شخصی خاکہ
پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام گورنمنٹ کالج ناظم آبادکے ان اساتذہ میں سے ہیں
جنہوں نے کالج کے قیام کے ابتدائی دنوں (۱۹۵۶ء) میں تدریسی فرائض کا آغاز
کیا ۔اس سے قبل وہ اردو کالج میں ۲۵ جون ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۶ء تک استاد کی حیثیت
سے فرائض انجام دیتے رہے ۔ گورنمنٹ کالج سے ۲۱ اگست ۱۹۸۲ء کو ریٹائر ہوئے
ساتھ ہی جامعہ کراچی کے شعبہ اردو اور جناح یونیورسٹی برائے خواتین میں
۲۰۰۰ء تک تدریس کے فرائض انجام دیے اس طرح آپ کی تدریسی خدمات ۱۹۴۹ ء تا
۲۰۰۰ء یعنی۵۱ برسوں پر محیط ہیں۔
۸۶ سالہ ڈاکٹر سلام ۲۰۰۰ ء سے ضعیفی اور صحت کی خرابی کے باعث اپنے گھر تک
محدود ہیں۔ گورنمنٹ کالج ناظم آبادکے میگزین ’’روایت‘‘ کے گولڈن جوبلی نمبر
ڈاکٹر عبد السلام کے تاثرات کے بغیر ادھورا ہی رہے گا چنانچہ۷ اپریل ۲۰۰۸ء
بہ روزپیر میں پروفیسر ہمایوں اقبال کے ہمراہ اپنے کالج سے ڈاکٹر عبد
السلام کے گھر واقع نارتھ ناظم آباد کے بلاک ’ایچ‘ پہنچا ، دروازے پر ڈاکٹر
عبدالسلام ‘ کے نام کی تختی لگی تھی،بیگم عبد السلام نے ہمیں ڈاکٹر صاحب تک
پہنچا یا ،وہ اپنے گھر کے کامن روم میں ڈائننگ میز کے قریب کرسی پر بیٹھے
تھے ساتھ ہی ’واکر‘رکھی تھی ، انتہائی نحیف ،کمز ور ، چھو ٹا قد،چھریرا بدن،
سفید کرتا پائے جامہ پہنے، خس خسی مگر زیادہ سفید داڑھی، سر پر کالے سفید
چند بال ،چہرہ پر دانت نمایاں، لیکن بلند حوصلہ، بہ ہمت،خوش اخلاق، منکسر
المزاج طبیعت۔ خوشی سے ملے ، ہماری آمد ان کے لیے اچنبھا نہیں تھی بلکہ وہ
ذہنی طو پر اس کے لیے تیار تھے کیوں کہ چند روز قبل ہمایوں اقبال صاحب ان
کے گھر جا چکے تھے اس وقت وہ قطعاً اس قابل نہیں تھے کہ گفتگو کرسکتے ۔
ڈاکٹر صاحب کی بیگم جن کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ بھی اردو میں
ایم اے ہیں اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کرانے میں پھر تیلے انداز میں مصروف
تھیں۔جس قدر وقت ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزرا ان کی بیگم جو خود بھی عمر رسیدہ
ہیں ڈاکٹر صاحب پر جس طرح توجہ اور ان کا خیال کر رہی تھیں ، در حقیقت یہ
مشرقی روایات اور اسلامی شعار کا جیتا جاگتا عملی نمونہ تھا۔
ڈاکٹر صاحب سے تعارف ہوا ،وہ پہلے سے تیار تھے۔ گفتگو شروع ہوئی۔ڈاکٹر صاحب
نے اپنی اردو کالج سے وابستگی اور خدمات پر بولنا شروع کیا، جب انہیں کافی
دیر ہوگئی تو میں نے انہیں گورنمنٹ کالج ناظم میں گزارے ہوئے ماہ و سال کے
بارے میں کچھ بتانے کو کہا ، انہوں نے گورنمنٹ کالج سے اپنی وبستگی کے بارے
میں چند جملے کہے لیکن وہ پھر سے اردو کالج میں گزارئے ہوئے اپنے ماضی میں
کھو جاتے، محسوس ہوا کہ ضعیف العمری کے باعث ڈاکٹر صاحب کی یادداشت ان کا
ساتھ نہیں دے پارہی۔وہ بار بار اردو کالج پہنچ جاتے اور میں انہیں گورنمنٹ
کالج جس میں انہوں نے ۲۶ سال(۱۹۵۶ء ۔ ۱۹۸۲ء)گزارے تھے واپس لاتا رہا۔ڈاکٹر
صاحب کی علمیت و قابلیت میں کوئی شبہ نہیں وہ اپنے موضوع پرy authorit
سمجھے جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب کا تحریر کردہ ایک خود نوشتی مضمون معروف ادبی رسالے ’’سیپ‘‘ کے
شمارہ ۷۵ (خاص نمبر) ۲۰۰۶ء میں بہ عنوان ’’ممنوعہ راستہ‘‘ شائع ہوا ۔ اس
مضمون کی فوٹو کاپی آپ نے ہمیں فراہم کی ۔ اس رسالے کی تلاش میں وہ اپنی
واکر کے ذریعہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے اپنے بیڈ روم تک گئے اور از خود یہ
شمارہ ڈھونڈ کر لائے۔ مضمون ڈاکٹر صاحب پر سیر حاصل مواد فراہم کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے تقسیم ہند کے بعدستمبر ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی
کو اپنا مسکن بنا یا۔آپ کا تعلق ہندوستان کے علاقے راجستھان کے شہر ’’کوٹہ
‘‘ سے ہے۔جہاں پر آپ ۲۵ جنوری ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے۔ڈاکٹر صاحب بچپن میں بہت
ہی شوخ اور شرارتی تھے لیکن پڑھنے لکھنے میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ اﷲ تعا
لیٰ نے ان میں ذہانت کوٹ کو ٹ کر بھر ی تھی۔ آپ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے
کہ ’’ان کی پیدائش پر ان کے کان میں اذان کی نحیف آواز کے بعد جو زور دار
آواز پڑی وہ طبلے کی تھاپ اور سارنگی کے سُر تھے۔شا ید اسی لیے مجھے زندگی
بھر موسیقی سے د لچسپی رہی‘‘۔ علی گڑھ مسلم یوینورسٹی سے اردو میں ایم اے
اور ایل ایل بی کیا جہاں پر آپ کے اساتذہ میں پروفیسر آل احمد سرور، ڈاکٹر
ابواللیث صدیقی اور عزیز احمدشامل تھے ۔ آپ کا کہنا ہے کہ ’’مجھ میں تنقید
سے د لچسپی پروفیسر آل احمد سرور صاحب کے لیکچروں کی وجہ سے ہوئی‘‘۔
ابتدا میں بر ماشیل، اسٹیت بنک میں ملازمت کی پھر بابائے اردو مولو ی عبد
الحق کے ساتھ ’کل پاکستان انجمن ترقی اردو ‘ سے منسلک ہو گئے ۔ڈاکٹر سلام
کا مزاج کسی دفتر میں کلرکی کا نہیں تھا وہ بنیادی طور پر استاد تھے ، ان
کا کہنا ہے کہ’’ وہ بنیادی طور پر ٹیچنگ کے آدمی ہیں‘‘ ۔ یہی وجہ ہے کہ
انہوں نے برما شیل اور اسٹیٹ بنک کی ملازمت سے از خود سبکدوشی اختیار
کی۔۱۹۵۶ء میں گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں سینئر لیکچر رہوئے اورساتھ ہی
شعبہ اردو کے سربراہ بھی ہوئے اس وقت کالج میں آپ کے ساتھیوں میں ڈاکٹر
اسلم فرخی، انجم اعظمی، شاہد عشقی اور عقیلہ شاہین عباسی تھیں۔آپ نے
گورنمنٹ کالج میں رہتے ہوئے ۱۹۶۸ء میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی آپ کے
مقالے کا عنوان تھا ’’ اردو ناول بیسویں صدی میں ‘‘۔
گورنمنٹ کالج کے اساتذہ میں اسلم فرخی صاحب کو بھی یہ فضیلت حاصل ہے کہ
انہوں نے بھی گورنمنٹ کالج میں رہتے ہوہے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ڈاکٹر
سلام لسانیات پر ماہر تصور کیے ملازمت کے ساتھ سا تھ آپ جامعہ کراچی کے
شعبہ اردو میں لسانیات کے استاد بھی رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے گورنمنٹ کالج میں بھر پور زندگی گزاری، تدریس کے ساتھ ساتھ
ہم نصابی سرگرمیوں میں مسلسل سرپرستی کی، وہ ہاکی کے اچھے کھلاڑی رہ چکے
تھے کالج میں بھی کھیلوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔آپ کا کہنا تھا کہ
اس زمانے میں شہنشاہ حسین بہت معروف طالب علم تھا لیکن وہ میری انتہائی عزت
کیا کرتا تھااس نے کبھی میرے سامنے سگریٹ نہیں پی، اگر کبھی ایسا ہوا کہ
میں سامنے آبھی گیا تو وہ سیگریٹ والا ہاتھ پیچھے کر لیا کرتا تھا۔ڈاکٹر
صاحب نے اپنے ساتھی اساتذہ اور کالج پرنسپل کے بارے میں اچھے خیالات کا
اظہار کیا۔آپ کا کہنا تھا کہ کالج پرنسپل گیلانی سروس کے آدمی تھے، اپنے
ساتھیوں کا بہت خیال رکھا کرتے تھے لیکن ان کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ ہم
لوگ ان کی تعریف کریں۔آپ نے کہا کہ گیلانی صاحب کے بعد جعفری صاحب اس منصب
پر فائز ہوئے بہت اچھے دوست تھے ، انہوں نے کالج کے امور کو اپنے کنٹرول
میں رکھا، شریف اور نیک انسان تھے ان کے برعکس ڈاکٹر سید ایس ایم احمد
تیزطررار اور انجمن باز قسم کے انسان تھے ان کا یہ نام اسلم فرخی نے رکھا
تھا، رشید صاحب کو طلبا ء نے بہت پریشان کیا، فاروقی صاحب بہت کم وقت کے
لیے آئے انہوں نے تیز دوڑنا شروع کر دیا تھا، ان کی شہرت ایک اچھے منتظم کی
تھی لیکن انہیں چلنے نہیں دیا گیا۔عبد الرؤف کو بھی طلبا ء نے تنگ کیاالبتہ
ظہیر صاحب کے زمانے میں حالات بدل گئے تھے وہ اچھے منتظم اور اچھے انسان
تھے۔
اس سوال کا کہ آپ اپنے زمانہ طالب علمی کا موجودہ دور سے کیسے تقابل کریں
گے۔ آپ نے کہا کہ ۱۹۴۷ء کے بعد حالات بالکل بدل گئے ، دنیا ہی بدل گئی، وہ
دنیا الگ تھی یہاں کی دنیا الگ ہے، وہاں استاد کا احترام تھا، عزت کی جاتی
تھی، طلباء میں کچھ حاصل کرنے کا جذبہ اور لگن تھی جس کا اب فقدان پایا
جاتا ہے۔آج کا استاد سیاست میں شامل ہوگیا ۔ آپ نے کہا کہ حالات بگاڑنے کی
ایک وجہ اپنی عزت سے لڑکوں کو کھیلنے کا موقع دینا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں آپ کے بیتے ہوئے بائیس
سالوں کا ناقابل فراموش واقعہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ ’’ مجھے زبر دستی
پرنسپل بنایا جاناتھا‘‘۔میں نے مجبوری میں پرنسپل کا چارج لے لیا لیکن
انہیں تاکید کرتا رہا کہ جلد ریگولر پرنسپل بھیجیں۔ میں نے ان سے کہا کہ
مجھ سے پڑھوا لیجیے میں صرف تدریس کا آدمی ہوں ۔ ایک اور واقعہ آپ نے یہ
بتا یا کہ ہمارے ایک انگریزی کے استاد تھے سید محمد احسن ، وہ امریکہ چلے
گئے تھے اور وہیں پر مستقل رہائش اختیار کرلی تھی ان کا خط امریکہ سے میرے
پاس آیا جس میں انھوں نے لکھا کہ وہ وہاں old huse میں رہتے ہیں، میں ان کا
خط پڑھ کر خون کے آنسو رویا، خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں یہ صورت حال نہیں
، احسن صاحب کی دو لڑکیاں بھی ہیں۔ نئی نسل کے نام اپنے پیغام میں ڈاکٹر
سلام نے کہا کہ وہ’’ پڑھائی کو مقدم رکھیں اگر وقت ملے تو کھیلوں میں بھی
دلچسپی لیں‘‘۔
ڈاکٹر عبد السلام بنیادی طو پر ایک استاد ہیں انہوں نے ۱۹۴۹ء سے پڑھانا
شروع کیا اردو کالج کے بعد گورنمنٹ کالج ناظم میں ۱۲ اگست ۱۹۸۲ء تک استاد
رہے، اس دوران وہ جامعہ کراچی میں بھی پڑھاتے رہے، ریٹائر ہونے کے بعد
جامعہ کراچی اور پھر جناح یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیے ۲۰۰۰ء
میں جب آپ کی صحت اس قابل نہ رہی کہ آپ باہر جاسکیں تو آپ مجبور ہوگئے۔آپ
نے متعدد کتابیں تخلیق کیں ان میں تحقیق و تنقید، تسلیل البلاغت، فن ڈرامہ
نگاری منزل بہ منزل، لسانیات کی ٹیکسٹ بک عمومے لسانیات، جدید اردو تنقید
کے معمار، فن ناول نگاری، اصول تنقید ، میرانیس اور ان کے مرثیے شامل ہیں ۔
آپ کے بے شمار مضامین مختلف ادبی و تحقیقی رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ (شائع
شدہ مجلہ ’روایت ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلباء ، ناظم آباد)
پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام اب اس دنیا میں نہیں، مجھے اس بات کا علم ڈاکٹر
اسلم فرخی کی خاکوں کی کتاب ’’موسم بہار جیسے لوگ‘‘ میں شامل ڈاکٹر عبد
السلام کا خاکہ پڑھ کر ہوا، ڈاکٹر اسلم فرخی سلام صاحب کے ساتھیوں میں سے
تھے وہ اور سلام صاحب گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں کئی برس تدریس کے فرائض
انجام دیتے رہے۔اسلم فرخی صاحب کا لکھا ہوا خاکہ پڑھ کر سلام صاحب سے کی
ہوئی گفتگو اور وہ ان کا معصوم چہرہ نظروں میں گھوم گیا۔ ڈاکٹر صاحب پر اب
ایک کتاب بھی منظر عام پر آگئی ہے۔ اچھے انسان تھے ، اﷲ مغفر ت کرے۔
گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد کے کئی اساتذہ کو یہ اعزاز حاصل ہو سکا
کہ انہوں نے کالج کی ملازمت کے دوران اعلیٰ تعلیم کے سلسلے کو جارکھتے ہوئے
ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ان اساتذہ میں ڈاکٹر اسلم فرخی، عبد
القیوم اور ڈاکٹر عبد السلام شامل ہیں ۔ ان اساتذہ کی تقلید کرتے ہوئے مجھے
بھی یہ شرف حاصل ہوسکا کہ میں نے بھی جامعہ ہمدرد سے حکیم محمد سعید شہید
کی کتاب اور کتب خانے سے تعلق کے حوالے سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ میرے
تھیسس کا عنوان تھا’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی
ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘۔ میرے ایک ساتھی ڈاکٹر سردار احمد
صاحب نے کو بھی یہ اعزاز حاصل ہوسکا۔ کالج کے موجودہ پرنسپل پروفیسر نوید
ہاشمی ایم فل کرچکے ہیں ۔امید کی جاسکتی ہے کہ انہیں بھی یہ اعزاز حاصل ہو
گا۔ ڈاکٹر عبد السلام نے ’’اردو ناول کے ارتقا‘‘ پر تھیسس لکھا۔ ڈااکٹر
اسلم فرخی صاحب ’محمد حسین آزاد‘ پر اور عبدالقیوم صاحب نے ’نثر حالی‘ پر
تھیسس لکھااور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
ڈاکٹر عبدالسلام سے میرا ایک تعلق ہندوستان کی ریاست راجستھان ہے۔ وہ بھی
راجستھانی اور میں بھی بنیادی طور پر راجستھانی ہی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب
راجستھان کی مشہور ریاست کوٹے سے تعلق رکھتے تھے میرے آباؤاجداد کا قیام
ریاست بیکانیر میں رہا ، بعض قریبی عزیز اب بھی بیکانیر کی سرزمین کو آباد
کیے ہوئے ہیں۔ آخر میں اپنی بات کو ڈاکٹر عبد السلام کے ظاہری روپ پر ان کے
ایک قریبی دوست ڈاکٹر اسلم فرخی کی رائے پر ختم کرتاہوں’’چھوٹا قد، گورا
رنگ، کرنجی آنکھیں، جھدرے بال ،ہنستا، مسکراتاچہرہ، چال ڈھال اور انداز میں
کھلاڑیوں کا بانکبن․․․ یہ تھا ڈاکٹر عبد السلام کا ظاہری روپ ۔ اُن کا باطن
اس سے بھی زیادہ اُجلا اور شفاف تھا‘‘۔ اﷲ تعالیٰ مغفرت کرے۔ آمین
(مصنف کی کتاب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ ۲۰۱۲ء میں شامل) |