’’ اپنے گھر سے ولی اﷲ کے ڈیرے تک‘‘ (ایک تعارف) (قسط نمبر ۱)

’’اگر فیض کمانا ہو تو ضد نہیں کرتے‘‘۔۔۔یہ بات مجھے ایک ولی اﷲ نے سمجھائی ، جن کے لیے میں بے حد عقیدت رکھتی ہوں۔ اب وہ ولی اﷲ کون ہیں ، کیا ہیں، کیسی عاجزی رکھتے ہیں،سب تفصیل سے بیان کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ لیکن اس سے پہلے میں کچھ ذاتی آراء رقم کرنا چاہتی ہوں۔ لوگوں کا ولی اﷲ یا بابوں درویشوں کے متعلق مختلف خیالات ہیں، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں لوگ بابوں اور درویشوں کا روپ دھار کر لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو ولی اﷲ ہے اس کی پہچان ہو ہی جاتی ہے ۔، کچھ دنوں سے میں ایک درویش بابا کے متعلق لکھنے کا سوچ رہی تھی ، کیونکہ ہم سب جب بھی ان کے ڈیرے پر جاتے ہیں تو عجب سکون ملتا ہے۔ جو شاید دنیا کی رنگینی میں نہیں ملتا۔۔۔ یہاں میں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ کالم نگار ـ’’حامد جلال‘‘ جو خبریں میں پس آئینہ کے ٹائٹل سے کالم لکھتے ہیں، ان کے کالم کا بے چینی سے انتظار ہوتا ہے اور بڑی دل جمی کے ساتھ ان کے کالم پڑھتی ہوں ۔ مورخہ ۷ مارچ ان کا کالم پڑھا جو بابوں کے متعلق تھا ایک دائرے میں رہ کر بہت خوبصورتی سے انہوں نے قلم کا ستعمال کیا۔ اصل نقل کی کھالیں اتاری۔۔۔ممتاز مفتی کی کتابوں کے بعد حامد جلال کے کالم پڑھنا میری عادت میں شامل ہو گیا ہے۔ مگر ایک صاحب مجھے کہا کرتے ہیں کہ ممتاز مفتی کی کتاہیں پڑھنا اچھی عادت نہیں ہے لیکن کالموں کے بارے میں میری رائے اور ہے۔۔۔

خیر بات ہو رہی تھی ولی اﷲ کی۔۔۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں ولی اسے کہتے ہیں ’’جو خدا کی محبت و رضا کو بلا طلب اغراض ملحوظ خاطر رکھے، تذلل اور اخلاص کو شیوہ بنائے، نفس کے ساتھ جہاد کرے، روح کو ذکر الہی سے زندہ کرے ، امیروں میں جب بیٹھے تو اپنے شرف و احترام کا غلبہ رکھے، فقیروں کی مجلس میں عاجزی کرے، بے شرمی اور بد خلقی سے بچے، اپنی روزی قوت بازو سے پیدا کرے‘‘۔ زندگی گزانے کے لیے جہاں دنیاوی معاملات سے منہ نہیں پھیرا جا سکتا۔ وہیں روحانیت کے مسکن اور اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ معا شرے کی تبدیلی ایک فرد کی تبدیلی سے ہونا ممکن ہے، اور افراد کی اندرونی تبدیلی ہی بیرونی تبدیلی کی طرف راہ ہموار کرتی ہیں۔ اور یہ اندرونی ، روحانی تبدیلی کسی ولی اﷲ ، مرشد کی صحبت کے بغیر نا ممکن ہوتی ہے۔ کیونکہ فن، صاحب فن کی صحبت میں رہ کر ہی حاصل ہوتاہے۔ نظر بدلنے سے نظارہ بدل جایا کرتا ہے بالکل اسی طرح ولی اﷲ ، صاحب نظر اور صاحب کشف، انسان کی خود غرض زندگی کا رخ تبدیل کر کے بے غرض پٹری پر ڈال دیتے ہیں۔
جرات ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا
ہیں بحر خودی میں کئی پوشیدہ جزیرے
کھلتے نہیں اس قلزم خاماش کے اسرار
جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے

ولی اﷲ اسی افکار کی دنیا میں غوطے کھا کر اﷲ کا قرب حاصل کرتے ہیں اور ولی اﷲ کے اسرار اور پوشیدہ جزیرے ہر ایک پر نہیں کھلتے ہیں مگر جن پر اﷲ کا کرم ہو۔۔۔ ولی اﷲ انسان کو یہی ضرب کلیمی عطا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس میں ایک خاص قسم کی کیفیت، شعور اور اچھوتا طرز حیات محفوظ ہوتا ہے۔ مگر جس پر اﷲ کا کرم ہو وہ فیض پا جاتا ہے او ر بعض کو دیر سے حکمت کی سمجھ آتی ہے۔ جب فیض کی بات کی جائے تو دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ایک فیض ملنا اور دوسرافیض کمانا۔۔۔ فیض ملنا وہ دعا ہوتی ہے جسے رب العزت خود کوئی وسیلہ پیدا کر کے انسان کی چولی میں ڈال دیتے ہیں۔ مگر فیض کمانا کی حقیقت ایک الگ کتاب ہے فیض کمانے کے لیے محنت کرتا پڑتی ہے، فرش پر بیٹھنا جاتا ہ۔جوتیاں سیدھی کی جاتی ہیں ، جھاڑو دیا جاتا ہے، لنگر خود ہاتھوں سے پکایا جاتا ہے، انا کو مارنا پڑتا ہے او رخاص طور پر ضد سے بچنا پڑتا ہے۔۔۔ تب جا کر کسی کے حصے میں فیض آتا ہے۔۔۔

ہم بھی بس یہی فیض کمانے کے لیے ایک ولی اﷲ ، درویش، با با کے ڈیرے پر اکثر جایا کرتے ہیں۔ وہاں کیا لاجواب سکون ملتاہے،،،دنیا کی حقیقت صفر ہوجاتی ہے،،، آگے بڑھنے کا شوق جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔۔۔بس ہم، ولی اﷲ کی دعائیں خاموش عبادت اور خوشبوہیں ہی رہ جاتی ہیں۔۔۔ ولی اﷲ نام لینے کی اجازت نہیں ہے) ایک گمنام علاقے کے درویش بابا بس اﷲ تعالی نے دعاوں کا ایک بہترین وسیلہ پیدا کیا۔ ان کی دعاوں کا خاصا کرم ہے۔ داڑھی، چوغا، یا پھر گلے، بازوں میں تسبیاں نیں پہنتے، بلکہ با لکل سادہ صفت صاف ستھرا لباس اور کمر تھوڑی سی جھکی ہوئی ہے، گھر کے کچے فرش پر بچھی ایک چادر پر بڑی نے نیازی سے بیٹھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ دین میں تو منجھی کا ذکر نہیں ہے۔ خاک سے بنا ہوا انسان خاک پر بیٹھے تب ہی عجز و انکساری حاصل ہوتی ہے۔ ہم گھر سے چار افراد با با جی کے ڈھیرے پر حاضری کے لیے نکلے۔ نکلتے نکلتے ظہر کا وقت ہو گیا، با با جی، اکثر اوقات ظہر کے بعد دروازہ نہیں کھولتے۔ ظہر کے بعد نہ کلام کرتے ہیں نہ دروازہ کھولتے ہیں۔ خیر گاڑی ڈھیڑے کے تھوڑی دور وک کر ہم سب چل پڑھے۔ دروازہ بند پایا پوری امید تھی کہ اب تو بس ملے بغیر ہی واپس جاناپڑے گا۔۔۔ دو ، تین بار دستک کے باوجود دروازہ نہ کھلا۔۔۔لیکن تھوڑی دیر بعد ولی اﷲ نے دروازہ کھولا اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ اندر آنے کا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا خود دوسرے کمرے میں نماز ادا کرنے کے لیے چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہماری طرف آئے ، اور کیا آج میری کیں اور حاضری تھی۔۔۔لیکن حکم ہوا، کچھ مہمان آرہے ہیں تو گھر سے نہیں نکلا۔۔۔ ظہر کی اذان ہوئی نماز پڑھنے لگا۔۔۔ لیکن آپ کی گاڑی رکی،، تو سوچا مہمان کو بیٹھا کر نماز ادا کروں۔۔ آپ کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ اور مہمانوں کو اس دعا والے گھر میں خوش آمدید۔۔۔ جا ری ہے

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 41386 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.