ناقدین، مورخین اور بے
چارے متاثرین سب مل جل کر ، ماضی کے مقبول اور غیر مقبول،زبانی کلامی
جمہوری اور غیرضروری ، تمام حکمرانوں کی،کھڑکی تھوڑپرفارمنس پرچاہے جتنے
بھی سوالیہ نشان ثبت کرلے لیں ۔مگر قوم کا درد، رکھنے کے دعویدار اہل ہنر
کھوجی آج تک اس مفرور فل سٹاپ تک نہیں پہنچ سکے جو ان سنہرے ادوار میں جنتا
کے خراب مقدر کے باعث پیدا ہونے والی عوامی ذلتوں اوربحرانوں کے سامنے لگا
کر اس ٹریجک اورخوفناک سین کا دی اینڈ کیا جاسکتاہوجس نے مدتوں سے عوام
نامی مخلوق کاٹوٹل بینڈ بجا رکھاہے۔ ہمارے پاس اپنی بدبختیوں پر لگانے کے
لیے سوالیہ نشان تو ہزاروں ہیں پر فل سٹاپ سرے سے ہی کوئی نہیں۔ اس مفرور
فل سٹاپ تک پہنچے میں مشکلوں، مصلحتوں یا اناہلیوں کا کون سا کوہ طور حاہل
ہے اس اہم قومی رازکی سراغ راسا نی بذات خود برس ہا برس سے صاحب اختیار مہم
جوووں کے لیے ایک عظیم الشان معمہ بنی ہوئی ہے۔آفرین ہے ہردکھ درد کا
تیزبہدف علاج ڈھونڈلینے والوں پر، جن کی بصیرت اور اہلیت کے طفیل عرصہ ہوا
ان کے کتے بھی ہواووں خلاووں، ستاروں اور سیاروں تک جاپہنچے، جبکہ ہماری
دھکا سٹارٹ اور سست قدم فہم و فراست ، لاروں، ادھاروں، اور خساروں سے ایک
انچ بھی آگے بڑھنے کا تردد کرنے سے ہمیشہ انکاری نظر آتی ہے۔ ڈنڈے سوٹے لے
کر ا یک فل سٹاپ کے تعاقب میں شوق آوارگی کی تمام حدوں کو پار کیے بیٹھے
ہیں مگر خیر سے میسر کشکول کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ غربت، دہشت گردی، بدامنی،
بے روزگاری ، لوڈشیڈنگ ، منہگائی، اوراب تھر میں پڑنے والاقحط اور نہ جانے
ان جیسی کتنی مستقل اور موسمی ذلتوں کی ایک لمبی چوڑی لسٹ ہے جوہاتھ دھو کر
اس ملک کے عام آدمی کے اس طرح پیچھے پڑی ہوئی ہیں جیسے حالات کے مارے ہوئے
اس مسکین کی باوفا محبوبائیں ہوں۔ان لعنتی محبوباوں کی یوٹیلٹی صرف اتنی ہے
کہ غریب آدمی انہیں دیکھ کر یا تو ڈرسکتاہے یا پھر مرسکتاہے۔حالانکہ کہ
فلاحی معاشرے میں شوہروں کو ڈارنے، دھمکانے اور کے مزاج ٹھکانے لگانے کے
جملہ حقوق صرف بیویوں کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہونے چاہییں۔
اسے مقدر کی خرابی کہیں یا نیت کی، حد ہوگئی بلکہ معاملات ہر قسم کی
بربادیوں سے بھی آگے نکل گئے مگر حد نہیں آئی وہ پوائنٹ نہیں آیاکہ جس کو
لوگ صدق دل سے شرمندگی اور بے شرمی کی کی حدمحفوظ مان لیں، وہ حدجہاں خود
اپنے ہاتھوں سے اپنے آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک کرنے کا جنون ہوش کے
ناخن لے لیتاہے۔ وہ انتہا یا وہ آخیر جس کے بعد قومیں اور معاشرے فلاح،
ترقی اور خوشحالی کے صراط مستقیم پر بندے کے پتروں کی طرح اس طرح گامزن ہو
جاتے ہیں کہ واپس مڑ کر دیکھنے کا نام نہیں لیتے ۔ یہاں صدیوں سے ایک ہی
گھٹیا، اور فلاپ ڈارونی فلم پیش کی جاری ہے جس میں سیچوایشن خرابیوں اور ہر
طرف پھیلی بدحالیوں کے کلائمیکس پراسطرح مستقل دھرنا دیئے بیٹھی ہے جیسے
کسی نے اس لاچار کی ٹانگیں تھوڑ کر اس کے ہاتھ میں دے رکھی ہوں اور اس کو
کشکول تھما کر فقیرنی بنادیاہو۔قوم قربان جائے اس سین کے ڈائریکڑوں اور پرو
ڈیوسروں کے جن کی خاموش کرامات کا اثر ہے کہ بے حسی اور بے بسی کاسین ہے کہ
دی اینڈ ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہر دور میں بڑے بڑے زیرک مرد میدان ان
دائمی ذلتوں سے رہائی کے فلک شگاف دعووں کی نوعید سنا تے نازل ہوتے رہے
مگربدقسمتی سے عوام کو اقتدار کے ایوانوں سے اپنی رخصتی کے علاوہ کوئی بڑی
خوشی نہ دے سکے۔خود شجر اقتدارکی گھنی اور ٹھنڈی چھاوں میں خواب خرگوش کے
مزے لیتے رہے جبکہ غریبوں کی نیندیں اور رنگ آٹے دال کے بھاؤ نے ہی اڑائے
رکھے۔ جب جب میدان عمل میں خلق خدا پر، انے وا ٹوٹتی مشکلا ت ،
مسائل،مصیبتوں اور ذلتوں نے عوام کے ان نجات دہندوں کی بصیرت،عقل سلیم ،
معاملہ فہی ،دانائی اور فرض شناسی کو للکارا تب تب یہی جواب آیا،ہم بھی موج
میں ہیں آنے والے معزز مہمانوں تم بھی بلاروک مولی گاجر سے سستے عوام کے
سروں پر سوار ہو کربلا روک ٹوک عیاشی کرو، وری ناٹ، کس کی بصیرتوں اور کس
کی بصارتوں میں میں انتا دم خم ہے کہ تم سے پنگا لے سکے تمہارا مقابلہ
کرسکے؟ تم سے اورتمہارے اثرات بد سے قوم کو بچاسکے۔ ہر در آنے والے بحران
کواپنائیت سے بھرپوراماحول فراہم کیا گیا اور اپنی غفلتوں کے چائے پانی سے
نہ صرف ان کی تواضع کی گئی بلکہ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ یہاں تمہارا چیلنج
قبول کرنے اورتمہیں شکست سے دوچارکرنے کے ذمہ دارانہ فی الوقت گھوڑے اور
گدھے بیچ کر سو رہے ہیں اور جو تھوڑے بہت جھاگ رہے ہیں ان کی ہومیوپیتھک
بصیرت خود آج تک ان کا کچھ نہیں بگاڑ اسکی تو کسی اور کیا ا کھاڑ لے گی۔
لہذاہر قسم کے قابل احترام بحرانوں، خوش آمدید، چشم ماروشن دل ما شاد،آو
اورکھلے دل سے ذلتوں کے مارے ہوئے لوگوں پر چڑھ دوڑ۔اور ان کی وہ ایسی کی
تیسی کرو کہ ان کی پیدا ہونے والی نسلوں کے بھی چودہ طبق روشن ہوجائیں۔ان
کو وہ کھجل خوار کرو کہ یہ خود کو انسان سمجھنا ہی بھول جائیں۔ان کو اس طرح
رولو اور صدمات کی وہ پٹخنیاں دو کہ ان کی گردنیں ٹوٹ جائیں اور کہ تمہارے
سوا کسی جوگے نہ رہیں۔تھر میں جنم لینے والا انسانی المیہ اس قسم کی عوامی
ٹریجڈیوں کی ایک زندہ مثال ہے۔ مسیحاووں کی شان بے نیازی کو دیکھ کر چھوٹے
چھوٹے مسائل بڑے بڑے اور مستقل روگوں اور ناسوروں کا روپ دھارنے لگتے ہیں
پھر لوگوں کی بجلی پانی ہی پوری کرتے کرتے دہائیاں لگ جاتی ہیں اور نسلیں
انتظار کرتے گرز جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے آج اپنی طبعی عمرکاکوٹہ پوراکرنے کے
باوجود عوام کے گلے میں طوق کی طرح پڑی جملہ اقسام کی رنگ برنگی ذلتیں
بشمول اپنے سائیڈ ایفکٹیس اور ثمرات کے اگر کسی بھی طور انہیں الوادع کہنے
کو آمادہ نہیں تو مطلب صا ف اور واضح ہے چاہیے کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ
آئے۔آخرہر سنہرے دور کے بعد ہماری کارکردگی اور ترقی کی کھوتی ،کرپشن اور
انااہلیوں کے بڑے بڑے ٹیکوں اور ان گنت قرضوں کے کوہ گراں سے نڈھال ہوکر
آگے جانے کی بجائے دس بارہ سال مزید پیچھے کیوں پیچھے جاکھڑی ہوتی ہے۔ آخر
اس بیک گیئر میں چھپی پر مغزحکمتیں کبھی عوام پر بھی تو آشکارہوں۔ہمارا منہ
آگے کو اور ہماری کارکردگیوں کا لانگ مارچ پیچھے کی طرف کیوں؟حکمران طبقے
ہمیشہ خوشحال اوررعایا ہمیشہ بدحال بلکہ یرغمال۔ستاروں کی مصنوعی گردشوں کا
مخول صرف کمزورں اور بے بسوں سے ہی کیوں؟ دوسری طرف مدتوں سے ہر بحران کو
بے تکلفی سے اپنی جان پر جھیلتی عوام کا ٹمپرامنٹ اس گدھے جیسا ہوگیا ہے جس
پراس کا مالک جنتا بھی بوجھ ڈالتا جائے اس کا موڈ بالکل آف نہیں ہوتا بلکہ
شرافت سے مالک کے چابک کھاتا اور بے پناہ وزن اٹھاتا چپ چاپ چلتا رہتاہے کہ
زندگی کے دن پورے کرنے کا اس سے اچھا کوئی فارمولاشاید ابھی تک ایجادہی
نہیں ہوا۔برحال عوام غم نہ کریں اوراپنی طرف سے اسی بھر پورقوت برداشت کا
مظاہرہ کرتے رہیں۔ جب بھی اور جہاں بھی سارے مسائل کی اصل جڑ مفرور فل سٹاپ
حکمران طبقوں کے ہاتھ لگ گیا اس دن اس نظام اور عوام سب کے اچھے دن شروع
ہوجائیں گے۔۔ ورنہ یہ دنوں تو کہیں نہیں جانے والے نا۔۔
وقت اچھا بھی آئے گاناصر۔ غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی۔ |