صدی کا سب سے بڑا فراڈ نائین الیون

نائین الیون تاریخ انسانی کا سیاہ باب

امریکا میں رونما ہونے والا نائین الیون کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا سیاہ باب ہے جس کے ردعمل نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دہشت گردی کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کردیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے جہاں افغانستان اور عراق کو جنگ کے کھلے میدان میں تبدیل کیا وہاں پاکستان کو بھی شدید جانی مالی نقصان اور اس کی سالمیت کو خطرات سے دو چار کردیا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ ان ملکوں میں بھی دہشت گردی شروع کردی ہے جو اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ آج پاکستان اور ایران جیسے ملک اس آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ اس واقعہ کو گزرے ہوئے آٹھ سال ہو چکے ہیں لیکن اس کے ردعمل کی باز گشت آج بھی دنیا بھر میں گونج رہی ہے۔

نائن الیون
گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت اور نیو یارک میں تجارتی مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ہائی جیک کئے جانے والے تین طیارے ٹکرا دیئے گئے اور محکمہ خارجہ (اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ) کے باہر کار بم دھماکا ہوا۔ امریکا میں ہونے والے ان خود کش حملوں کے باعث 2974افراد لاپتہ ہوگئے۔ مرنے والوں میں دنیا کے 90ملکوں کے تمام شہری شامل تھے۔ ہزاروں افراد ہلاک اور اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے جب کہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ ملک کے تمام ہوائی اڈے بند کر دیئے گئے اور وائٹ ہاؤس سمیت اہم سرکاری عمارتیں خالی کرا لی گئیں۔ گیارہ ستمبر بروز2001 منگل کی صبح نیو یارک میں جس وقت ہزاروں لوگ دفاتر جانے کے لئے اپنے گھروں سے نکل رہے تھے کہ ایک بوئنگ 767طیارہ ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی 110منزلہ عمارت کے پہلے ٹاور سے ٹکرایا۔ اس حادثے کے ٹھیک اٹھارہ منٹ بعد بوئنگ 757طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے 110منزلہ دوسرے ٹاور سے ٹکرایا۔ ان دونوں حادثات کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد یونائیٹڈ ائیر لائنز کا ایک اور بوئنگ 757طیارہ واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت پر گر گیا جس سے پینٹا گون کا صدر دفتر جزوی طور پر تباہ ہو گیا جب کہ عمارت کے دوسرے حصے میں آگ لگ گئی۔ ان حملوں کے بعد واشنگٹن میں ہی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل کے نزدیک طاقتور بم دھماکا ہوا اور فوراً ہی واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے قریب ہی ایک اور طاقتور بم دھماکا ہوا۔ ان حملوں کے بعد ریاست پنسلوانیا میں ہی ایک بوئنگ 757 طیارہ بھی گر کر تباہ ہو گیا جس سے اس میں سوار 145افراد ہلاک ہو گئے۔ نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے والے دونوں طیارے ہائی جیک کئے گئے تھے۔ بوئنگ767 طیارے کو بوسٹن سے لاس اینجلس جاتے ہوئے جب کہ دوسرے طیارے کو ڈلاس سے لاس اینجلس جاتے ہوئے اغوا کیا گیا۔ ان دونوں طیاروں میں کل 156افراد سوار تھے جو اس حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ ان دونوں طیاروں کا تعلق امریکی ائیر لائنز نامی ایجنسی سے تھا جب کہ پینٹاگون پر گرنے والے طیارے میں 47 افراد سوار تھے جو تمام ہلاک ہو گئے۔ اس طیارے کا تعلق بھی یونائیٹڈ ائیر لائن نامی کمپنی سے تھا۔ یہ دونوں طیارے بھی راستے سے ہی ہائی جیک کر لئے گئے تھے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاورز ان حملوں کے بعد زمیں بوس ہو گئے۔

“حملے کے بعد“
ان حملوں کے بعد امریکا میں زبردست خوف وہراس پھیل گیا۔ نیو یارک اور واشنگٹن سے لوگ پناہ کی تلاش میں فرار ہونے لگے اور امریکا میں آنے والی تمام پروازوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ کینیڈا میں اتریں۔ امریکا میں ٹرین سروس بھی معطل کردی گئی۔ امریکا میں تمام پلوں اور سرنگوں کی بھی ناکہ بندی کردی گئی اور ایف بی آئی نے معاملے کی تحقیقات شروع کردیں۔ امریکی حکام نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردی کے واقعہ میں چھ حملہ آوروں کے ہلاک ہونے کا دعوی کیا تاہم ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں نہ ہی ان کی شناخت بتائی گئی۔

حملہ کس نے کیا؟
امریکی ٹی وی سی این این نے حملوں کے بعد اس پروپیگنڈہ کا آغاز کیا کہ ان حملوں میں مسلمان انتہا پسند ملوث ہیں۔ امریکی صدر بش نے اسے کروسیڈ وار سے تعبیر کیا۔ سی این این نے باوثوق ذرائع کے حوالے بتایا کہ ان حملوں میں ان لوگوں کا ہاتھ ہے جن کا تعلق اسامہ بن لادن کی تنظیم سے ہے۔دنیا میں ایسی دہشت گرد تنظیمیں بہت کم ہیں جن کے پاس اتنے مالی وسائل اور جدید نیٹ ورک ہے جو اس طرح کے بڑے اور مربوط حملے کر سکتی ہیں۔ ایک مبصر کا کہنا تھا کہ اس دہشت گردی کے اگرچہ مٹھی بھر لوگ ذمہ دار ہیں جنہوں نے طیارے اغوا کئے یا چلا کر عمارتوں سے ٹکرا دیئے مگر ان کے پیچھے ایک ماسٹر مائنڈ بھی موجود ہے۔ اب تک تو صرف دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہی زیر بحث رہے مگر یہ بلند عمارتیں بھی بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بن گئیں جن سے صرف طیارے ہی ٹکرائے اب لوگوں کی توجہ ضرور اس جانب بھی جائے گی۔ وائس آف امریکا کے مطابق حملوں کے باعث امریکا کو عشروں میں بد ترین بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کس نے کیا ہے۔ بعض حلقے اس کا الزام اسامہ بن لادن پر عائد کرتے رہے۔ اس کی کڑیاں چند ماہ بعد ملنے والے اس ویڈیو بیان سے ملاتے ہیں جو حادثاتی طور پر ظاہر ہوئے تھے جن میں امریکی تنصیبات پر حملوں کے لئے کہا گیا تھا۔ ایشیا سے ایک مبصر نے کہا کہ حملے کے لئے جس پیمانے پر منصوبہ بندی کی گئی ہے یہ اسا مہ بن لادن کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسامہ ان دنوں افغانستان میں مقیم تھے اور ان کی تمام تر سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی اور بیرونی دنیا سے ان کا کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ جتنے بڑے پیمانے پر یہ کام ہوا ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ اسامہ بن لادن کا کام نہیں ہے۔ مشرق وسطی کے ایک مبصر کا کہنا تھا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ حملے میں کون ملوث ہے۔ اوکلو ہو ما بم دھماکے میں پہلے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا مگر بعد میں امریکی ہی اس کے ذمہ دار پائے گئے تھے۔ ایک فلسطینی مبصر نے کہا کہ حملے اور دھماکے کی ذمہ داری عرب دنیا پر عائد ہوگی۔ ایک امریکی مبصر کا کہنا تھا اس سلسلے میں اسامہ پر شک کیا جا سکتا ہے۔

شکوک و شبہات
نو گیارہ کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا تیسرا مینار کیسے گرا تھا تیسرا مینار باقی دو میناروں کے سات گھنٹے کے بعد گِرا تھا ۔ سینتالیس منزلہ مینار جسے ’ٹاور سیون‘ بھی کہا جاتا ہے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جڑواں میناروں ’ٹوِن ٹاورز‘ کے تباہ ہونے کے سات گھنٹے بعد گرا تھا۔ تیسرے مینار کے بارے میں کچھ حلقوں کی طرف سے شک کا اظہار کیا گیا تھا کہ اسے خود دھماکہ کر کے گرایا گیا تھا۔ واشنگٹن ڈی سی کے قریب ہی ماہرین کے ایک گروپ کی طرف سے عنقریب مکمل کی جانے والی رپورٹ میں اس شک کو رد کر دیا گیا۔ اور تیسرے مینار کے گرنے کی وجہ اس کی مختلف منزلوں پر لگنے والی آگ بتائی گئی۔ یاد رہے کہ ’ٹوِن ٹاورز‘ کے برعکس تیسرے مینار سے کوئی جہاز نہیں ٹکرایا تھا۔ ماہرین کی تفتیش کے بعد یہ دنیا میں فولاد سے بنی پہلی بلند و بالا عمارت ہو گی جس کے زمین بوس ہونے کی وجہ آتشزدگی ہوگی۔ نیشنل انسٹٹیوٹ فار سٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی کے تفتیش کار ڈاکٹر شیام سندر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے اندازے کے مطابق امکان یہی ہے کہ تیسرے مینار کی مختلف منزلوں پر آگ پھیل رہی تھی جو بالآخر عمارت کے تباہ ہونے کی وجہ بنی ہوگی۔ تاہم آرکیٹکٹس اینڈ انجنیئرز فار نائین الیون ٹروتھ نامی تنظیم سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیسرے مینار کی تباہی کے بارے میں سرکاری طور پر بتائی جانے والی وجہ ناممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یقیناً اس مینار کو خود گرایا گیا ہوگا۔ تنظیم کے بانی رچرڈ گیگ نے کہا کہ چھٹی جماعت کا بچہ بھی اس عمارت کو گرتے ہوئے دیکھ کر اس کی رفتار اور توازن کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ یہ مینار خود زمین بوس نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جو عمارتیں خود گرتی ہیں وہ سیدھی نہیں گرتی بلکہ اس سمت جھکتی جہاں سب سے کم مزاحمت ہو۔ ’وہ سیدھی نیچے نہیں جاتیں‘۔

اسامہ بن لادن
اسامہ بن لادن جس پر الزامات عائد کیے گئے۔ 1979ء میں امریکہ کی مدد کے لیے افغانستان پہنچے تھے۔ اور افغان وار میں روس کے خلاف جہاد میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت وہ امریکیوں کے شانہ بشانہ روس سے نبرد آزما تھے۔ تاہم ۰۸۹۱ کے عشرے میں روس کی شکشت کے بعد ان کے امریکوں سے اختلاف ہوگئے۔ 1996 میں انہوں نے پہلا فتویٰ جاری کیا تھا کہ امریکی فوجی سعودی عرب سے نکل جائیں۔ جس میں اسامہ بن لادن نے امریکہ کی اسرائیل کے بارے میں خارجہ پالیسی پر اعتراضات کیے تھے۔ (۵) ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگون میں دہشت گردی کے گیارہ ستمبر کے واقعات پر امریکا کے سرکاری اداروں میں بڑی لے دے ہوئی۔ دنیا کی منظم ترین اور ترقی یافتہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہر جگہ موضوع بحث بنی رہی۔ ان حملوں کے دو دن بعد ایف بی آئی نے 19مشتبہ افراد کی فہرست جاری کی جن کا تعلق اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ سے جوڑا گیا۔ (۶)ان مشتبہ افراد کی فہرست اور تصویروں کی اشاعت کے بعد یہ حقائق بھی منظر عام پر آگئے کہ ان میں سے بیشتر افراد حادثے کے وقت امریکا سے ہزاروں میل دور تھے۔ جس سے ایف بی آئی کے لئے مزید جگ ہنسائی کا اہتمام ہوا۔ ۔ اسامہ بن لادن نے 16ستمبر2001ءکو امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ اس کا بیان الجزیرہ سے نشرہوا۔ جس میں اس نے کہا تھا کہ یہ انفرادی کاروائی ہے اور ان لوگوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (۷)تاہم بعد میں ڈرامائی طور پر اسامہ بن لادن کے ٹیپ منظر عام لائے گئے۔ امریکی صدراتی انتخاب 2004ء کے موقع پر اسامہ بن لادن کا ایک ایسا ٹیپ منظر عام پر لایا گیا۔ جس میں اس نے امریکہ پر القاعدہ کے حملوں کا اعتراف کیا۔ اسامہ بن لادن کا انسانوی کردار کے بارے میں اب عوامی حلقوں کی یہ رائے ہے کہ یہ ایک خیالی پیکر ہے۔ اب اسامہ بن لادن زندہ نہیں ہے۔ اور اس خیالی پیکر میں امریکہ سی آئی اے اپنے پسندیدہ رنگ بھرتی رہتی ہے۔ امریکہ نے خالد شیخ کو ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ بتایا ہے۔ جسے پاکستان سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا ہے۔خالد شیخ نے پہلے اعتراف اور پھر ان الزامات سے انکار کردیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ اسے ایک ہی بار موت سے ہمکنار کردیا جائے۔ کیونکہ وہ تشدد کے برتاﺅ سے تنگ آچکا ہے۔(۷) نائین الیون کے واقعات کے پس پردہ مقاصد کے بارے میں دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ صدر بش کی ہوس ملک گیر اور مسلم دنیا کے خلاف کاروائی تھی۔ جس کے نتیجے میں دنیا کے دو آزاد مسلمان ملک عراق اور افغانستان پر امریکہ نے قبضہ کر لیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے ایک ماہر رچرڈ اے کلاوک نے اپنی کتاب Against all enimiesمیں لکھا ہے کہ امریکہ کی روس کے خلاف کاروائی اور افغانستان میں آمد اور جنوب میں اسرائیل کو مضبوط کرنے کی پالیسی نے ہی القاعدہ کو جنم دیا ہے۔ ایک اور نامہ نگار پیٹربرجین نے لکھا کہ ”یہ حملے اس منصوبے کا حصے تھے جس کے تحت امریکہ کو مشرقی وسطیٰ میں اپنی فوجی اور ثقافتی موجودگی میں اضافے کا موقع ملا۔ امریکہ نے نائین الیون کے بعد ناٹو کونسل کے ذریعہ یہ اعلان کرادیا کہ امریکہ پر ہونیوالے یہ حملے ناٹو اقوام پر حملے تصور کیے جائیں گے۔ اور امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا یہ آغاز کیا اور کہا کہ وہ اسامہ بن لادن کو عدالت کے کہٹرے میں لائیں گے۔ (۸)گو اقوام متحدہ دہشت گردی کے کسی متفقہ تعریف پر متفق نہیں ہو سکی لیکن اس کے باوجود امریکہ نے دہشت گرد کو ٹھکانہ دینے والے ملکوں کے خلاف معاشی اور فوجی پابندیوں حفاظتی اور اطلاعاتی انٹیلجنس میں شرکت کی ذمہ داری ڈال دی۔ اور اس کا پہلا نشانہ افغانستان اور پھر عراق کو بنایا گیا۔ یہ دونوں آزاد جمہوی ملک تھے۔ جن پر آج بھی امریکی فوجیں اور ناٹو فوجیں موجود ہیں۔ ۸۱ ستمبر۱۰۰۲ کو پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ نیاز نایک نے بی بی سی کے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ جولائی ۱۰۰۲ میں ۱۱۔۹ کے نیویارک کے حملوں سے دو ماہ قبل اعلیٰ امریکی حکام نے ان سے کہا تھا کہ افغانستان کے خلاف فوجی کاروائی اکتوبر کے وسط میں شروع کی جائے گی۔ بلاشبہ افغانستان پر حملے کی منصوبہ بندی ۱۱۔۹ حملوں سے بہت پہلے کر لی گئی تھی اور مقصد اس کا امریکا کی عظیم تر فوجی حکمت عملی پر عمل درآمد کرنا تھا۔ عر۱ق پر امریکہ کے غاضبانہ قبضے پر آج ساری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ یہ حملے عراق کے تیل کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

محمد عطا
تیتنس سالہ محمد عطا کا تعلق مصر سے ہے۔ 1985 میں اس نے قائرہ یونیورسٹی میں سول انجینئر نگ کی تعلیم حاصل کی۔ 90ﺀ میں ایک سول انجینئر نگ کمپنی کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔ امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ 97ء کے وسط میں وہ انسٹی ٹیوٹ سے پندرہ ماہ کیلئے غائب ہو گیا۔ اکتوبر 98ﺀ میں واپس آیا تو گھنی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ انسٹی ٹیوٹ میں اس نے ایک جماعت بنائی۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتا تھا۔ امریکا میں وہ نیو یارک میں رہنے لگا اور ایک سال کے اندر اندر اس نے ہوا بازی کی ٹرننگ حاصل کر لی۔ گیارہ ستمبر سے دو دن پہلے وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ "ان میں سے ایک مرون الشیحی، جو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دوسری عمارت سے ٹکرانے والے جہاز پر سوار تھا۔"ایک فٹنس کلب میں دیکھا گیا جہاں انہوں نے تین گھنٹے گزارے اور وڈیو گیم سے لطف اندوز ہوئے۔ سی آئی اے کا گمان ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور سے ٹکرانے والے جہاز کے پائلٹ کو سیٹ سے ہٹا کر محمد عطا نے پائلٹ کی سیٹ سنبھال لی تھی۔ بعد میں عربی اخبار الشرق الاوسط کے نمائندے نے محمد عطا کے والد سے ملاقات کی تو اس کا دعویٰ تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دھماکے کے بعد محمد عطا نے اسے فون کیا اور اس سے مختصر گفتگو کی۔ والد کا کہنا ہے کہ گفتگو کے دوران محمد عطا کی آواز نارمل نہیں تھی اور اسے اندیشہ ہے کہ اس کے بیٹے کو کسی نے اغوا کر لیا ہے۔ والد کا کہنا ہے کہ محمد عطا ہوا بازی کی الف ب سے بھی نابلد ہے۔ اسے ہوائی سفر سے چکر آتے ہیں۔ اسرائیل کی انٹیلی جنس "موساد"نے محمد عطا کو اغوا کر کے اسے قتل کیا ہو گا اور اس کے پاسپورٹ کو اس غرض کے لئے استعمال کیا ہو گا۔

مروان الشیحی
امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی نے جو مبینہ ہاکی جیکرز کی فہرست جاری کی تھی اس میں دوسرے ہائی جیکرکا نام مروان الشیحی بتایا گیا ہے۔ تیئس سالہ مروان یوسف الشیخی کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے۔ تفتیشی اداروں کا خیال ہے کہ ٹریڈ سینٹر پر دوسرے طیارے کو ٹکرانے کے لئے مروان الشیحی اسے کنٹرول کر رہا تھا۔ گمان کیا جاتا ہے کہ مروان کی محمد عطا سے گہری دوستی تھی۔ گیارہ ستمبر سے قبل وہ اور اس کے دو ساتھی ہائی اسکول کے بعد 1998ء میں مروان متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج میں شامل ہو گیا۔ 1999ﺀ میں مسلح افواج نے اسے تعلیم کے لئے جرمنی بھیجا جہاں مختصر قیام کے بعد وہ امارات واپس آگیا اور شادی کی۔ امارات میں 25دن گزارنے کے بعد واپس جرمن چلا گیا جہاں اس نے اپنے پاسپورٹ کی گمشدگی ظاہر کی اور نیا پاسپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تفتیشی اداروں کے مطابق پرانے پاسپورٹ میں افغانستان کا ویزہ تھا جہاں وہ جہاد میں شرکت کرنے گیا تھا۔ نیا پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد وہ امریکا روانہ ہو گیا۔ امریکا جانے کے بعد اس کی کوئی خبر نہ ملی۔ ہیمبرگ میں وہ اپنی مصری والدہ کے رشتہ دار محمد عطا کے ساتھ رہتا تھا۔ مروان کے اچانک لاپتہ ہونے پر اس کے گھر والے پریشان ہو گئے تھے۔ اس کے بڑے بھائی نے امارات میں سرکاری اداروں سے رجوع کیا جنہوں نے جرمنی میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ اس کا بھائی خود جرمنی گیا جہاں اسے معلوم ہوا کہ وہ امریکا گیا ہوا ہے۔ بعد میں مروان نے امارات میں اپنے گھر والوں سے فون پر رابطہ کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دی لیکن اس نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہے۔

زیاد سمیر الضراح
زیاد سمیر الضراح کا تعلق بیروت سے 75کلومیٹر دور ایک گاؤں المرج سے ہے۔ امریکا کے تفتیشی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ پنسلوانیا کے قریب گرنے والے جہاز کے ہائی جیکروں میں شامل تھا۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ جہاز کے پائلٹ کی سیٹ زیاد نے ہی سنبھالی تھی۔ شہری ہوابازی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہ پانچ سال پہلے ہیمبرگ گیا تھا۔ اس دوران وہ ہر سال اپنے گھر والوں سے ملنے بیروت آتا رہا۔ آٹھ ماہ قبل اس کے والد کا بائی پاس آپریشن ہوا تو وہ اسے دیکھنے آیا تھا۔ زیاد کا والد اپنے بیٹے کو 1500ڈالر ماہانہ روانہ کرتا تھا جس سے وہ اپنی تعلیم اور ضروریات کا خرچہ چلاتا۔ زیاد کے والد کا کہنا ہے کہ مذکورہ حملوں سے چار گھنٹے پہلے اسے زیاد کا فون آیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسے یونیورسٹی کی طرف سے بوئنگ767 کی تربیت کی لئے اسکالرشپ مل گیا ہے اور وہ فلوریڈا جا رہا ہے۔ زیاد کے چچا جمال الجراح نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ زیاد خوش مزاج نوجوان تھا اور وہ انتہا پسند تھا اور نہ اسلامی تعلیمات کا پابند۔ جرمنی میں وہ اپنی ترک گرل فرینڈ کے ساتھ رہتا تھا۔ واضح رہے کہ زیاد کی فیملی نے اس کی وہ تصویر بھی اخبارات کو جاری کی ہے جس میں زیاد کسی تقریب میں لڑکی کے ساتھ ڈانس کر رہا ہے۔ ترک گرل فرینڈ نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرنے ہوئے کہا کہ زیاد کا مذکورہ دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے والے محمد عطا نامی مشتبہ شخص سے اس کا کوئی تعلق رہا ہے۔

عبدالعزیز العمری
ایف بی آئی کی فہرست میں مبینہ ایک اور ہائی جیکر کا نام عبدالعزیز العمری بتایا گیا ہے۔ وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاورسے ٹکرائے جانے والے طیارے میں سوار تھا۔گمان ہے کہ وہ خود بھی پائلٹ تھا۔وہ ریاض میں 24دسمبر 1972کو پیدا ہوا۔ ایف بی آئی کے مطابق عبدالعزیز العمری فلوریڈا میں مقیم تھا۔ مشتبہ افراد کی فہرست میں عبدالعزیز العمری کا نام بھی شامل ہے لیکن اس نے دھماکے کے تیسرے دن ریاض میں اخباری نمائندوں سے ملاقات میں کہا کہ دھماکے کے دوران وہ ریاض میں ڈیوٹی پر تھا۔ وہ 1993ء میں وہ انجینئرنگ کی تعلیم کے حصول کے لئے امریکا کے شہر کو لوراڈو گیا جہاں قیام کے دوران (1995ﺀ) میں اس کے فلیٹ میں چوری ہو گئی جس میں اس کا پاسپورٹ اور دیگر ضروری کاغذات بھی غائب ہو گئے۔ چوری کے واقعے کی اس نے پولیس کے اطلاع دے دی۔31دسمبر 1995ئمیں اس نے نیا پاسپورٹ بنوایا۔ 11 جنوری 1996ء کو وہ نئے پاسپورٹ پر دوبارہ امریکا گیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپریل 2000ء کو وطن واپس آگیا۔ عبد العزیز نے کہا کہ وہ شہری ہوا بازی سے قطعی واقف نہیں اور نہ ہی کسی انتہا پسند تنظیم سے اس کی وابستگی ہے۔پنسلوانیا کے قریب گر کر تباہ ہونے والے طیارے میں مشتبہ احمد النعمی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فلوریڈا میں مقیم تھا اور وہیں ہوا بازی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ احمد النعمی نامی یہ 23سالہ نوجوان سعودی عرب کے شہر عسیر میں مقیم تھا جہاں سے پندرہ ماہ پہلے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوا اور واپس نہیں آیا۔

احمد النعمی
امریکا کے تفتیشی اداروں کو ریاض میں مقیم احمد النعمی ایک پائلٹ کا بھی پتہ چلا ہے۔ مذکورہ جہاز میں سوار احمد النعمی فلوریڈا میں مقیم تھا۔ ایف بی آئی نے احمد النعمی کی تصویر بھی میڈیا کو جاری کی جسے دیکھنے کے بعد احمد حیدر النعمی نامی سعودی ائیر لائن کا کارکن مقامی اخبار کے دفتر گیا اور مذکورہ حملوں سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا۔33سالہ احمد النعمی نے بتایا کہ وہ ایئر لائن میں ہوائی جہاز کے عملے کا نگران ہے۔ وہ سعودی عرب کے شہر جیران میں پیدا ہوا۔ 1998ء میں وہ پہلی بار امریکا گیا۔ گزشتہ اکتوبر میں دوسری بار اور جولائی میں وہ آخری بار امریکا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ تینوں بار اس نے اپنا کوئی سرکاری کاغذ نہیں کھویا۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم بھی جدہ میں حاصل کی۔ احمد النعیمی گزشتہ 14سال سے سعودی ایئر لائن سے وابستہ ہے۔ امریکا میں مختصر قیام کے دوران اس نے ہوٹل کے سوائے کہیں اور اپنا پاسپورٹ نہیں دکھایا نہ ہی امریکا میں اس نے کرائے پر گاڑی لی۔ احمد النعمی نے کہا کہ ایف بی آئی کی جاری کردہ فہرست میں مشتبہ افراد کی کثیر تعداد سعودی ایئر لائنز سے وابستہ ہے جن کی اکثریت 11ستمبر کے حملوں کے دوران امریکا میں نہیں تھی۔ ان کا نام مشتبہ افراد میں شامل کر کے ہمیں صدمہ پہنچایا۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے حملوں میں ملوث افراد کے ملکوں مصر، لبنان، متحدہ امارات، سعودی عرب کے بجائے دہشت گردی کے خلاف کاروائی کے لیے افغانستان کو منتخب کیا جس کا اس واقعے سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔

عراق کی جنگ میں امریکیوں کی ہلاکت اور نقصانات
عراق کی جنگ میں 3ہزار سے زیادہ امریکی فوجی ہلا ک ہو چکے ہیں، اس سے 10گنا زیادہ زخمی ہوئے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی عراق کی جنگ میں کچھ کردار ادا کرنے کے باعث ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں جس سے پوری امریکی فوج کا ذہنی اور اخلاقی توازن درہم برہم ہے۔ مالی اعتبار سے 450ارب ڈالر کے بلاواسطہ مصارف کے علاوہ جو بوجھ امریکی معیشت پر پڑا ہے، اس کا اندازہ چوٹی کے امریکی معاشی ماہرین کے خیال میں 2ٹریلین(2ہزارارب)ڈالر سے زیاد ہے اور باقی دنیا کی معیشت پر اس کے علاوہ کم از کم ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر کا بوجھ پڑا ہے۔

پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نقصانات
پاکستان نے امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں روز اول سے معاونت فراہم کی۔ امریکہ حملوں کی وجہ سے پاکستان میں ایک بار پھر افغانستان مہاجرین کی آزادی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حکومت پاکستان امریکیوں کو فوجی اڈوں کی سہولیات ایندھن اور دیگر اشیاء کی فراہمی میں مدد دی اور القاعدہ کے شہبے میں 600افراد کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا۔ جنہیں بدنام زمانہ گوانتا بے (کیوبا) میں لے جا کر بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ نے جہاں بانی اور اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے ہزاروں بلین ڈالر جنگ کی آگ میں جھونک دیے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ دو سال میں ۲۵امریکی فوجی کاروائیوں کے ذریعے ہماری سرزمین کو ہماری آزادی اور حاکمیت کا مذاق اڑاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے۔ جن میں سیکڑوں افراد بشمول معصوم بچے، بوڑھے اور خواتین شہید ہوئے ہیں۔

کونڈو لیزرائس نے کمال شفقت سے فوج کو سیاسی قیادت کے تحت کارفرما دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ (Undr civilian control The need for Pakistan's military to be placed ) اور امریکی سینیٹرز اور سفارت کاروں نے معاشی اور فنی امداد میں تین گنا اضافے کی بات کی۔ کانگرس نے اگلے پانچ سال کے لیے7ارب ڈالر کی امداد کے پیکچ کا دلاسہ دیا ہے۔ لیکن گاجر مولی والی اس سیاست کے ساتھ ڈنڈے اور لاٹھی والی بات کا بھی بھرپور اظہار کیا گیا۔ امریکہ کے جوائنٹ چیف اسٹاف ایڈمرل مائک ملین نے کہا کہ اگر مجھے کسی اسی جگہ کا انتخاب کرنا پڑے جہاں سے اگلا حملہ ہونے والا ہے تو یہ وہ جگہ ہے جسے میں یقیناً منتخب کروں گا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں القاعدہ ہے، جہاں ان کی قیادت ہے اور ہمیں اس چیلنچ کو ختم کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اسی طرح سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیکل ہے ڈن(Michael Hayden)کا ارشاد ہے: القاعدہ قبائلی علاقے میں دوبارہ مجتمع ہو گئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ امریکا پر کسی دوسرے حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ایک اور جاسوسی ایجنسی ایف بی آئی اے کے ڈائریکٹر روبرٹ موئیلر(Mueller (Robert کا ارشاد گرامی ہے کہ القاعدہ کے کارندے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں اور ”وہ راتوں رات خاموشی سے غائب نہیں ہو جائیں گے۔“ اس کورس میں جس بات کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے، وہ یہ ہے کہ نائن الیون کے حملے کی منصوبہ بندی عراق میں نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ افغانستان میں ہوئی تھی۔ پانچ سال تک عراق کو تاراج کڑنے کے بعد اب یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ اصل خطرہ تو افغانستان اور پاکستان سے ہے اور ہم ناحق عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن سے ایک اہم رپورٹ کے مطابق: گذشتہ 10دنوں میں خطرے کے نئے احساس یعنی فاٹا میں القاعدہ قائدین کا دوسرے نائن الیون کا منصوبہ بنانے پر واشنگٹن میں درجنوں اجتماعات میں گفتگو ہو چکی ہے۔(ڈان، 21اپریل2008)90 ہزار فوجی قبائلی علاقوں میں برسر پیکار ہیں اور گذشتہ تین سال میں 1200سے زائد فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ اسی طرح جنھیں دہشت گرد کہا جاتا ہے ان کا جانی نقصان بھی اس سے کسی طرح کم نہیں۔ ینز3ہزار سے زیادہ عام شہری جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں۔ لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ پورے علاقے میں انتشار ، افراتفری اورخون خرابہ ہے۔ آبادی کے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کو نائن الیون کے بعد امریکا کے حواری بننے کی بڑی بھاری معاشی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ امریکا تو یہی طعنہ دیتا ہے کہ ہم نے 11ارب ڈالر کی امدادی ہے مگر حقیقت یہ کہ اس میں سے2ارب ڈالر فوجی خدمات کے معاوضے میں دی گئی ہیں۔ اور اصل معاشی امداد جس کا ایک حصہ قرض کی شکل میں ہے صرف 5ارب ہے ، جب کہ پاکستان کو ملک اور بیرونی محاذ پر جو معاشی نقصان اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے ہوا ہے، اس کا صحیح تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ 2002ءمیں صرف پانچ سال کی بنیاد پر خود امریکا کی نارتھ کمانڈ کی ویب سائٹ پر یہ نقصان 10سے 12ارب ڈالر قرار دیا گیا تھا۔ آزاد ذرائع کے مطابق گذشتہ سات سال میں یہ نقصان 12سے 15ارب ڈالر کا ہے جس کی کوئی تلافی نہیں کی گئی اور نہ اس کا کوئی مطالبہ پاکستانی حکومت نے کیا، بلکہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مہم
دانشوروں کا کہنا ہے کہ ملکوں اور قوموں کی تاریخ میں ایسے ادوار آتے ہیں جب انہیں امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ شاید مسلم برادری بھی ایسے ہی مرحلے سے گزر رہی ہے۔گیارہ ستمبر اور سات جولائی کے واقعات کے بعد دنیا بھر میں نسلی، مذہبی اور سیاسی مباحثوں نے خاصی شدت پکڑ لی ہے ۔نائین الیون کے واقعات کے بعد امریکہ برطانیہ مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی اور مسلمانوں سے مشابہت کی بنا پر سکھوں کو بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بیل اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ان حملوں کا سب سے زیادہ شکار مسلمان، عرب اور مشرقی وسطیٰ کے باشندوں کو بنایا گیا ہے۔ 80ہزار عرب اور مسلمان باشندوں کے فنگر پرنٹ لیے گئے۔ انٹرویو اور تفتیش کی گئی۔ 5ہزار غیر ملکیوں کو گرفتار کیا گیا۔ جبکہ پوری دنیا میں دہشت گردی کے نام پر ہزاروں افراد کی ائیر پورٹ پر تلاشی اور گرفتاری اور بے دخلی کی گئی۔

مسلمانوں کی دل آزاریاں
نائن الیون کے بعد دنیا میں مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دل آزار خاکہ شائع کیے گئے۔ جس پر ساری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ نائین الیون کی ساتویں برسی پوری دنیا میںمنائی گئی۔ دنیا بھر کے رسائل وجرائد میں اس حوالے سے تحریریں شائع ہوئیں۔ لیکن اس موقع پر امریکہ میں مسلمانوں کی دل آزاری کی ایک اور حرکت ہوئی۔ امریکہ کی ایک کمپنی نے انٹرنیٹ پرایک گیم جاری کیا ہے ''مسلمانوں کا قتل عام''Muslim Massacre نام کے اس کمپیوٹر گیم کو فری ڈاﺅن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔کئی مرحلوںمیں مکمل ہونے والے اس گیم کا مسلح ہیرو دنیا کو مسلمانوں کے وجود سے پاک کرنے کے مشن پر ہے۔ مشین گن، راکٹ لانچر اور دیگر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس یہ ہیرو ایک طیارے سے پیرا شوٹ کے ذریعہ خلیج میں اترتا ہے اور مسلمانوں کا صفایا شروع کرتا ہے۔ اس کے مدمقابل اسلامی لباس میں ملبوس مسلمانوں کو دکھایا گیا ہے۔ بیک گراﺅنڈ میں مسلم کلچر کے مطابق عمارتیں اور مذہبی مقامات مساجد کو دکھاتے ہوئے یہ ہیرو وہ مسلمانوں کو قتل عام کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ تمام مزاحمتوں کو دور کرتے ہوئے قتل کرتا رہتا ہے۔ اور گیم کے مراحل پار ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب اس کا مقابلہ اسامہ بن لادن سے ہوتا اور یہ ہیرو اسامہ کو قتل کردیتا ہے اور اگلے مرحلے کے لئے روانہ ہوجاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں نعوذ باللہ اسکا مقابلہ اللہ اور رسول اﷲ سے دکھایا گیا ہے۔ اس طرح گیم مکمل ہوتا ہے۔ یہ گیم بائیس سالہ امریکی سبوترواگ نے بنایا ہے۔ واگ آسٹریلیا میں مقیم ہے۔ واگ کا کہنا ہے کہ اس گیم مقصدیہ پیغام دینا ہے کہ زمین کے کسی چپے پر مسلمان مرد یا عورت زندہ نہ رہنے پائے۔ اس گیم کے ریلیز ہوتے ہی عالم اسلام سے شدید ردعمل دیکھنے میں آنے لگا ہے۔ پاکستان اور ایران نے اس گیم کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے گیم کو فوراً انٹرنیٹ سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایران کی ایک تنظیم لشکر علی کے سربراہ مہدی سروشانی نے کہا ہے کہ امریکہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے کی ملٹی ملین ڈالر مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ عالم اسلام کو امریکہ کی سازش سے آگاہ ہونا چاہیے۔ اور امریکی سازشوں کا منہ توڑ جواب دینا ناگزیر ہوتا جارہا ہے۔ برطانیہ کی اسلامی تنظیم رمضان فاﺅنڈیشن نے اس گیم پر شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔ ایک پاکستانی کمپیوٹر گیم ایکسپرٹ نے اس حرکت کو مجرمانہ ذہنیت اور بیمار ذہنی کا مظہر قرار دیا ہے

ہندوستان کے مسلمانوں کی تذلیل
نائن الیون کے بعد لوگوں کی مذہبی بنیادوں پر تذلیل ایک معمول بن چکا ہے۔ ہندوستان دنیا کے ان چند ملکوں میں ہے جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔ یہاں تقریباً پندرہ کروڑ مسلمان ہیں اور وہ بھی دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح گیارہ ستمبر کے منفی اثرات کی زد میں آئے ہیں۔ گیارہ ستمبر کے بعد ہندوستان میں کشمیر اسمبلی اور ملک کی پارلیمنٹ پر حملے کیے گئے۔ سازش کے تحت بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں حملے کا نشانہ واضح طور پر ہندوؤں کو بنایا گیا اور ردعمل میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔ ان میں ٹرینوں کے مخصوص ڈبوں میں دھماکے، احمدآباد کے اکشر دھام مندر اور بنارس کے سنکٹ موچن مندر پر بم حملے شامل ہیں۔ گزشتہ برس ہندوؤں کے بڑے تہوار دیوالی سے ایک روز قبل دلی کے مصروف بازاروں میں خونریزی بھی اسی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات اور گیارہ ستمبر کے نیو یارک کے حملے نے مسلمانوں کی شبیہ بری طرح مجروح کی ہے۔ ہندوستان میں آج مسلمان شک کے محاصرے میں ہے۔ ممبئی اور دلی جیسے بڑے شہروں میں ہندو آبادی والے علاقوں میں لوگ اب مسلمانوں کے ہاتھوں مکان فروخت کرنے یا کرائے پر دینے میں ہچکچاتے ہیں۔ انڈین مسلمانوں کو دہشت گردی کے واقعے کے بعد ہراساں کیا جاتا ہے ۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک طرف دہشت گردی کی قیمت مسلمانوں کو اجتماعی طور پر ادا کرنی پڑی ہے تو دوسری جانب ممبئی اور گجرات کے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکت کے لیئے ایک شخص کو بھی سزا نہ دیئے جانے سے مسلم برادری مزید پستی اور شکستگی کے احساس سے گزر رہی ہے۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ نے سلامتی کے نام پر جس طرح کے اقدامات کیے ہیں ان کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستان میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں اور مسلمان شکایت کرتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے کسی واقعہ کی صورت میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، انہیں بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا جاتا ہے، لوگوں کی مذہبی بنیادوں پر تذلیل کی جاتی ہے اور اکثر اذیتیں دی جاتی ہیں۔ اقلیتی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میڈیا عموماً مسلمانوں کی منفی خبریں ہی پیش کرتا ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد سلامتی کے بعض ماہرین اور ہندو دانشوروں کی طرف سے یہ تجاویز کھل کر سامنے آئیں کہ اسرائیل کے طرز پر ہندوستان کی سکیورٹی افواج کو بھی ان افراد کے مکانوں کو تباہ کر دینا چاہیئے جو دہشت گرد کارروائیوں میں شامل ہوں یا جن پر تخریبی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا شک ہو۔ گزشتہ سات برس ہندوستان کے مسلمانوں پر کافی بھاری گزرے ہیں۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کے تمام مکتبہ فکر کے علماء دلی میں جمع ہوئے۔ انہوں نے دہشت گردی کی ہر شکل میں خواہ وہ کسی بھی مقصد کے لیئے ہو مذمت کی اور اسے اسلام کی روح کے منافی قرار دیا۔علماء نے حکومت پر یہ واضح کر دیا کہ اسلام کو دہشت گردی سے منسوب نہ کیا جائے کیونکہ اسلام، بقول ان کے، بے قصوروں کی ہلاکت کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔
 
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387608 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More