درس فلاح

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبہ میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ بھی قرآن و حدیث کی راہنمائی سے محروم نہیں۔آداب بندگی ہو یا آداب زندگی ، معیشت ہو یا معاشرت ، اعتقادات ہوں یا اعمال ہمارا مذہب ہر ایک عنوان پر مفصل، قابل عمل اور مفید ترین معلومات و ہدایات فراہم کرتا ہے۔

ٓآداب معاشرت میں لباس کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے معاشرے میں لباس کے متعلق دو باتیں زبان زدعام ہیں ایک یہ کہ لباس ایک ایسی چیز ہے جس کا ہر قوم اور ہر وطن کے حالات سے تعلق ہوتا ہے، اس لئے آدمی اگر اپنی مرضی اور ماحول کے مطابق کوئی لباس اختیار کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ جملہ بکثرت سننے میں آتا ہے کہ ان مولویوں نے اپنی طرف سے پابندیاں لگا رکھیں ہیں ورنہ دین تو بڑا آسان ہے!

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا دین بڑا آسان ہے اور اسمیں لباس کے لئے کو خاص ہیت مختص نہیں لیکن لباس کا معاملہ اتنا سادہ اور اتنا آسان نہیں کہ آدمی جو چاہے لباس پہنتا رہے اور اس لباس کی وجہ سے اس کے دین ، اخلاق، زندگی اور طرز عمل پر کو ئی اثر واقع نہ ہو۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کو شریعت نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی بیان فرما دیاتھا اور آج سائنس اور نفسیات کے ماہرین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ انسان کے لباس کا انسان کی زندگی ، اخلاق اور کرداربڑا اثر واقع ہوتا ہے ۔لباس محض ایک کپڑا ہی نہیں جو انسان نے اٹھا کر پہن لیا بلکہ یہ انسان کے طرز فکر، سوچ اور اسکی ذہنیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

دوسری یہ بات کہ لباس کا تعلق انسان کے ظاہر کے ساتھ ہے اور شریعت کو باطن مطلوب ہے ۔دل صاف ہونا چاہئے اور ہمارا دل صاف ہے، ہماری نیت اچھی ہے،اﷲ کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہے، لہذا جس قسم کا لباس بھی زیب تن کیا جائے شریعت کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے!

خوب یاد رکھئے! دین کے احکام ظاہر پر بھی لاگو ہوتے ہیں اور باطن پر بھی۔ اﷲ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
وَزَرُوْ ظَاہِرَالْاِسْمِ وَبَاطِنَہ اور ظاہر کے گناہ بھی چھوڑ دو اور باطن کے گناہ بھی۔
اور یہ بات کتنی عجیب ہے کہ ہم دنیاوی کاموں میں ظاہر اور باطن دونوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں لیکن دین میں صرف باطن کو! اگر کوئی اپنا گھر تعمیر کر رہا ہو تو وہ دیواریں اور چھت ڈالنے کے بعد اپنے مکان کو مکمل تصور نہیں کرتا حالانکہ مکان کا باطن تو چھت ڈالنے کے بعد مکمل ہو جاتا ہے۔ لہذا جس طرح مکان کے ظاہر کو سنوارنے کے لئے پلا ستر اور پینٹ ضروری ہے اسی طرح انسان کے ظاہر کو سنوارنے کے لیئے شریعت کے اصولوں کے مطابق لباس کا ہونا بھی ضروری ہے۔

لباس کے شرعی اصول
شریعت نے لباس کے بارے میں بڑی معتدل تعلیمات عطا فرمائی ہیں، چنانچہ شریعت نے کوئی خاص لباس مقررکر کے اور اسکی ہیئت بتا کر یہ نہیں کہا کہ ہر آدمی کیلئے ایسا لباس پہننا ضروری ہے لہذا جو اس ہیئت سے ہٹ کر لباس پہنے گا وہ اسلا م کے خلاف ہو۔ایسا اس لئے نہیں کہا گیا کہ اسلام دین فطرت ہے ۔مختلف ممالک کے حالات، موسم اور ضروریات مختلف ہیں لہذا لباس کا ان ضروریات کے مطابق ہونا ضروری ہے کہیں باریک، کہیں موٹا، کہیں کسی وضع کا اور کہیں کسی ہیئت کا لباس حالات و واقعات کے مطابق ضروری ہے۔لہذا شریعت نے لباس کی کو ئی خاص ہیئت نہیں دی بلکہ چند بنیادی اصول دیے ہیں جن کی روشنی میں بندہ مومن کو اپنالباس تیار کرنا چاہئے۔
اﷲ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰبَنِیْ آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساََ یُّوَارِیْ سَوْ اٰتِکُمْ وَرِیْشاََ وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْر۔ اے اولاد آدم بیشک اتارا ہم نے تم پرلباس جو ڈھانپتا ہے تمھاری شرمگاہوں کو اورباعث زینت ہے اور پرہیز گاری کا لباس وہ سب سے بہتر ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے:
اِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْن۔ بیشک اﷲ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
رسول اکرم شفیع معظم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمِِ فَھُوَ مِنْھُمْ (ابوداؤد) جس نے کسی دوسری قوم کے ساتھ تشبہ اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔

مذکورہ بالا آیات و حدیث کی روشنی میں لباس کے بنیادی طور پر چار اصول ہیں:
1۔ساتر:
لباس کا سب سے پہلا مقصد یہ ہے کہ وہ پوشیدہ اور شرم کی چیزوں کو چھپا ئے۔ ’’سوآۃــ‘‘ کے معنی ہیں وہ چیزیں جس کے ذکر کرنے سے یا جس کے ظاہر کرنے سے انسان شرم محسوس کرے ، اس سے مراد ’’ستر‘‘ ہے۔ لہذا لباس کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد شرمگاہ کا چھپاناہے۔ اب اگر لباس شریعت کے اس اصول کے مطابق ہوتو وہ لباس شمار ہو گا وگرنہ نہیں۔
مردکا ستر:
مرد کے جسم کا وہ حصہ جس کا چھپانا شریعت نے ضروری قرار دیا ہے وہ ناف سے لیکر گھٹنوں تک کا حصہ ہے جس کا بلا ضرورت شرعی کسی کے سامنے کھولنا اور کسی کے عریاں حصہ کی طرف ناجائز و حرام ہے۔
عورت کا ستر:
عورت کا پور ا بدن ستر ہے سوائے چہرہ، گٹوں تک ہاتھ اور پاؤں کے۔ اس کے علاوہ عورت کا پورا جسم چھپانا ضروری اور کھولنا ناجائز ہے۔
لباس کے تین عیب:
مذکورہ بالا اصول کو پیش نظر رکھیں تو دور حاضرکے لباس میں عموما تین عیب پائے جاتے ہیں۔

۱ْ۔ لباس اتنا چوٹھا ہوکہ ستر کو نہ ڈھانپے جس طرح عورت کی قمیص میں گلے کا ڈیزائن، عورت کے پیٹ کا کچھ حصہ نظر آنا اور دو پٹہ نہ کرنا۔
۲۔لباس اتنا باریک ہوکہ اس سے شرمگاہ نظر آئے۔
۳۔لباس اتنا تنگ ہوکہ شرمگاہ کی ساخت اور ہیئت نظر آئے۔
المختصر جو بھی لباس کسی بھی اعتبار سے شرمگاہ کا ساتر نہ ہو وہ لباس شریعت کو قبول نہیں ہے۔
2۔باعث زینت:
لباس کا دوسر ا مقصد جو آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ لباس انسان کے جسم پر زینت کا باعث ہو۔ اور یہ بات پیش نظر رہے کہ زینت فیشن کا نام نہیں ہے کیونکہ فیشن میں کسی بھی چیز کے حسن کا انحصار اس چیز کے حسن پر نہیں بلکہ عام لوگوں کے طرز فکر پرہے مثال کے طور پر آج ایک چیز فیشن کے طور پر مستعمل ہے تو کل جب نیا فیشن آجائے گا تو وہ ہی چیز جو کل باعث زینت تھی آج ردی ہو جائے گی۔اور زینت فطرتی خوبصورتی کا نام ہے نہ کہ عارضی خوبصورتی کا۔
قیمتی لباس:
مالدار آدمی کے لئے گھٹیا قسم کا لباس پہننا کوئی پسندیدہ بات نہیں ہے سرکار صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسے آدمی کو نا پسند فرمایاہے۔ ایک صحابی رضی اﷲ عنہ سرکار کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور انہوں نے گھٹیا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلَکَ ماَل’‘ ؟ قَالَ نَعَمْ ، قاَلَ من ای المال؟ قاَلَ قَدْ اَتَانِی اللّٰہُ مِنَ الاِبَلِ وَ الْغَنَمِ وَالْخَیْلِ وَالْرَقِیْقِ، قَالَ اِذَا اَتَاکَ اﷲُ ماَلََا فَلْیراَثْرَ نِعْمَتِ اللّٰہِٖ عَلَیکَ ۔ (ابوداؤد) کیا تیرے پاس مال ہے؟ انہوں نے عرض کی ہاں! آپ ﷺ نے پوچھا تیرے پا س کس قسم کا مال ہے؟ انہوں نے عرض کی اﷲ کریم نے مجھے (ہر قسم کا مال) اونٹ، بکریاں ، گھوڑے اور غلام عطا فرمائے ہیں۔اس پر سرکار کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اﷲ تعالی نے تمھیں مال عطا فرمایا ہے تو اس کی نعمت کا اثر تمھارے بدن پر بھی ظاہر ہونا چاہئے۔
آرائش یعنی خوبصورت کپڑے پہن کراپنے دل کو خوش کرنے اور آسائش یعنی آسانی کیلئے قیمتی لباس پہننا جائز ہے۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:
اَللّٰہُ جَمِیْل وَیُحِبُّ الْجَمَّالَ بیشک اﷲ کریم خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔
3۔ تشبہ سے اجتناب:
لباس کے متعلق شریعت نے جو تیسرا اصول دیا ہے وہ’تشبہ سے بچنا‘ ہے۔یعنی ایسا لباس پہننا جس کو پہن کر انسان کسی غیر قوم کا فرد نظر آئے اور اس مقصد کے لئے وہ لباس پہنے تاکہ میں ان جیسا ہو جاؤں اس کو شریعت میں تشبہ کہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر کسی غیر مسلم قوم کی نقالی کی نیت سے کوئی لباس پہننا ، اس سے قطع نظر کہ وہ چیز ہمیں پسند ہے یا ناپسند، اچھی ہے یا بری، تشبہ کہلاتا ہے جو کہ حرام ہے۔ مثلا گلے میں زنارڈالنا ہندؤں کی رسم ہے ، اب اگر کو ئی زنار اس لئے ڈالتا ہے کہ میں ان جیسے نظر آؤں تو یہ تشبہ ہے جو حرام ہے اور اگر یہ نظریہ تو نہ ہو لیکن غیر قوم سے مشابہت ہو جائے تو وہ حرام تو نہیں لیکن شریعت نے اسے بھی ناپسند فرمایا۔
لھذا لباس کے معاملہ میں بھی احتیاط کرنی چاہئے کہ ایسا لباس نہ پہنا جائے جو غیر قوم کا شعار ہو۔
4۔ تکبر سے اجتناب:
لباس کا چوتھا اصول یہ ہے کہ ایسا لباس پہننا حرام ہے جس کو پہن کر دل میں تکبر اور بڑائی پیدا ہو، چاہے وہ لبا س ٹاٹ کا ہی کیوں نہ ہو۔ مثلا کوئی شخص ٹاٹ کا لباس پہنے اور مقصد یہ ہو یہ پہن کر میں لوگوں کی نظروں میں بڑا درویش اور صوفی نظر آؤں گااور پھر اسکی وجہ سے دوسروں پر اپنی بڑائی کاخیال دل میں آجائے اور دوسروں کی تحقیر پید ا ہو جائے تو ایسی صورت میں وہ ٹاٹ کا لباس بھی تکبر کا ذریعہ اور سبب ہے۔اس لئے حرام ہے۔حضرت سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ تکبر کپڑے پہننے سے نہیں ہو تا بلکہ دوسروں کی حقارت دل میں لانے سے ہوتا ہے۔لہذا تکبر کا تعلق صرف اچھے لباس کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ بعض اوقات گھٹیا لباس بھی انسان کے دل میں تکبر کا بیج بو دیتا ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔
ٹخنے چھپانا:
مردوں کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ اپنی شلوار کو ٹخنوں سے اوپر رکھیں بلاوجہ شلوار سے ٹخنوں کو چھپانا مکروہ اور تکبر کی وجہ سے ایسا کرنا ناجائز و حرام ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص اپنے کپڑے کو تکبر کے ساتھ نیچے گھسیٹے تو اﷲ تعالی قیامت کے روز اس کو رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔
المختصر کوئی بھی لباس جو تکبر کا سبب بنے پہننا حرام ہے۔
لباس کے استعمال میں نبی کریم ﷺ کی سنت شریف
ٓآپ ﷺ کا ہر لبا س مبارک دو خصوصیتوں کا حامل ہوتا تھا۔
۱۔ سادہ ۲۔صاف ستھرا
شیخین کی روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پا س اونی کمبل تھا جس پر پیوند لگے ہوئے تھے آپ ﷺ اسے زیب تن فرماتے اور ارشاد فرماتے:
اِنَّمَا اَنَا عَبْداَلْبَسُ کَمَا یَلْبِسُ الْعَبْد بیشک میں ایک عبد ہوں اور عباد والے کپڑے پہنتا ہوں۔
اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ کَرَامَۃَ الْمُوْمِنِ عَلَی اللّٰہِ نَقَاوَۃُ ثَوْبِہٖ وَ رِضَاہُ بِا الْیَسِیْر۔ بیشک اﷲ کے نزدیک مومن کی کرامت و عظمت یہ ہے کہ اس کا لباس صاف ستھرا ہو اور جو آسانی سے مل جائے اس پر راضی ہو۔
سفیدرنگ کے کپڑے سرکا ر کریم ﷺ کے پسندیدہ ہیں
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلْبِسُوْ مِنْ ثِیَا بِکُمْ الْبَیَاض، فَاِنَّھاَ مِنْ خَیْرِ ثِیَابِکُمْ ۔ ابوداؤد سفید رنگ کے کپڑے پہنوں اس لئے کہ مردوں کے لئے سب سے اچھے کپڑے سفید رنگ کے ہیں۔
اس حدیث پا ک سے معلوم ہوتا ہے کہ سفید رنگ کا لباس آپ ﷺ کو محبوب تھا لیکن آپ ﷺ نے ا س سے ہٹ کر دوسرے رنگ کے کپڑے بھی زیب تن فرمائے ہیں۔
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
قَدْ رَأیْتُہُ فَیْ حُلَّۃِِ حَمْرَاءَ مَا رَأ یْتُ شَیْئاََ قَطُّ اَحْسَنَ مِنْہُ۔(بخاری) میں نے آپ ﷺ کو سرخ جوڑے میں دیکھا اور میں نے آپ ﷺ سے زیادہ خوبصورت چیز اس کائنا ت میں نہیں دیکھی ۔
حضرت رفاعہ تیمی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
رَأیْتُ رَسُوْ لَ اللّٰہِ ﷺ وَعَلَیْہِ ثَوْ باَنِ اَخْضَرَانِ۔ (ابوداؤد) میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ پر دو سبز رنگ کے کپڑے تھے۔
لباس پہننے کا سنت طریقہ:
لباس پہننے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ لباس پہنتے وقت دائیں جانب سے شروع کریں اور اتارتے وقت بائیں جانب سے شروع کریں۔حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِذَا لَبِسْتُمْ اَوْ تَوَضَأْ تُمْ فَا بْدَؤا بِمَیَامِنِکُمْ (ابوداؤد) جب تم لباس پہنو یا وضو کرو تو اپنی دائیں جانب سے شروع کرو۔
لباس کے استعمال کے لحاظ سے احکام
مذکورہ بالا اصول و قواعد کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ لباس کی استعمال کے لحاظ سے پانچ اقسام ہیں۔
ا۔واجب:
جس کا استعمال کرنا واجب ہے اس سے مراد لباس کی وہ مقدار ہے جس سے شرمگاہ کو نگاہوں سے چھپایا جاسکے۔ یہ انسان پر اﷲ تعالی کا حق ہے جس کا ترک کرنا گناہ ہے اور اس لباس کے بغیر عبادت نہیں ہوتی ۔
۲۔مندوب:
وہ لباس کہ جس کہ پہننے کی شرعیت میں ترغیب آئی ہے اس کے علاوہ رفع ضرر یعنی گرمی اور سردی سے بچاؤ کیلئے۔ مندوب لباس کا استعمال آدمی کا حق ہے اسے وہ ترک بھی کر سکتا ہے۔
۳۔مکروہ:
جس کے نہ پہننے کی شرعیت میں ترغیب آئی ہے۔مثلا غنی شخص پھٹے پرانے کپڑے پہنے۔
۴۔حرام:
وہ لباس کہ جس کہ پہننے کی شریعت میں ممانعت آئی ہے جیسے مرد کیلئے خالص ریشمی کپڑا پہننا۔
۵۔ مباح:
وہ ان چار قسم کے علاوہ ملبوسات ہیں جیسے کتان، اون، کپاس سے بنے ہوئے کپڑے، کوٹ، اچکن اور جیکٹ وغیرہ۔
واﷲ تعالی اعلم باالصواب
Muhammad Zamir Alkaram
About the Author: Muhammad Zamir Alkaram Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.