مسلم فیملی لاء آرڈیننس 1961ء میں نکاح کی رجسٹریشن
کولازمی قراردیاگیاہے،زیرنظرمضمون میں اس دفعہ کاجائزہ اسلامی نقطہ نظرسے
لیاگیاہے۔
5. Registration of marriage.
(4). Whoever contravenes the provisions of such-section (3) shall be
punishable with simple imprisonment for a term which may extent to three
months, or with fine which may extend to one thousand rupees, or with
both.
ترجمہ:ہروہ شخص جو ذیلی دفعہ (3)مذکورہ بالا کی خلاف ورزی کرے گا،وہ قید
محض جس کی میعاد تین ماہ ہوسکتی ہے،یاجرمانہ جوایک ہزار روپے تک
ہوسکتاہے،یاہردوسزاؤں کامستوجب (مستحق)ہوگا۔
مفہوم :یعنی جوشخص اس دفعہ میں دیے گئے طریقے کے مطابق اپنے نکاح کی
رجسٹریشن نکاح رجسٹرار کے ذریعے دفتریونین کونسل میں نہیں کرائے گا ،اس
کوتین ماہ قیدیاہزارروپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
جائزہ
اگراس قانون کامنشاء یہ ہےکہ جونکاح رجسٹریشن کے بغیر عمل میں آئے ،وہ
قانوناََ نکاح ہی قرار نہ پائے،تب تویہ دفعہ قرآن وسنت اوراجماع امت کے
واضح ارشادات کے بالکل منافی ہے،نہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولﷺ نے نکاح
کےشرائط میں رجسٹری کرانے کوکہیں دخل دیاہے ،اورنہ پوری امت نے اس کوشرط
سمجھاہے۔
اسلام ایک سادہ مذہب ہےاور وہ کسی کےلیے مشکلات پیدانہیں کرتا،اسلام کےاصول
کے مطابق اگردوگواہوں کےسامنے ایجاب وقبول ہوجائے تونکاح ہوجاتاہے،نکاح کے
سلسلے میں رجسٹریشن کولازمی قراردیناایک زائد شرط ہے،اوراسلام کی تعلیمات
کے بالکل خلاف ہے۔
دوسری خرابی اس قانون میں یہ ہے کہ اسلام میں اگرزوجین خود بغیر کسی نکاح
کے دوگواہوں کےسامنے باہمی ایجاب وقبول کرلیتے ہیں تونکاح ہوجاتاہے لیکن
عائلی قوانین میں ایک تیسرے شخص (رجسٹراریا نکاح خواں ) کےوجود کو نکاح
کےانعقاد کے لیے ضروری قراردیاگیاہے،یہ بھی زائد شرط ہے جس کااسلام سے کوئی
واسطہ نہیں ۔
اور اگریہ منشاء ہے کہ نکاح توتسلیم کرلیاجائے،مگرقانون کی خلاف ورزی کی
بناء پر اس کو سزادی جائے،تویہ ایک خالص انتظامی معاملہ ہے،بدنظمی
اورجعلسازی روکنے کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی ایسااقدام کیاجائے تومناسب
ہے۔اس لیے کہ نکاح کالکھ لینا کوئی بری بات نہیں،خود اللہ تعالی ٰ نے خرید
وفروخت کے معاملات کولکھنے اورتحریری شکل میں کرنے کاحکم دیاہے،ارشاد باری
تعالیٰ ہے:۔
وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ
(البقرہ:282)
معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا
لینے میں تساہل نہ کرو۔
اس کافائد ہ بھی خود آگےارشاد فرمایا:۔
ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى
أَلَّا تَرْتَابُواُ(البقرہ:282)
اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت
قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا
ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔
اس لیے نکاح کالکھ لینا کوئی جرم نہیں ہے،یاداشت کےلیےلکھ لیناٹھیک ہی
رہتاہے۔
مگر اس پراتنی شدید سزاؤ ں کاکوئی جوازنہیں ہے،ہربرائی کوسزاؤں کےذریعے
روکنے کاتصورکچھ اچھانہیں،غورکیاجائے کہ جائیدادوں کے بیعناموں کارجسٹریشن
بھی توایک حیثیت سے ضروری ہی سمجھاجاتاہے،مگراس کی خلاف ورزی پرکوئی
سزاتجویز نہیں کی گئی،اہل معاملہ کے لیے اتنی ہی سزااس بارہ میں کافی ہوتی
ہے کہ غیررجسٹری شدہ بیعنامے ،ہبہ نامے وغیرہ کاکوئی نزاع جب عدالت میں
پہنچتا ہے ،تو عدالت اس کوجائز دستاویز قرار نہیں دیتی بلکہ ایک زبانی
معاملہ یامعاہدہ کی حیثیت دے کر ثبوت طلب کرتی ہے،جس میں اہل معاملہ
کودشواریوں سے بچنے کے لیے پورے ملک میں رجسٹریشن کاضابطہ خودبخود لازمی
ہوگیا،کوئی بھی سمجھدار آدمی کسی بیع نامے ،ہبہ نامے اوررہن نامہ
کوبلارجسٹری نہیں رہنے دیتا۔
رجسٹریشن کولازم قراردینے کی خرابیاں
نکاح کی رجسٹریشن کولازمی قراردینے میں کیا خرابیاں ہوسکتی ہیں ،سابق
وزیراعلی سرحدوممبرقومی اسمبلی مفتی محمودؒ فرماتے ہیں :۔
"رجسٹریشن نہ ہونے سے عدالتی طورپرجواس نکاح کا(جورجسٹرڈنہ ہو)کوئی اعتبار
نہیں ہوگااورعدالت غیررجسٹرڈ نکاح کوتسلیم نہیں کرے گی۔
اب ایک شخص نکاح کارجسٹریشن نہیں کراتا،اس کو سزابھی ہوجاتی ہےیانہیں
ہوتی۔عدالت میں اس کانکاح ثابت نہیں سمجھاجائے گا۔حالانکہ گواہوں کےسامنے
ایجاب وقبول ہوجانے کی وجہ سے شرعاََنکاح صحیح موجودہے۔
اب فرض کرواس عورت کااغواء ہوگیااوراغواکنندہ یاکسی دوسرے شخص سے اس کانکاح
ہوگیاتو اس کاپہلااصلی شرعی خاوندعدالت میں دعویٰ دائرنہیں کرسکتا،کیونکہ
اس کے پاس اپنے نکاح کاکوئی تحریری ثبوت موجود نہیں اورعدالت اصل شرعی نکاح
کوتسلیم ہی نہیں کرتی۔تووہ اپنی منکوحہ عورت کی واپسی کے مطالبہ کادعوی
عدالت میں دائرنہیں کرسکتا۔نیزیہ عورت اپنے جائز خاوند کی وراثت میں حصہ
دار ہونے کادعوی عدالت میں دائر نہیں کرسکتی اورنہ خاوند اپنی اس عورت
کےمرنے کے بعداس کی وراثت کادعوی کرسکتاہے،علی ھذہ القیاس۔ہی حشران دونو ں
کی اولاد کاہوگااورعدالت سے والدین کے مال متروکہ میں ان کوحق وراثت نہیں
دلایاجاسکتااورنہ وہ عورت اس نکاح کی بنیاد پرحق مہریانان نفقہ کامطالبہ
عدالت میں کرسکتی ہے۔"
بظاہر جس مقصد کے لیے اس قانون کااجراء کیاگیاکہ جعلی نکاحوں کی روک تھام
ہوسکے،کیاوہ اس سےحاصل ہوسکتاہے؟مفتی صاحب اس کے جواب میں فرماتے ہیں:۔
"یہ خرابیاں ایسی ہیں جوصریحاََ مداخلت فی الدین ہیں ۔لوگ سمجھتے ہیں کہ اس
طرح نکاحوں کی روک تھام ہوجائے گی۔میں کہتاہوں کہ رجسٹریشن سے ناجائز
اورجھوٹے نکاحوں کی روک تھام ہوجائیگی ۔میں کہتاہوں کہ رجسٹریشن سے ناجائز
اورجھوٹے نکاحوں کی روک تھام ہوجائے گی۔میں کہتاہوں کہ رجسٹریشن سے ناجائز
اورجھوٹے نکاحوں کی روک تھام ہرگزنہیں ہوسکتی ۔ناجائز نکاح اس وقت تک جاری
رہیں گے۔جب تک کہ معاشرے کی اصلاح نہیں کی جاتی اورنہ ہی ان خرابیوں
کاانسداداس وقت تک ہوسکتاہےجب بدمعاش اورغنڈے موجود ہیں ۔۔۔رجسٹریشن
کےباوجود یہ قباحتیں پیداہوسکتی ہیں ۔مثلاََ کوئی شخص رجسڑار کوکچھ رشوت دے
کراس سے نکاح کاسرٹیفکیٹ لے سکتاہےاورکسی بے خبرعورت کےساتھ اپنانکا ح جھوٹ
موٹ عدالت میں پیش کرسکتاہے۔قصہ کوتاہ جب تک معاشرہ کی اصلاح نہیں ہوتی ان
بدمعاشیوں اورناجائز نکاحو ں کاعلاج نہیں ہوسکتا۔" |