھیں۔کبھی عائشہ کوگڑیوں سے کھیلتےدیکھ کر مسکرا رھے ھیں۔خانگی زندگی کا اس سے بہتر نمو نہ کہاں ملے گا۔میاں اوربیوی اسلامی معاشرے کے اھم ستون ھیں۔جن کے ذمے ایسی نسل کی پرورش ھے جو امت محمدیہ کی ذمہ داریوں کا حق ادا کر سکے۔

برصغیرکے مسلما نوں نے ایک لمبی زندگی ھندوؤں کےسآ تھ گزاری ھے۔ھمآ ری طرز معا شرت پر آج تک اسکا اثر ھے۔میاں بیوی جنہیں قرآن نےایک دوسرے کالباس کہا ھے انھیں خا نگی نظام میں مکمل آزادی دینا ھمآرے ھا ں ایک معمہ بن چکاھے۔مردکو الله نے قوام بنایا تواسکی ذمہ داریاں بڑھا دیں۔والدین اور بیوی کے تعلقات میں توازن رکھنا مرد ھی کی ذمہ داری ھے۔عوکرت کواس کی زندگی کی بنیادی سھولتیں فراھم کرنا مرد کے ذمے ھے بلکہ ایسا پرسکون ماحول دینا جھاں عورت آزادی سے اپنے شوھر کے لئے سکون کا باعث بن سکے۔ ھمارےمشترکہ خاندانی نظام میں آپکو ایسا خال خال ھی نظر آئے گا۔
اقبال نے کہا تھا۔تصوف۔شریعت۔تمدن۔کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
عجم کی روایات میں کھو گئی
یہ امت حرافات میں کھو گئی

اسلام واحد دین ھےجس میں مرد کے لئے اسکی بیوی کی زینت کا اظھار ثواب قرار دیا گیا ۔لیکن مشترکہ خاندانی نظام میں ممکن نھیں۔ حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ھے کہ انصار میں سے کسی نے دیور کے متعلق دریا فت کیا آپ نےفرمایا دیور تو موت ھے۔

صحابہ کرام کی زندگی میں کو ئی ایسی مثال نھیں ملتی جو مشترکہ خاندانی نظام کی حوصلہ افزائی کر سکے۔ازواجی زندگی میں مکمل آزادی میاں بیوی کا مکلمل حق ھے ۔جسکا مہیا کرنا مرد کی ذمہ داری ھے
Hajra hafiz
About the Author: Hajra hafiz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.