وسطی جمہوری افریقاکی مساجد میں شراب خانے کھل گئے

وسطی جمہوری افریقا میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کے پیچھے پوشیدہ عیسائیت کے مذموم عزائم بہت جلد سامنے آناشروع ہوگئے ہیں ۔خونخوار عیسائی ملیشیااینٹی بالاکا کے ہاتھوں ہونے والی مسلم نسل کشی کامقصد کاروباری مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرنااورملک کو عیسائی اسٹیٹ بناناہے۔ مسلمانوں کے قتل عام اورہمسایہ ممالک کی جانب ہجرت کے بعدان کے مکانات پرعیسائیوں کے قبضوں کاسلسلہ عروج پرہے ۔ درجنوں مساجد کوشراب خانوں میں تبدیل کرکے ان میں رقص وسرور کی محفلیں منعقدکی جارہی ہیں۔الجزائر سے شائع ہونے والے عرب جریدے الشروق نے اپنی رپورٹ میں افریقی خبررساں اداروں کے حوالے سے لکھاہے کہ افریقی ملک وسطی جمہوری افریقا میں مسلمانوں کی دوسرے ممالک میں نقل مکانی کے بعد ان کے مکانات پر عیسائیوں کے قبضے جاری ہیں۔شرپسندعیسائی ملیشیاکے اہلکاروں نے مساجد کوبھی نہ بخشااورجگہ جگہ مساجدپرقبضہ کرکے وہاں شراب کی خریدوفروخت اورڈانس پارٹیوں کااہتمام کررہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق دارالحکومت بنگوئی میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارندوں نے تصدیق کی ہے کہ اینٹی بالاکا ملیشیاکے اہلکاروں کی سرپرستی میں درجنوں مساجد میں شراب نوشی اوررقص کی پارٹیا ں منعقد ہوتے ہوئے دیکھی گئی ہیں ۔شرپسندوں نے اکثر مساجد سے میناراورگنبدیں ہٹاکران کا اسلامی تشخص بری طرح پامال کردیاہے ۔بہت سی مساجد میں رقص وسرود کی محفلوںکے شرکاءکی تفریح طبع کے لئے سورکے گوشت کے سیخ کباب کابھی اہتمام کیاجاتاہے جبکہ بازاروں میں واقع بعض مساجد کوتجارتی مراکز کے طورپراستعمال کئے جانے کی خبریں ہیں۔سعودی جریدے سبق الیکٹرونیہ نے فرانس میں افریقی خطے میں تشدداورعیسائیوں کے انتہاپسندی کے نشانہ بننے والے مسلمانوں کی حالت زارپرتحقیقات کرنے والے انسانی حقو ق کے ادارے کاحوالہ دیتے ہوئے لکھاہے کہ دارلحکومت بنگوئی اوردوسرے بڑے شہرمبائیکی سمیت وسطی جمہوری افریقاسے مسلمانوں کی ہمسایہ ممالک میں ہجرت کے بعد ہزاروں بے گھرعیسائیوں کومسلمانوں کے مکانات میسرآگئے ہیںجن میں انہوںنے بغیر کسی رکاوٹ کے ڈیرے ڈال دئے ہیں۔عیسائی ملیشیاخود کوتمام مسلمانوں کی متروکہ املاک کی وارث سمجھ رہی ہے اورملیشیاکے بااثر عناصرنے بہت سے علاقوں میں مسلمانوں کے خالی مکانات کونیلام کردیاہے ۔لاقانونیت اورغنڈ ہ راج سے فائدہ اٹھاکرسرکاری افرادبھی موقعے سے فائدہ اٹھانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں واقع مسلمان تاجروں اورکاروباری افرادسے خالی ہونے والے مکانات پر سرکاری اورحکومتی شخصیات قابض ہوچکی ہیں۔عرب جریدے الوفد نے لکھاہے کہ اینٹی بالاکا نے اعلان کیاہے کہ مسلمانوں کی املاک پھر ان کااستحقاق ہے کیونکہ گزشتہ وسطی جمہوری افریقامیں برس برسراقتدارآنے والے مسلمان صدرجتودیا کے حامی گروپ سلیکاکوبے دخل کرنے میں اینٹی بالاکاکااہم کردارہے ۔ملیشیا ملک کی عیسائی تشخص کی بحالی اورعیسائی مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑرہی ہے ۔رپورٹ کے مطابق بنگوئی اورمبائیکی شہروں میں مسلمانوں کے 5 ہزارسے زائد تجارتی مراکز عیسائیوں کے قبضے میں ہیں جبکہ ہزاروں مکانات اوردرجنوں مساجدان کی تحویل میں ہیں۔مبائیکی میں باقی رہنے والے واحد مسلمان صالح دیدوجوشہرکے ڈپٹی مئیربھی تھے ، کورواں ماہ اینٹی بالاکاکے عناصرنے دن دیہاڑے قتل کیاان کے اہل خانہ کو چاڈ بھیجنے والے سرکاری حکام ان کی جائیدادکواینٹی بالاکاکے قبضے سے بچانے میں ناکام رہے ۔صالح دیدوکی طرح سینکڑوں ایسے مسلمان تاجر املاک چھوڑکر جاچکے ہیں جن کی بدولت اس چھوٹے افریقی ملک کی تجارتی مارکیٹ رواں دواں تھی۔لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے القدس العربی کے مطابق وسطی جمہوری افریقہ میں مسلمانوں کی مدد کے لئے جانے والی انسانی حقوق کی امدادی تنظیموں کے کارکنوں کاکہناہے کہ بنگوئی سمیت بڑے شہروں میں متشددملیشیااینٹی بالاکاکاراج ہے۔ چھ ہزارسے زائد افریقی امن اورفرانسیسی فو ج کی موجودگی کے باوجودشہرکے انتطامات مسلح عیسائی ملیشیاکے ہاتھوں میں ہے حالانکہ امن فوج کی یہاں تعیناتی کامقصدان مسلح گروپوں کو بے دخل کرناتھالیکن بجائے مسلح گروپوں کے یہاں تمام کارروائیوں کانشانہ مسلمان بنے۔امن فوج مسلمانوں کی املاک پر قبضوں کے واقعات پربھی خاموش تماشائی کاکرداراداکررہی ہے ۔بنگوئی میں موجودانسانی حقوق کی بین الاقوامی ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذمہ دارکاکہناہے کہ دہشت گرد ملیشیاکی بے لگا م کارروائیوں کے سبب دارالحکومت سمیت پورے ملک میں وحشت اورخوف کی کیفیت طاری ہے ۔ذرائع ابلاغ اورامدادی تنظیموں کی نقل وحرکت اورآزادانہ کام کرنا ممکن نہیں رہاجس کی وجہ سے بے حرمتی کے شکارمساجد اورچھینی گئی مسلم املاک کے درست اعدادوشمار سامنے لانے میں رکاوٹیں درپیش ہیں ۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس مستعفی ہونے والے مسلمان صدرکے استعفی کے بعد سے شروع ہونے والی خونریزی میں ہزاروں مسلمان قتل اورلاکھوں بے گھرہوچکے ہیں لیکن وسطی جمہوری افریقامیں مسلمانوں کے خلاف نفرت اوراشتعال کی فضااب تک قائم ہے ۔فرانس اوردیگر یورپی ممالک کے تعاون سے منصب صدارت پر فائز ہونے والی عیسائی خاتون سامباپانزامسلمانوں کی نسل کشی کو مذہبی فسادات ماننے کے بجائے اسے انتقامی کارروائیوں کانام دے رہی ہے ۔ فرانسیسی وزیردفاع سمیت کئی اہم فوجی اورسرکاری حکام مسلمانوں پر ہونےو الے مظالم کے بعد وسطی جمہوری افریقاکے دورے کرنے کے دوران مسلمانوں کے انخلااورقتل عام پر اطمینان ظاہرکرچکے ہیں۔فرانس کی جانب سے مسلح ملیشیاکوجدید اسلحہ کی فراہمی جاری ہے ۔صدرپانزاکے اقتدارکی حفاظت کے لئے سرگرم امن فوج اورسرکاری انتظامیہ کی کوشش ہے کہ اندرونی صورتحال کی خبریں لیک نہ ہونے پائیں کیونکہ ماضی میں ہونے والے مسلم کش واقعات کی خبریں بین الاقوامی میڈیامیں آنے سے صدرپانزاسامبااوران کے یورپی اتحادیوں کی بدنامی کاباعث بنی ہے ۔ الجزیرہ کے مطابق بین الاقوامی میڈیامیں مسلم نسل کشی کی خبروں کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات کے ذمہ داروںتک رسائی کے لئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کااعلان کیاگیاہے تاہم یہ بھی محض خانہ پری اورکاغذی کارروائی کے سواکچھ نہ تھی اتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی ہجرت اورقتل عام کے باوجوداب تک اس پر کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی ۔وسطی جمہوری افریقاکی حکومتی انتظامیہ بدامنی اورخطرے کوبہانہ کرکے غیرملکی ذرائع ابلاغ اورامدادی تنظیموں کی نقل وحرکت کومحدودرکھنے لگی ہے جس کے باعث درست حقائق تک رسائی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کومشکلات اوررکاوٹوں کاسامنارہتاہے۔غیرملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ برس شروع ہونےو الے مسلمان مخالف پرتشدد واقعات کے نتیجے میںاب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد مسلمان وسطی جمہوری افریقاچھوڑکر ہمسایہ ممالک چاڈ اورکیمرون منتقل ہوچکے ہیںچونکہ چاڈ مسلم اکثریتی ملک ہے اوروہاں کی انتظامیہ نے وسطی جمہوری افریقا کے مسلمانوں کوپناہ دینے کے انتظامات کئے ہیں جس کے سبب متاثرین کی اکثریت چاڈ جاچکی ہے۔وسائل کی عدم فراہمی کے باعث باقی رہنے والے مسلمان متاثرین کی تعدادچار لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے انہیں خوراک کی کمی اورطبی سہولیات کے فقدان کے سبب مشکلات کاسامناہے ۔ بے گھرہونے کے بعدانتہائی غیریقینی کیفیت سے دوچارہوکرملک کے اندرکرامن کاٹھکانہ تلاش کرتے پھررہے ہیں لیکن حکومتی انتظامیہ اورامن فوج تماشائی بن کران مفلوک الحال مسلمانوں کے حوالے سے غفلت اوربے حسی کامظاہرہ کررہی ہے ۔
 

علی ہلال
About the Author: علی ہلال Read More Articles by علی ہلال : 20 Articles with 16664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.