میڈیا ورکرز کے مسائل ، احتجاج اور پی ایف یو جے کی جدوجہد

پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی میں صحافتی اداروں نے خوب ترقی کی ہے لیکن اس سب کے باوجود کارکن صحافیوں کے حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ،یہاں صحافی آج بھی عدم تحفظ و معاشی مسائل کا شکار ہیں اور دن بدن مشکلات مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا کا رائے عامہ ہموار کرانے میں اہم کردار ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں نے گزشتہ سال عام انتخابات پر اربوں روپے کے اشتہارات ریڈیو،ٹی وی اور اخبارات کو دیئے ۔اربوں روپے کی اس آمدن کے باوجود پاکستان میں میڈیا کارکنوں کے مسائل اور مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔طاقت ور سیاسی اور غیر سیاسی گروہوں کے علاوہ مذہبی جماعتیں اور ریاستی ادارے بھی میڈیا کو موم کی ناک کی طرح اپنی مرضی کے مطابق موڑنا چاہتے ہیں،ا گرکہیں ایسا نہ ہو پائے تو صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے ۔ گذشتہ کئی سالوں سے صحافیوں کو جان سے مارنے کا سلسلہ بھی جاری ہے،یہی وجہ ہے کہ صحافیوں کی عالمی تنظیم'' کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ ''کے مطابق 1992سے اب تک 1000 سے زائدصحافی مارے گئے ۔پاکستان صحافیوں کے لئے دنیا بھر کے خطرناک ممالک میں اوپر کی پوزیشن پر ہے۔دوسری طرف اس وقت پاکستان و کشمیرمیں ہزاروں چھوٹے بڑے میڈیا گروپس کام کر رہے ہیں لیکن خاموش ظلم سہتے کارکنوں کی بدبختی کہ انہیں وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جاررہی جبکہ اکثریتی میڈیا گروپس دور کے اضلاع میں کام کرنے والے کارکنان سے بیگار لینے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ۔

انہی بے شمار مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ جمعرات20 مارچ کو پی ایف یو جے اور ایپنک کی کال پر وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کے سامنے یوم مطالبات کے حوالے سے احتجاجی ریلیاں اور دھرنے دیئے گئے۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ اور سیکرٹری خورشید عباسی کی کال پر وفاقی دارالحکومت میں پی ایف یو جے ، آر آئی یو جے ، اپنک ،نیشنل پریس کلب اسلام آباد اور مختلف صحافتی تنظیموں کی طرف سے احتجاجی ریلی کا آغاز نیشنل پریس کلب سے افضل بٹ کی قیادت میں کیا گیا جو کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچ کر احتجاجی دھرنے میں تبدیل ہو ا۔دھرنے میں جہاں راولپنڈی اسلام آباد میں کام کرنے والے سینکڑ وں میڈیا ورکرز نے شمولیت کی وہاں دوسرے شہروں سے بھی صحافیوں نے ٹولیوں کی شکل میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے میں شرکت کی ، آزاد کشمیر کے شہروں مظفر آباد ، میرپور ، کوٹلی سے صحافیوں کی کثیر تعداد نے اپنی ضلعی قیادت کے ساتھ بھرپور انداز میں شرکت کی۔سول سوسائٹی و سیاسی جماعتوں کے کارکنان بشمول خواتین اورمتحرک کشمیری نوجوانوں نے دھرنے میں بھرپور شمولیت کرتے ہوئے میڈیا ورکرز کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ۔ دھرناکے شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں بینرز اورکتبے اٹھا رکھے تھے جن پر کنٹریکٹ سسٹم کا خاتمہ آٹھویں ویج بورڈ کی تشکیل ، آئی ٹی این ای کے چئیرمین کا فوری تقرر ساتویں ویج ایوارڈ کے بقایا جات کی ادائیگی ، صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ کارکنوں کے لئے انشورنس پالیسی اور دیگر مطالبات کے حق میں نعرے درج تھے۔احتجاجی دھرنا چھ گھنٹے جاری رہا جس کے بعد وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کی طرف سے خوش خبری سنائی گئی کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے صحافیوں کے تمام مطالبات کو منظور کر لیا ہے صحافیوں کی انشورنس پالیسی کیلئے پی آئی ڈی میں سیل کا قیام عمل میں لایا جا چکا جو اس حوالے سے کام کو بہت پایہ تکمیل تک پہنچا رہا ہے۔ شہید اور زخمی ہونے والے صحافیوں کی مالی امداد کے حوالے سے پالیسی پر بھی کام مکمل کر لیا گیا ہے اور صوبائی حکومتوں کو بھی خط لکھ دیئے گیے ہیں، شہید ہونے والے صحافی کے ورثاء کو دس لاکھ روپے جبکہ زخمی ہونے والے کو تین لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا تاہم صوبائی حکومتیں اس امداد میں اضافہ کر سکتی ہیں اسی حوالے سے صحافیوں کے لئے سپیشل فنڈ کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ میڈیا ہاؤسز کے مالکان سے وزیر اطلاعات اور وزیر داخلہ کی ملاقات ہو چکی ہے جس میں میڈیا ورکرز کے تحفطات اور جائز مطالبات کے حوالے سے مفصل گفتگو بھی کی گئی ہے۔ میڈیا ہاؤسز اور پریس کلبز کی سیکورٹی کے لئے پلان مرتب کیا جا رہا ہے جس کو آئندہ چند روز میں حتمی شکل دے دی جائے گی جس کے بعد پریس کلبوں کو مکمل سکیورٹی دی جائے گی۔ادھر وزیراعظم پاکستان نے یہ تحریری طور پر یہ ہدایت بھی جاری کی ہے کہ قتل ہو نے والے صحافیوں اوراْن پر تشدد کے مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلائے جائیں جبکہ صحافیوں کے مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ کرانے کیلئے خصوصی پراسیکوٹرز کو بھی تعینات کیا جائے گا، ولی خان بابر کی طرح شہید ہونے والے صحافیوں کے مقدمات خصوصی کورٹس میں چلائے جائیں گے جس کے لئے وزارت قانون و انصاف کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔ آٹھویں ویج بورڈ ایوارڈ کے لئے آئی ٹی این ای کے چیئرمین کے ناموں کی سمری وزیراعظم کو بھجوا دی گئی ہے جبکہ آئی ٹی این ای کے چیئرمین کی تقرری جلد کر دی جائے گی۔ میڈیا جسے معاشرے کی آنکھ ، کان اور زبان تو قرار دیا جاتا ہے لیکن میڈیا ورکرز کو ہی بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے اس سے بڑ ا ظلم کیا ہو گا کہ دوسروں کیلئے آواز اٹھانے والوں کو اپنے اداروں میں ہی مفلوج رکھا جاتا ہے ۔ پی ایف یو جے جہاں میڈیا ورکرز کو دیگر حقوق دلانے کے حوالے سے جدوجہد کر رہی ہے وہا ں اس اہم یونین کو یہ بھی چاہیے کہ اس شعبہ میں میرٹ کی بنیاد پر کارکنان کو لانے میں کردار ادا کرے اور جو ورکرز پہلے سے کام کر رہے ہیں ان کے مسائل حل کرنے میں اپنی توانایاں صرف کرے۔ پی ایف یو جے کے موجودہ صدر افضل بٹ اور انکی پوری ٹیم جس طرح صحافیوں کو حقوق دلانے ، میڈیا کی آزادی ،ورکرز کے تحفظ سمیت دیگر اہم مسائل حل کرنے میں جتی ہوئی ہے اس سے پاکستانی و کشمیری صحافیوں کو بہتری کی ایک امید ہو چلی ہے ۔پاکستان میں کام کرنے والے حقیقی میڈیا ورکرز کی اب سوچ یہ بن رہی ہے کہ جب تک ان کے اپنے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے اس وقت تک سامراج کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے ۔سرمایہ داروں کو خیال کرنا ہو گا کہ وہ انہی کارکنوں کے سروں پر اپنا بہروپیا پن چھپائے بیٹھے ہیں جب یہی کارکن ان کے خلاف ہو گئے تو ان کے پاس کچھ باقی نہیں رہے گا ۔ ویسے بھی اب عوام میں دن بدن شعور بڑھتا جا رہا ہے اور شعور کا بڑھنا ہی اصل میں ان مفاد پرست سرمایہ داروں کیلئے خطرناک ثابت ہونے ولا ہے۔

Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66127 views Columnist/Writer.. View More