تم کہاں ہو

یہ کس کا مزار تھا مجھے نہیں معلوم میں تو ایک شعر پڑھ رہا تھا، بڑا عجیب شعر تھا جب میں نے شہر کے ایک جید عالم دین کی مجلس خاص میں مطلب سمجھنے کے لئے پڑھا تو بولے یہ کفر پر مبنی ہے اور ایسے اشعار نہیں پڑھنے چاہئیں ایمان خراب ہوتا ہے اور گناہ بھی پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا یہ کس کا شعر ہے تو میں نے کافر مصنف کا نام بتانے سے انکار کر دیا، خیر میرے دل سے کانٹا نہ نکلا اور میں نے ایک صاحب پی ایچ ڈی سے شرع شعر پوچھی تو بولے دیکھو اس شعر میں دو قوتیں ہیں ایک بندے کی اور ایک خدا کی لیکن افسوس کے بندہ اثبات خدا کی بجائے انکار خدا کر رہا ہے اور یہ مذہبی نقطہ نظر سے جائز نہیں ہے شاعر کو ایسا شعر نہیں لکھنا چاہئے تھا۔ میری تو عادت ہے جب کوئی علمی مسئلہ پھنس جائے تو حل کئے بغیر نہیں رہتا اور پھر یہ شعر تو ایک بہت بڑے شاعر کا تھا اور ہم اسے اپنے دین اور شاعری سے نہیں نکال سکتے، پنڈی کے ایک بہت بڑے گدی نشین پیر بھی یہ کہہ کر ٹال گئے کہ کچھ رمز کی باتیں اللہ ہی جانتا ہے یا پھر وہ جانتا ہے جس کو اللہ اذن دے ہم تو گنہگار بندے ہیں ہمیں تو اس سے معافی مانگنی چاہئے۔ میں حیران تھا کہ ساری دنیا پیروں کے پاس روحانی فیض حاصل کرنے جاتی ہے مشکل کا حل ڈھونڈننے جاتی ہے لیکن میرا مقدر کیسا ہے لب دریا ہوں اور پیاسا ہوں۔

ہمارے محلے میں ایک حافظ جی رھتے تھے بڑے درویش انسان تھے کچی مٹی پر سوتے تھے اور کسی سے زیادہ میل ملاپ نہیں رکھتے تھے، مجرد زندگی گزار رہے تھے میں نے سب سے پہلے انہی سے شعر کا مطلب سمجھنے کی کوشش کی تھی مگر انہوں نے کہا تھا کہ کسی عالم دین سے پوچھو، ایک دن محلے سے گزرتے ہوئے پوچھا ملا مطلب میں نے کہا نہیں حافظ جی! بولے مغرب کے بعد میرے حجرے میں آنا، حجرہ کیا تھا آسیب زدہ کمرہ تھا کچی مٹی کا، کتابوں کا ڈھیر، ایک طرف جائے نماز، ٹوٹی ہوئی تسبیاں، مٹی کے کچے برتن، بولے تم اپنے منہ سے بتاؤ شعر کس کا ہے میں نے کہا ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبال کا کہنے لگے القاب ہٹا کر نام لو القاب دنیا دیتی ہے نام رب دیتا ہے میں نے کہا اقبال کا کہنے لگے اب شعر پڑھو۔۔۔ میں نے پڑھا

متاع بے بہا ہے سوزوساز آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی

تو کہنے لگے کہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ اقبال کہہ رہا ہے کہ میرے پاس آرزو اور خواہش کا سوز اور ساز ایک انمول متاع اور دولت کی طرح ہے اور اگر مجھے اللہ اس کے بدلے میں خدائی عطا کرے تو میں نہیں لوں گا کیونکہ بندے کے پاس آرزو اور خواہش ہے جبکہ اللہ جو چاہتا ہے وہ پورا ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ بولے اب میرے ایک سوال کا جواب دو تم کہاں ہو میں نے کہا جی آپ کے سامنے کہنے لگے نہیں یہ تمہارا جسم ہے تم کہاں ہو، کہنے لگے یہ تمہاری آنکھیں ہیں۔ یہ تمہارے ہاتھ ہیں۔ سب کچھ ہے تم نہیں ہو مر جاؤ گے تو کوئی نہیں کہے گا کہ تم ہو سب کہیں گے کہ سدید مسعود کا جسد خاکی ہے یا مردہ ہے جاؤ پہلے اپنے آپ کو تلاش کرو اپنے جسمانی لباس کو اپنی پہچان نہ بتاؤ ۔۔۔۔ جاؤ سوچو اور پھر آنا

رات بھر میں سوچتا رہا، میں کون ہوں میرا جسم تو قبر میں چلا جائے گا میں کہاں جاؤں گا تو اس جسم کے اندر میں ہوں لیکن کس صورت میں ہوں میں نہیں جانتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر حافظ جی بولے جس دن جان لو گے اس کا ہاتھ اور اسکی زبان بن جاؤ گے وہ قرآن میں کہتا ہے روح امر ربی ہے اور امر ربی کو فنا نہیں، یہ تمہارا جسم تم نہیں ہو اسکے اندر امر ربی تم ہو، جسم فنا ہو جائے گا اور پھر نیا مل جائے گا لیکن امر ربی اللہ کا فعل ہے اور طاقت ہے اور اسکا نور ہے یہ نہیں فنا ہوگا تمہارا جسم مٹی میں چلا جائے گا اور خدا کا نور خدا کے پاس۔

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

اب اقبال کے شعر کی سمجھ آنی شروع ہوئی کہ وہ اللہ سے کہہ رہا ہے اے اللہ میں تیرا امر ہوں تیرا نور ہوں پر تو نے مجھے مقام بندگی دے کر اس میں اپنی محبت کی خواہش اور آرزو رکھ دی ہے اب اگر تو مجھے خدا بنا دے تو میں تیری محبت کی خواہش سے محروم ہو جاؤں گا، تیری محبت کی خواہش کوئی عام چیز نہیں ہے اس میں سوز ہے میں راتوں کو اپنے گناہوں پر روتا رہتا ہوں، شمع کی طرح تیرے پیار میں جلتا رہتا ہوں اور اے اللہ اس میں ساز ہے میں تیرے پیار کی مستی، سرشاری اور نشے میں ناچتا رہتا ہوں۔

میں بیٹھا یہ سارا کچھ سوچ رہا تھا اور سوالوں کے جواب پا رہا تھا کہ ایک با وردی شخص نے آکر مجھے اقبال کا مزار چھوڑنے کو کہا کیونکہ رات ہو چکی تھی ۔

(میں اپنے تمام قارئین کا مشکور ہوں کہ وہ میری تحریر کو پذیرائی دیتے ہیں اور یہ میرا کمال نہیں اس ذات کا کرم ہے)
Sadeed Masood
About the Author: Sadeed Masood Read More Articles by Sadeed Masood: 18 Articles with 23236 views Im broken heart man searching the true sprit of Islam.. View More