گھٹن زدہ معاشرے میں محبت و
اُلفت کی صدائیں ظلم و نفرت کے آتش فشاں میں جل کر راکھ بن چکی ہیں کبھی
کبھی اسی راکھ میں محبت کی چنگاری دوبارہ بھڑک کر اپنے وجود کے ہونے کا
احساس دلاتی ہے مگر مُردار ذہنیت اور سوئے ہوئے ضمیر پر کوئی اثر نہیں پڑتا
۔ظلم تو صدیوں سے ہوتا آیا ہے مگر اب ظلم نے اپنے چہرے بدل لیے ہیں اب ان
چہروں پر کوئی مذہب کا نقاب چڑھا کر پھرتا ہے تو کوئی سیاست کا ،عورت پہلے
زندہ دفن ہوتی تھی اب زندہ جل کل مرتی ہے اذیت وہی ہے تکلیف کا احساس بھی
وہی ہے بس اب وقت اور حالات نے ظلم میں مزید جدت پیدا کر دی ہے -
پہلے لوگوں کے سروں کے مینار بنوا کر اپنی بہادری کی داستانیں رقم کی جاتی
تھیں اب انسان کے جسم پر بم باندھ کر خودکش حملے کے ذ ریعے ہنستے بستے
چہروں اور جسموں کے چھیتڑوں سے اپنی بہادری اور طاقت کا لوہا منوایا جاتا
ہے پہلے انسان کو زندہ دیوار میں چنوا دیا جاتا تھا اب وہی انسان کوکبھی
شکاری کتوں کے آگے ڈال دیا جاتا ہے اور کسی کے سر کو قلم کر کے اُس کے ساتھ
فٹبال جیسا کھیل کھیلا جاتا ہے کسی کو ایک جھٹکے میں مارنا کتنا آسان ہے
مگر اب موت بھی دیتے ہوئے اُس کے پل پل کی سسکیاں انتقام میں ڈوبے گرم
لہوکو تسکین پہنچاتی ہے کبھی کسی کے ہاتھ پاؤں ناک کاٹ کر تو کبھی کسی کا
چہر ہ تیزاب سے جھُلسا کر تو کسی کے جسم کو درندوں کے گروہ کے ساتھ نوچ نوچ
کر اپنی مردانگی کا رعب ڈالا جاتا ہے ۔دھماکوں اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے
مہنگائی ،بے روزگاری اور مختلف پریشانیوں کی ماری ہوئی عوام کی خون کی
ندیاں بہائی جاتی ہیں اوراس عمل کے کرنے کی وضاحت شریعت کے نفاز کے بہانے
سے کی جاتی ہے انسانیت کے علم بردار ان خون آشام اور دل دہلا دینے والے
واقعات پر مذمت کر کے اپنا انسانی فرض پور ا کر کے اطمینان کا اظہار کرتے
ہیں کہ وہ کم از کم ظلم کی مذمت تو کر رہے ہیں پھر وہی ظلم کرنے والے
بھیڑیوں ،درندوں کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کے لیے اُن کے جبر کو جائز بھی
سمجھتے ہیں۔حاکم وقت روایتی طور پر ان تمام خونی واقعات پر تحقیق اور
کاروائی کا حکم دے کر اپنی جان چھڑاتا ہے۔بھوک اور فاقوں سے صحرا میں زندگی
کی بہاریں خزاؤں کے چراغوں میں سسکیاں لے کر آخر اپنی ناکام حسرتوں کے ساتھ
بجُھ جاتی ہے پھر ہوش آتی ہے جب بھوک سے مرتی زندگی دنیا کی بے حسی سے
اُکتا کر خاموش دنیا میں چلی جاتی ہے -
۔محمد رفیع مرحوم کا سدابہار گانے کی وہ بازگشت ۔۔۔یہ زندگی کے میلے
دنیامیں کم نہ ہوں گئے افسوس ہم نہ ہوں گئے۔مگر اب یہ زندگی کے میلے رہے ہی
کہاں ہیں اب تو یہ درندگی کے میلے بن چکے ہیں محبت و اُلفت اپنے ہی وجود
میں کہیں گُھٹ کر مر گئی ہے احساس دلائیں بھی تو دلائیں کس کو یہاں تو بے
حسی ہی انسانیت کا اولین فریضہ بن چکی ہے آہ آج ہماری زبان کی تاثیر اسی
وجہ سے تو بے اثر ہو چکی ہے کیونکہ ہم اپنے وجود میں موجود تضاد کو مٹانا
بھی توبھول گئے ہیں۔مختلف دھڑوں طبقوں میں تقسیم یہ معاشرہ کسی کو جائز اور
کسی کو ناجائز ہونے کے فتوے بانٹ رہا ہے کوئی روشن خیالی کو اسلام کا دشمن
قرار دے کر اُس کی کردارکشی میں مصروف عمل ہے تو کوئی مذہبی انتہاپسندوں کو
اسلام اورانسانیت کا دشمن قرار دے رہا ہے مگر ظلم کرنے والے تو ظلم کر رہے
ہیں بلکہ اُن کے ظلم میں مزید اضافہ ہو تا جا رہے مگر بدقسمتی سے ظلم کی
شکار قوم مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو کرآپس میں اپنے علم و منطق کی بنیاد پر
آپس میں اُلجھنے میں مصروف ہے ۔
خون کی ہولی کھیلنے والوں سے امن اور محبت کی بھیک مانگی جا رہی ہے شاید جب
بھیڑیوں کے پیٹ بھر جائیں وہ کوئی نیا شکار کچھ عرصے کے لیے نہیں کرتے مگر
کیا ضمانت ہے کہ وہ بھوک لگنے پر دوبارہ شکار نہیں کریں گئے ۔حقیقی شعور کب
آئے گا کیا مزید خون کی ندیاں بہنے پر ہم آپس میں جسد وواحد کی طرح ہو
جائیں گئے یا پھر یہ خون کی ندیاں بہتی رہیں گئی اور آپس میں نفرتیں نفرتیں
بھی بڑھتی رہیں گئی آخر کو ن اس تیز آندھی میں امن کا دیپ جلائے گا آخر کب
تک بے ضرر معصوم لوگوں کی لاشیں گرتی رہیں گئی اب مزید کتنی قربانی دینا
پڑے گئی انصاف کب ملے گا کیا انصاف پانچ لاکھ دینے سے کسی کی آنکھوں سے
بہتے اشکوں کو روک پائے گاکیا مذمت کرنے سے دکھوں اور ہولناک غموں کے ٹوٹنے
والے پہاڑ پر صبر کا مرہم ثابت ہوگا جب زندگی کا بے رحم قتل ہوتا ہے جب
ہنستی کھیلتی زندگی کودرندگی سے کچلا جاتا ہے تو دلوں دماغ پر کیسے ازیتوں
کے ہتھوڑے ہر لمہے لگتے ہیں جس کسی گھر کا چراغ بجھتا ہے وہی جانتا ہے کہ
اس چراغ بجھنے سے پورا خاندان تار یکیوں اور غمناک اندھیروں میں ہمیشہ کے
لیے ڈوب جاتا ہے ظلم کو نکیل ڈالنے کے لیے کون سا خدائی فوجدار آئے گا کم
از کم اس معاشرے میں تو انصاف ملنے کی توقع نہیں ایک ہی ذ ات ہے جو خالق و
قادرہے جسکا انصاف دنیا کا سب سے بڑ اا نصاف ہے اے خدا تو ہی اپنی لاٹھی کو
حرکت میں لا کر یہ مرئی ہوئی روحوں میں انسانیت کی روح بیدار کر ۔آمین |