قرآن ِمقدس میں صبروبرداشت اور رضاءبالقضاءوالوں کی اجر و
ثواب کا اعلان اعلی تربیت کا ایک خاص انداز ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اس
طرح قوتِ تحمل بیکار نہ جائے اورکسی طرح کے خسارے اور نقصان کا خیال پیدانہ
ہو ۔
کتابِ ِحکمت کا یہ ایک بہت بڑا امتیاز ہے کہ اس کے تعلیمات میں عنصرِحاضر
کے مسائل کا نہ صرف حل ملتا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات ایک مسلمان کو ایسا با
اخلاق بنانا چاہتا ہے جس کے کردار صرف افعال، اعمال اور عادات نہ ہوں بلکہ
ان کی پشت پر بند فکر، مضبوط عقیدہ اور ارفع نظریہ ہوجو اسے مسلسل دعوتِ
عمل دیتا رہے ۔
یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال آسکتا تھا کہ اسلام ہر وقت گردن جھکانا اور
لوگوں سے ڈرنے کا درس دیتاہے اورمسلمانی جی حضوری کا نام ہے ۔قرآن حکیم کے
مطالعہ سے اس سوال کا بھی جواب ملتا کہ قرآن نے مسلمانوں کو ایمانی جذبات
کے اظہار کی اجازت دی ہے۔ذیل میں آنیوالی آیات سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ
وہ تحمل و برداشت کو صرف منفی حدوں تک نہیں رکھنا چاہئے بلکہ مصائب و آفات
کے مقابلہ میں ایک مثبت رخ دینا ہی کمال ہے-”فالقی السحرة سجدا قالو اآمنا
برب ہارون و موسیٰ قال آمنتم بہ قبل ان آذن لکم انہ لکبیر الذی علمکم السحر
فلاقطعن ایدیکم و ارجلکم من خلاف ولا وصلینکم فی جذوع النخل و لتعلمن اینا
اشد عذابا و ابقی قالوا لن نشرک علی ما جاءنا من البینات والذی فطرنافاقض
ما انت قاض انما تقضی ہذہ الحیٰوة الدنیا انا امنا بربنا لیغفر لنا خطٰیٰنا
وما اکرہتنا علیہ من السحر واللہ خیر و ابقی” (سورتہ طہپارہ16 )
پھروہ جادو گر[جو حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلے میںجمع ہوئے تھے ] سجدہ
میں گر پڑے اور انہوں نے[فرعون سے] کہا کہ ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر
ایمان لے آئے ہیں۔ فرعون نے[طیش میں آکر] کہا تم ہماری اجازت کے بغیر کس
طرح ایمان لے آئے ہو؟ ´۔ یقیناََ یہ[موسی ] تمہارا بڑا جادو گر ہے جس نے تم
لوگوں کو جادو سکھایا ہے۔ اب میں تمہارے ہاتھ پاوں کاٹ دوں گا اور تمہیں
کھجورکی درختوںسے لٹکا دوں گا تاکہ تمھیں اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ کس کی
سزا زیادہ سخت اور زیادہ باقی رہنے والی ہے۔[فرعون کیگفتگو سن کر] ان لوگوں
نے کہا کہ ہم تیری دھمکی کو موسیٰ کے دلائل اور اپنے پروردگار سے مقدم نہیں
کرسکتے اب تمہاری مرضی ہے جو فیصلہ کرنا چاہے کر لے۔ تو صرف اسی دنیاکی
زندگی تک کا فیصلہ کر سکتا ہے اور ہم اس لیے ایمان لے آئے ہیں کہ خدا ہماری
سابقہ غلطیوں کو اور اس جرم کو معاف کردے جس پر تونے ہمیں مجبور کیا تھا
اور بے شک خدا ہی عین خیر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔
آج ہمیں جتنے بہی مشکلات درپیش ہیں کتنے ہی پریشانیوں کا سامنا ہے اگر ہم
ان سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرناہوگا یہی ہمارے کامیابی
کا ضامن ہے ۔ |