پروفیسر لطیف اﷲ۔ علم و ہُنرکا پیکر

شخصی خاکہ

ناظم آباد نمبر ۳ گول مارکیٹ سے چند قدم آگے ڈاکٹر ضیاء الدین میموریل اسپتال سے کچھ ہی فاصلہ پر ایک مثلث نماکشادہ جگہ کے انتہائی بائیں جانب کارنر کا ایک خستہ حال مکان جس کے ایک کمرے کا دروازہ باہر کی جانب کھلا ہوتا ہے ، سامنے پلنگ پر سفید چادر ، دو عدد لکڑی کے صوفے جن میں سے ایک پر کچھ گرد آلود کتابیں اور چند ریک جن میں کتابیں ہی کتابیں رکھی نظر آتی ہے۔پلنگ پر ایک بزرگ لیٹے ہوتے ہیں۔ دھان پان جسم ، چھوٹا قد، گندمی رنگ، چہرے پر’ شہاب نامہ‘ کے مصنف قدرت اﷲ شہاب جیسی داڑھی ، کبھی اس قسم کی داڑھی ویت نام کے عظیم رہنما’’ہوچی مِنہ‘ کی مشہور تھی، بنگال کے اکثر لوگ بھی اسی قسم کی داڑھی رکھتے ہیں۔سر پرسفید مٹیالے بالوں کابڑاسا گچھا جس نے ان کے چہرے کو نمایاں کیا ہوا ہے ۔ یہ ہیں گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آبادکے ایک ریٹائرڈ استاد’’ پروفیسر لطیف اﷲ‘‘ جنہوں نے ۲۲ سال (۱۹۶۶ء ۔ ۱۹۸۸ء) کالج میں تدریسی فرائض انجام دئے۔ ایک ایسا فلسفی ، سائنس داں،مصنف و محقق یا شاعر جو صرف اپنی دنیا میں مگن ہواس کی جیتی جاگتی تصویر پروفیسر لطیف اﷲ میں نظر آتی ہے۔ان پر ابن انشا ء کا کہا ہو ایہ جملہ صادق آتا ہے جو انہوں نے گورنمنٹ کالج ناظم آبادکے ایک سابق پروفیسر انجم اعظمی کے لیے لکھا تھا کہ ’’یہ چہرہ عصر حاضر کے تب و تاب کو سمیٹنے والے شخص کا چہرہ نہیں ۔نہ فقط ان کے محبوب کا روئے دل آراہے بلکہ ایک عالم کا چہرہ ہے۔کہیں شاداب‘ کہیں وقت کی تمازت سے جھلساہوا‘ کہیں روشن ‘ کہیں دھندلا‘کہیں پورا کہیں آدھا‘‘۔

پروفیسر لطیف اﷲ کا تعلق راجستھا ن کے علاقے ’’الور ‘‘ سے ہے جو دہلی کے نزدیک تر واقع ہے۔گویا لطیف اﷲ راجستھان کی علمی و ادبی تہذہب کی نمائندہ شخصیا ت میں سے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنا یا۔اردو کے علاوہ فلسفہ اور تصوف ان کے خاص موضوعات ہیں۔ کالج میگزین ’روایت ‘ کے گولڈن جوبلی نمبر کی اشاعت کا فیصلہ ہوا تو کالج کے سابق اساتذہ کا یاد کیا جانا ایک لازمی امر تھا چنانچہ دیگر شخصیات کے علاوہ پروفیسر لطیف اﷲ کی تلاش شروع ہوئی۔ کئی احباب سے معلوم کیا لیکن کچھ پتا نہ چل سکا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ایک روز اپنے کالج کے کامرس سیکشن میں کسی طرح لطیف اﷲ صاحب کا ذکر آگیا ، میں نے ذکر کیا کہ مجھے ان کی تلاش ہے، نہیں معلوم کہ وہ کہاں رہتے ہیں۔ منصور صاحب نے فرمایا کہ لطیف اﷲ صاحب تو ناظم آباد نمبر ۳ میں ہی رہتے ہیں ، انھوں نے راستہ سمجھایا کہ اس اس طرح ان کے گھر پہنچا جاسکتا ہے۔ میں اگلے ہی دن بتائے ہوئے راستے پر نکل کھڑا ہوا، گول مارکیٹ کے اردگرد چکر لگائے، مگر نا کامی ہوئی۔کچھ عرصہ بعد اپنی ناکامی کا ذکر منصور صاحب سے کیاکہ مجھے آپ کا بتایا ہوا لطیف اﷲ کا گھر نہیں ملا۔ انہوں نے ازراہ عنایت مجھے اسی وقت ساتھ چلنے کا کہا ، میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنی گاڑی ان کی گاڑی کے پیچھے لگا دی اس طرح ہم لطیف اﷲ صاحب کے گھر پہنچ گئے ۔

کمرے کا دروازہ کھلا تھا، پلنگ پرایک بیمار شخص لیٹا نظر آرہا تھا ، سفید کرتا پاجامہ اورزلف پریشان، چہرے پر اداسی اور تکلیف نمایاں تھی ، ہمیں دیکھ کر اٹھ بیٹھے ، سلام دعا ہوئی ، میں نے مدعا بیان کیا ، آپ نے وعدہ بھی کرلیا لیکن جب میں کوئی پندرہ دن بعد ۹ اپریل ۲۰۰۸ء کو دوبارہ یاد دہانی کے لیے پہنچا تو انھوں معذرت کی اور کہا کہ وہ اب خود تو لکھ نہیں سکتے شایدکسی دوسرے کی مدد کے منتظر رہتے ہیں ، یہ مدد نھیں اس دوران نہیں مل سکی۔ ان کی کم زوری کی وہی کیفیت میں نے دیکھی تو ان سے گفتگو کا آغاز کر دیا اور ساتھ ہی جو کچھ وہ بول رہے تھے نوٹ بھی کرتا جارہا تھا۔انھوں نے بھی جب مجھے نوٹ لیتے دیکھا تو زیادہ دلچسپی سے گفتگو شروع کردی۔ اپنی گفتگو کا آغاز ہی اقبال کے فلسفہ خودی، وحدت الوجود، امیر خسرو اور اسی طرح کے فلسفیانہ موضوعات پر بولتے رہے ، اپنے بارے میں بتا یا:
’’میں نے ۷ ستمبر ۱۹۴۷ء کو ڈائریکٹر آف اسکول ایجو کیشن (اس وقت ڈائریکٹر اسکول بورڈتھا) کے آفس میں ملازمت کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور اردو میں ایم اے کر لیا۔یہاں میری ملازمت کا سلسلہ ۱۹سال یعنی ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء تک جاری رہا۔ گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آبادمیں جگہ خالی ہوئی وہ اس طرح کہ ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے کالج سے جامعہ کراچی جانے کا فیصلہ کر لیا ان کے چلے جانے سے ایک لیکچرر کی جگہ خالی ہوئی اس سیٹ پر میرا تقرر بہ طور لیکچرر اردو کے ہوا اور میں نے ۲۸ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو اپنی ملازمت کا آغاز کیا جو میرے ریٹائر منٹ ۱۵ جولائی ۱۹۸۸ء تک جاری رہی۔گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد کے شعبہ اردو میں اس وقت ڈاکٹر عبد السلام، شاہد عشقی، انجم اعظمی پہلے سے تھے اب میرا اضافہ ہوا۔ بعد میں ڈاکٹر حسن محمد خان ،سراج الدین قاضی صاحب بھی آگئے۔ کالج میں بہت اچھا ماحول تھا، سب ہی اساتذہ اچھے تھے۔میں کالج کی ہم نصابی سرگرمیوں میں طلباء کی رہنمائی کیا کرتا تھا ، کالج کے طلبہ بھی سر گرم رہتے، پروفیسر ظہیر احمد صاحب پرنسپل تھے انہوں نے کالج میگزین کی ذمہ داری مجھے سونپ دی اور میگزین کا نگرانِ اعلیٰ بنا دیا۔ اس سے قبل کالج کے جو میگزین شائع ہوئے وہ ڈاکٹر اسلم فرخی اور ڈاکٹر عبد السلام کی نگرانی میں شائع ہوئے تھے۔ اب یہ اہم ذمہ داری میرے کاندھوں پر تھی۔اس کام میں میرے شریک کار پروفیسر سراج الدین قاضی تھے جنھیں شعبہ اردو کا نگراں مقرر کیا گیا اور پروفیسر خواجہ نیا ز حامد کو شعبہ انگریزی کا نگراں مقرر کیا گیا۔ ہم سب نے مل کر مجلے کی ترتیب و اشاعت کاکام شروع کیا ۔ ہماری یہ کاوش ’’روایت ۱۹۷۸ء ۔ ۱۹۷۹ء ‘‘ کی صورت میں سامنے آئی ۔ کالج کے میگزین کے حوالے سے اس بار ایک نئی روایت بھی قائم ہوئی وہ یہ کہ اس سے قبل کالج میگزین ’’المنورہ‘‘ کے نام سے شائع ہوتا رہا تھا ۔ ہم نے ایک نئی روایت قائم کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج کے میگزین کا نام’روایت‘ رکھا ۔ اس نام سے روایت شائع بھی ہوا ۔اس میں کیا کچھ ہے وہ آپ کو اس شمارے سے اچھی طرح معلوم ہوجائے گا۔ اس میگزین میں میراایک مضمون ’’ رسول ﷺ کی سیاسی زندگی ‘‘ شامل ہے۔ ایک اور بات یہ کہ کالج میگزین کا یہ نام تاحال روایت ہی ہے اور یقینا گولڈن جوبلی کے موقع پر جو خاص شمارہ شائع کیا جارہا ہے۔

گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے حوالے سے ایک طالب علم شہنشاہ حسین کا ذکر ضرور آتا ہے لیکن میں آپ کو بتاؤ ں کہ وہ ان استادوں کی بے انتہا عزت و تکریم کیا کرتا تھا جو کسی بھی قسم کی سیاست میں نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ میرا براہ راست شاگرد نہیں تھالیکن میرا حد درجے احترام کیا کرتا تھا، البتہ ایک اور طالب علم مسرور احسن گستاخ تھا لیکن اس نے میرے ساتھ کبھی بدتمیزی نہیں کی۔ اگر کبھی وہ سگریٹ پی رہا ہوتا اور میں وہا ں سے گزر بھی جاتا تو وہ اپنا ہاتھ پیچھے کی جانب کر لیا کرتا تھااس کے برعکس ایسا بھی ہوا کہ اس نے سگریٹ کا دھواں استاد کے منہ پر چھوڑا ،اس کی بھی بعض وجوہات تھیں میں ان میں جانا نہیں چا ہتا۔

آپ نے میرے دور کے پرنسپل صاحبان کے بارے میں پوچھا تو جناب سارے ہی پرنسپل اپنے اپنے دور میں کالج کی بہتری کے کام کرتے رہے جہاں تک ان کی شخصیت کا تعلق ہے تو ہر ایک کی عادات و اطوار مختلف ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد حسن جعفری صاحب انتہائی سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک تھے، نرم مزاج، شائستہ اور اچھے اخلاق کے مالک تھے۔کاظمی صاحب کے زمانے میں حالات میں تبدیلی آچکی تھی ، طلباء سیاست میں سرگرم ہوگئے تھے، محکمہ تعلیم کے تحت جو تعلیمی ادارے تھے وہ اس وقت کی حکومت جو کہ بھٹو صاحب کی تھی کے حمایتی تھے۔ اسی اعتبار سے حالات بھی رہے۔سموں صاحب کے دور میں کافی گڑ بڑ رہی ۔ میں نے اپنے پورے تدریسی دور میں کبھی کسی بھی قسم کی سیاست میں حصہ نہیں لیا، تمام طلباء کو یک ساں جانا، ہمیشہ اپنے سبق کے دائرے میں رہا، پڑھانا ، کلاس لینا، شعر و شاعری، ادبی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں طلباء کی رہنمائی کیا کرتا تھا۔ جو لوگ سیاست میں کسی بھی طرح شامل ہوئے انھیں اس کے نتائج بھگتنا بھی پڑے۔پروفیسر ظہیر احمد بہت نفیس انسان ہیں۔ جب پرنسپل تھے کالج کے تعلیمی اور انتظامی امور کو خوب صورتی سے چلایا۔ میرے بہت اچھے تعلقا ت رہے بلکہ جب وہ ریٹائر ہوگئے تو ان تعلقات میں زیادہ سرگرمی آگئی۔ میں انھیں کے دور میں ۱۹۸۸ء میں ریٹائر ہوا۔

میں اردو کا استاد تھا پڑھانے کے ساتھ ساتھ لکھنا میرا اوڑھنا بچھو نا رہا اور اب بھی ہے۔ جہاں آپ بیٹھے ہیں یہ میری کائنات ہے۔ اس سے آپ کو میرے بارے میں کافی اندازہ ہوگیا ہوگا۔ اردو کے علاوہ تصوف اور فلسفہ میرا موضوع ہے ۔اس پر میں نے لکھا ، مضامین کی تعداد تو بہت ہوگی البتہ میری پانچ کتابیں ایسی ہیں جو میں نے فارسی سے اردو میں ترجمہ کیں، پانچ ذاتی تصانیف ہیں جو تصوف کے موضوعات پر ہیں ، میرانعتیہ مجموعہ کلام بہ عنوان ’’ مفلس کی سوغات‘‘ بھی شائع ہوچکا ہے۔میرے مضامین پاکستان کے علاوہ ہندوستان سے بھی شائع ہوئے ۔ میرا ایک مضمون ایران کے رسالے ’’دانش ‘‘ میں شائع ہوچکا ہے۔میری کتاب ’’ مولانا جلال الدین رومی کا پیام عشق ‘‘ ہندوستان سے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی۔ایک اور کتاب ’’ تصوف اور سریت‘‘ بھی ہندوستان سے شائع ہوچکی ہے۔

صمدانی صاحب میں جب پاکستان میں فارسی زبان کو ناپید ہوتے دیکھتا ہوں تو دلی دکھ اور افسو س ہوتا ہے ۔ خاص طور پر وزارت تعلیم نے فارسی کی تدریس سے غفلت اختیار کرکے ہند اسلامی تہذیب کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور تخلیقی صاحیت کو ابھرنے اور بالیدہ ہونے کا موقع اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔ اب جو تہذیبی مظاہرے پڑھنے میں آتے ہیں وہ انتہائی شرم ناک اور قابل مذمت ہیں۔ کلا سیکی ادب اور فارسی سے غفلت اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک صاحب جو فارسی کے استاد رہے ہمارے کالج میں انہوں نے چھے سے سات سال فارسی کا مصرع پڑھا اور نہ کوئی اور اردو کا ایسا شعر پڑھا جس پر کلاسیکی فارسی کا اثر ہو ۔ اگر چہ یہ بات قابل قبول محسو س نہیں ہوتی لیکن واقعہ یہی ہے کہ فارسی کے استاد ہو کر فارسی سے اتنا دور ہوجانا قومی المیہ ہے‘‘۔(شائع شدہ مجلہ ’روایت ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلباء ، ناظم آباد)

پروفیسر لطیف اﷲ کے بارے میں یہ میری یہ تحریر ۲۰۰۸ء کی ہے ، جب میں گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد کے مجلہ روایت کا چیف ایڈیٹر تھا اور مجھے روایت کا گولڈن جوبلی نمبر مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، اس وقت پروفیسر سید خورشید حیدر زیدی کالج کے پرنسپل تھے، میں اسی حیثیت سے مجلہ روایت کا ایک شمارہ ۲۰۰۴ء میں مرتب کر چکا تھا، گولڈن جوبلی نمبر کے لیے میں نے پروفیسر لطیف اﷲ سے ملاقات کی اور ان کے بارے میں لکھا، میری یہ تحریر مجلہ روایت ۲۰۰۸ء میں شائع ہوچکی ہے،

میں جب کراچی میں تھا تو مجھے پروفیسر لطیف اﷲ کے انتقال کا علم ہوا، افسوس اور دکھ کے سوا انسان کر ہی کیاسکتا ہے۔ اب ڈاکٹر اسلم فرخی کی خاکوں کی کتاب ’’موسم بہار جیسے لوگ‘‘ میں لطیف اﷲ کا خاکہ بہ عنوان ’’شیخ با چراغ: شیخ لطیف اﷲ‘‘ پڑھ کر مرحوم کی یاد تازہ ہوگئی، ڈاکٹر اسلم فرخی ، لطیف اﷲ صاحب کے قریبی دوستوں میں سے تھے، دونوں کا ساتھ بہت طویل رہا ، مجلہ روایت کے اس گولدن جوبلی نمبر کے سلسلے میں میَں نے ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کے گھر کے دو چکر لگائے تھے، انہوں نے اپنی تحریر از خود لکھ کر دیدی تھی جو متعلقہ روایت نمبر میں شامل ہے۔لطیف اﷲ صاحب کا خاکہ تفصیلی اور بہت عمدہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ لطیف اﷲ صاحب کو جنت الفردوس
میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

شائع شدہ مجلہ ’’روایت ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلباء، کراچی)
(مصنف کی کتاب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ ۲۰۱۲ء میں شامل)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437703 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More