حضور اقدس ﷺ کے عادات واطوار کی ہمہ گیر خوبیاں

 اﷲ عزوجل نے نبی اکرم نورِ مجسمﷺ کو تمام اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلیٰ بنایا۔ اسی طرح جمالِ صورت میں بھی یکتا و بے نظیر بنایا۔ صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین خلوت و جلوت، سفر و حضر میں جمالِ جہاں آرا کو دیکھتے رہے، انہوں نے حبیب پاک ﷺکے فضل و کمال کی جو تصویر کشی کی ہے اسے سن کر یہی کہنا پڑتا ہے ؂
کوئی تجھ سا ہواہے نہ ہوگا شہا

آپ سر کے بال سے لے کر پیر کے ناخن تک اﷲ عزوجل کی قدرت کے مظہر ہیں۔گزشتہ سال ۲۰۱۳ء کے شامنامہ کے خصوصی شمارہ ’’میلادنمبر‘‘میں ہم نے چند سطور سرکارِ دوعالم ا کے سراپائے اقدس کے حوالے سے باختصار نقل کئے تھے ،اس مرتبہ بھی آقاﷺ کے اوصاف وخصائص کا مختصراًتذکرہ سپردقلم کررہاہوں تا کہ ہمارے دلوں میں آپ کی الفت و محبت دوبالا ہو جائے۔اس تحریر کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو سیرت مبارکہ اور اسوۂ حسنہ سے قریب کیا جائے، ایسے وقت میں جب کہ ناموس رسالت میں توہین اور مختلف طریقوں سے اسلام پر حملے ہورہے ہیں سیرت طیبہ کو نمونۂ عمل بنانا ضروری ہے اور اسی میں آخرت کی بھلائی بھی ہے۔ آئیے سیرت طیبہ کے ان گوشوں سے استفادہ کرتے ہیں۔

حضور ﷺ کا تکیہ لگانے کا انداز :صفوان بن عسال ایک روز اﷲ تعالیٰ کے پیارے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے دیکھا کہ حضور ﷺ سرخ تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ۔حضرت جابر بن سمرہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا ،میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ نے بائیں جانب تکیہ رکھا ہے اور اس پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ۔

حضور اکرم ﷺ کا کنویں پر بیٹھنا:بسا اوقات حضور ﷺ کنو ئیں کے منڈیر پر تشریف فرما ہو تے اور اپنے قدم مبارک کو کنو ئیں میں لٹکا دیتے ۔حضرت ابو مو سیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز حضور ﷺ قضائے حاجت کیلئے چاردیواری میں تشریف لے گئے ،میں پیچھے پیچھے چلتا آیا ،جب سرکارﷺ اس چار دیواری میں داخل ہو ئے تو میں دروازے پر بیٹھ گیا اور دل میں کہا کہ آج میں رسول اﷲ ﷺ کا دربان بنوں گا ۔حضور ﷺ قضائے حا جت سے فارغ ہونے کے بعد کنو ئیں کی منڈیر پر بیٹھ گئے اپنی پنڈلیوں سے چادر اٹھا لی اور انہیں کنو ئیں میں لٹکا دیا ۔

حضورﷺ کی رفتاراور اس کے اقسام:حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا" میں نے حضور ﷺسے زیادہ تیزچلنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ زمین حضور ﷺکے سامنے سے لپٹتی جارہی ہے ۔حضور ﷺجب چلتے تو کسی قسم کا ضعف یا سستی ہر گز نمایاں نہ ہوتی۔حضور ﷺ جب چلتے تو ساتھ والے دوڑتے لیکن پھر بھی حضور ﷺ کو نہ پاسکتے ۔حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اﷲ ﷺ جب چلتے تو پوری قوت سے چلتے اس میں کوئی کسل اور سستی نہ ہوتی ۔حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول اﷲ ﷺ کی سرعت رفتار کو بیان کرتے ہو ئے فرمایا :رحمت عالم ﷺ جب چلا کرتے تو یوں معلوم ہو تاکہ بلندی سے نشیب کی طرف جارہے ہیں اور جب حضور ﷺ چلا کرتے تو قدم جما کر رکھتے جس سے پتہ چلتا کہ حضور ﷺ جلدی میں نہیں ہیں ۔

حضورﷺ کا گریہ و فغاں : جس طرح سرکار دوعالم ﷺ ہنستے وقت قہقہہ نہیں لگایا کرتے تھے اسی طرح جب روتے تھے تو آواز بلند نہیں ہو تی تھی بلکہ آنکھوں سے آنسو ٹپکتے تھے اور موسلا دھار بہتے تھے البتہ سینے میں رونے کی آواز سنائی دیتی تھی ۔حضور ﷺ کبھی کسی میت پراز راہِ رحمت اشک فشانی کرتے اور کبھی اپنی امت پر عذاب الٰہی کے خوف سے رویا کرتے اور کبھی قرآن کریم سنتے وقت چشمانِ مبارک سے آنسوؤں کے موتی ٹپکنے لگتے ۔کبھی حالت نماز میں گریہ طاری ہوجاتا۔ حضور ﷺ کواﷲ تعالیٰ نے جمائی لینے سے محفوظ رکھا تھا ۔ام المومنین میمونہ رضی اﷲ عنہا کے بھائی فرماتے ہیں :حضور ﷺ نے کبھی جمائی نہیں لی ۔بخاری شریف میں ہے اﷲ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی لینے کو نا پسند کرتا ہے ۔
لباس مبارک:حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے قمیص پہنی جو ٹخنوں کے اوپر تک تھی اور اس کی آستین انگلیوں تک تھی ۔حضرت ابن ماجہ ابن سعد اورابن عسا کر رحمہم اﷲ تعالیٰ سے مروی ہے ۔رسول اﷲ ﷺ ایسی قمیص پہنا کرتے تھے جس کی آستینیں بھی لمبی نہیں ہو تی تھیں اور اس کی لمبائی بھی زیادہ نہ ہو تی تھی ۔بزارنے ثقہ راویوں کے واسطہ سے حضرت انس سے روایت کیا ہے ۔حضور کریم ﷺ کی آستین گٹی تک ہو تی تھی ۔حضرت انس سے مروی ہے حضور ﷺ کی ایک قمیص تھی جو سفید صوف سے مصر میں بنائی جاتی تھی،اسے قبطی کہتے تھے، وہ لمبائی میں بھی چھوٹی تھی اور اس کی آستینیں بھی چھوٹی تھیں ۔

حضور کریم ﷺ کا دھاری دار اونی لباس :ابن عسا کر سہل بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کیلئے لکیردار چادروں سے ایک لباس تیار کیا گیا یہ چادریں کالی صوف سے بنی ہو ئی تھیں اور ان کے دو سفید صوف کے کنارے بنائے گئے تھے۔ حضور ﷺ یہ لباس پہن کر مجلس میں تشریف لائے اور فرمایا کتنا خوبصورت لباس ہے۔ ایک اعرابی وہاں موجود تھا اس نے عرض کی یارسول اﷲ ﷺ مجھے پہنادیں ۔رحمت عالم ﷺ کایہ شیوہ تھا اگر حضور ﷺ سے کوئی چیز مانگی جاتی تو حضور ﷺ نہ نہیں فرماتے ۔ فرمایا بہت اچھا ۔پھر سوتی چادریں منگوائیں ان کو پہنا اور لباس اتار کو اس اعرابی کو دیدیا ۔پھر حکم دیا اس لباس کی طرح ایک اور لباس تیار کروایا جائے ابھی وہ تیاری کے مر حلے ہی میں تھا کہ نبی کریم ﷺ اس دنیائے فانی سے دارالبقاء کو تشریف لے گئے ۔

خوشبو اور پھولوں سے حضور ﷺ کی محبت :حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رحمت کائنات ﷺ نے فرمایا مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں محبوب ہیں ۔عورتیں ۔خوشبو اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے ۔

دیواروں پر تصویروں والا پردہ لٹکانا :امام احمد اور دیگر اکابر محدثین نے اپنی صحاح میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے بتایا کہ ایک دفعہ سرکار دو عالم ﷺ سفر سے واپس تشریف لائے میں نے اپنے دروازے پر ایک پردہ لٹکایا ہوا دیکھا اس میں پروں والے گھوڑوں کی تصویریں تھیں جب حضور ﷺ تشریف لائے اور اس پردے کو دیکھا تو رخ انور پر ناگواری کے آثار میں نے بھانپ لئے حضور ﷺ نے اسے کھینچا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ارشاد فرمایا :اﷲ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ ہم پتھروں اور کیچڑ کو لباس بنائیں ۔حضرت صدیقہ فرماتی ہیں کہ ہم نے اس پردہ کو کاٹ کر دو تکئے بنالئے اور ان کو کھجور کے پتوں سے بھر دیا اس بات کو حضور ﷺ نے ناپسندنہیں کیا ۔

سواری کے جانور:زرقانی علی المواہب وغیرہ میں لکھا ہوا ہے کہ حضور ﷺ کی ملکیت میں سات گھوڑے، پانچ خچر ،تین گد ھے اوردو اونٹنیاں تھیں (زرقانی)لیکن اس میں تشریح نہیں ہے کہ بو قت وفات ان میں سے کتنے جانور مو جود تھے؟ کیو نکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے جانور دوسروں کو عطا فرماتے رہتے تھے کچھ نئے خریدتے کچھ ہدایا اور نذرانوں میں ملتے بھی رہے ۔بہر حال روایات صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وفات اقدس کے وقت جو سواری کے جانور موجود تھے ان میں ایک گھوڑا تھا جس کا نام’’ لُحَیف‘‘ تھا، ایک سفید خچر تھا جس کانام’ ’دلدل‘‘ تھا، یہ بہت ہی عمر دراز ہوا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک زندہ رہا اتنا بوڑھا ہو گیا تھا اس کے تمام دانت گر گئے تھے اور آخر میں آنکھوں کی بینائی بھی ختم ہوگئی تھی۔ ابن عسا کر کی تاریخ میں ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی جنگ خوارج میں اس پر سوار ہو ئے ۔ایک عربی گدھا تھا جس کانام’ ’عُفَیر‘‘ تھا ایک اونٹنی تھی جس کا ’’عضباء وقصواء‘‘ تھا یہ وہی اونٹنی تھی جس پر آپ نے ہجرت فرمائی اور اسی کی پشت پر حجۃ الوادع میں آپ نے عرفات ومنیٰ کا خطبہ پڑھا تھا۔ خانگی سامان:ظروف اور برتنوں میں کئی پیالے تھے، ایک شیشہ کا پیالہ تھا، ایک پیالہ لکڑی کاتھا جو پھٹ گیا تھا تو حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کے شگاف کو بند کرنے کیلئے ایک چاندی کی زنجیر سے اس کو جکڑ دیا تھا (بخاری) چمڑے کا ایک ڈول، ایک پرانی مشک، ایک پتھر کا تغار، ایک بڑا سا پیالہ جس کا نام’’ا لسعہ‘‘ تھا ایک چمڑے کا تھیلا جس میں آپ آئینہ ،قینچی اور مسواک رکھتے تھے، ایک کنگھی ،ایک سرمہ دانی ،ایک بہت بڑا پیالہ جس کانام’’ الغراء‘‘ تھا، صاع اور مد ناپنے کے دو برتن۔ ان کے علاوہ ایک چارپائی جس کے پائے سیاہ لکڑی کے تھے، یہ چارپائی حضرت اسعد بن زرارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ہدیہ خدمت اقدسﷺ میں پیش کی تھی، بچھونا اور تکیہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہو ئی تھی اور مقدس جوتیاں تھی۔یہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسباب وسامانوں کی ایک فہرست ہے جن کاتذکرہ احادیث میں متفرق طورپرآتا ہے ۔

تبر کات نبوت ﷺ:حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے متروکہ سامانوں کے علاوہ بعض یادگاری تبرکات بھی تھے جنھیں عاشقان رسولﷺ فرط عقیدت سے اپنے اپنے گھروں میں محفوظ کئے ہو ئے تھے اور ان کو اپنے جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے چنانچہ مو ئے مبارک نعلین شریفین اور ایک پیالہ جو چاندی کے تاروں سے جوڑا ہواتھا حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے ان تینوں آثار متبر کہ کواپنے گھر میں محفوظ رکھا تھا ۔اسی طرح ایک موٹا کمبل حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تھا۔ جن کو وہ بطور تبرک اپنے پاس رکھے ہوئے تھیں۔ اور لوگوں کو اس کی زیارت کراتی تھیں۔ چنانچہ حضرت ابو بردہ رضی اﷲ عنہ کی خدمت مبارکہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ تو انھوں نے ایک موٹا کمبل نکالا اور فرمایا کہ یہ وہی کمبل ہے جس میں حضور ﷺ نے وفات پائی۔

عصائے مبارک:حضور ﷺکا عصائے مبارک اس طرح ضائع ہوا کہ حضرت امیر المومنین عثمان غنی رضی اﷲ عنہ اسی مقدس عصائے نبوی کو اپنے دست مبارک میں لے کر مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے۔ کہ بالکل ناگہاں بد نصیب’ ’جہجاہ غفاری‘‘ اٹھا اور اچانک آپ کے ہاتھ سے اس مبارک تبرک کو لے کر توڑ ڈالا۔ اس بے ادبی سے اس پر یہ قہر الٰہی ٹوٹ پڑا کہ اس کے ہاتھ میں مہلک مرض ہوگیا اور پورا ہاتھ سڑ گل کر گر پڑا۔ اور اسی عذاب میں وہ ہلاک ہوگیا۔(دلائل النبوۃ)
٭٭٭
ماخوذ:
(۱)سیرت الرسول المعروف ضیاء النبیﷺ،ج۴،از:علامہ پیرکرم شاہ ازہری رحمۃ اﷲ علیہ (۲)سیرت محمدیہ ترجمہ مواھب اللدنیہ،از:حضرت امام بن احمد بن ابی بکرالخطیب القسطلانی الشافعی رحمۃ اﷲ علیہ ،ترتیب:محمدعبدالستار طاھرمسعودی زیدمجدہ(۳)سیرت مصطفیﷺ،از:علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃ اﷲ علیہ
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 732507 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More