چونکہ ہر تحریر، تخلیق اور تصنیف
کے لئے موضوع بنیادی حیثیت رکھتا ہے تو پھر کیوں نہ آج کے موضوع کو
“موضوعات“ کے حوالے سے تحریر کیا جائے دیکھتے ہیں موضوعات پر تحریر کی کاوش
سے قارئین کس حد تک متفق ہوتے ہیں یا کس حد تک مسترد کرتے ہیں
جہاں تک “موضوعات“ کا تعلق ہے تو ادب ہو یا آرٹ شاعری ہو یا مصوری حقائق
ہوں یا خیالات کچھ بھی تخلیق کرنے سے پہلے اپنے خیالات اپنی تحریر یا اپنی
تخلیق کو کیا کوئی نام دیا جانا ضروری خیال کیا جاتا ہے جب بھی کوئی تخلیق
کار کچھ تخلیق کرنا چاہتا ہے تو اس کے ذہن میں اس چیز کے متعلق بے شمار
خیالات کے خاکے سے ابھر رہے ہوتے ہیں پھر تخلیق کار اس کے متعلق مزید سوچنا
شروع کر دیتا ہے اور سوچ کا یہی تسلسل بالآخر تخلیق کار سے کوئی نہ کوئی
شاہکار تخلیق کروا دیتا ہے
اور پھر اس تخلیق کی تکمیل کے بعد اس تخلیق کو اس کے موضوع کی مناسبت سے
کوئی موزوں عنوان دے کر منظر عام پر لے آتا ہے تخلیق کے عنوان کا تخلیق کے
موضوع سے گہرا تعلق ہوتا ہے جب تک موضوع کا علم نہ ہو تخلیق کا مناسب عنوان
تشکیل دینا ممکن نہیں ہوتا عام طور پر تخلیق کار اپنی تخلیق میں جن موضوعات
کو زیر بحث لاتا یا کوئی شاعر و مصنف یا کوئی فنکار و مصور اپنے اپنے انداز
میں اپنی تخلیق کا عنوان تجویز کرتا ہے ان میں ادب و مزاح، ہنر، سیاست ،
تاریخ ، فلسفہ ، کھیل تفریح، تعلیم وغیرہ جیسے موضوعات اہم ہیں
بعض اوقات تخلیق کار اپنے ذہن میں پہلے سے ہی یہ سوچ لیتا ہے کہ اسے اپنی
نئی تخلیق کس موضوع پر خلق کرنی ہے اسی اعتبار سے تخلیق کار اپنے موضوع کی
مناسبت سے ہی تخلیق کا عنوان سوچتا ہے جس طرح کوئی بھی کام کرنے سے پہلے
منصوبہ بندی کرنا ضروری ہوتا ہے بالکل اسی طرح کوئی بھی تخلیق خلق کرنے سے
پہلے بہتر ہے کہ اس کے موضوع کو ذہن میں رکھتے ہوئے عنوان ترتیب دیا جائے
اور پھر موضوع کی مناسبت سے عنوان لکھ کر تخلیق کا آغاز کیا جائے اس سے یہ
ہوتا ہے کہ دوران تخلیق آپ کا عنوان یا موضوع آپ کے تخیل میں خیالات کی
تصویر کشی کرتا رہتا ہے اور خیالات کا یہی تسلسل تخلیق کی تکمیل میں آغاز
سے انجام تک بہترین تعاون و رہنمائی کرتا ہے اور آپ کے موضوع پر آپ کی گرفت
قائم رہتی ہے جو تخلیق کو شاہکار بنانے میں ہمیشہ مددگار رہتی ہے
لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تخلیق کار کسی موضوع کے متعلق سوچتا
بھی نہیں لیکن اس کے ذہن میں کبھی بے ترتیب اور کبھی ترتیب وار خیالات کا
سلسلہ وارد رہتا ہے اور وہ اسی طرح سے ذہن میں امڈنے والے خیالات کی تصویر
کو کینوس پر رنگوں کی صورت یا پھر الفاظ کی صورت اوراق پر اتار لیتا ہے
تخلیق کار جس وقت اپنے ذہن میں بلا ارادہ وارد ہونے والے خیالات کو کینوس
پر اتارتا ہے تو اس وقت اسے خود بھی یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا بنا رہا ہے
کیا لکھ رہا ہے کیا تخلیق کر رہا ہے اس کی یہ تخلیق کس جذبے کے تحت ذہن میں
آئی ہے کونسا موضوع اس تخلیق کا محرک ہے یا پھر کس عنوان کی تاثیر سے یہ
تخلیق خلق ہوئی ہے جبکہ بعض اوقات ایسی ہی بے ارادہ تخلیقات ایک شاہکار کی
صورت منظر عام پر آکر خود اس کے بنانے والے کو بھی حیران کر دیتی ہے کہ
قدرت نے یہ اس کے ہاتھوں کیا خلق کروا دیا ہے کہ جس کے متعلق نہ کبھی سوچا
نہ کبھی چاہا نہ کبھی ارادہ ظاہر کیا
لیکن چونکہ ہر تحریر کا ہر تخلیق کا ہر تصویر کا کوئی نہ کوئی موضوع ہوتا
ہے سو ایسی تخلیقات کے لئے بھی کوئی نہ کوئی موزوں عنوان بھی تخلیق کرنا
پڑتا ہے یہ ایسی ہی بے ارادہ تخلیق ہو جانے والی تخلیقات ہوتی ہیں کہ جن کا
موضوع سمجھ نہ آئے تو انہیں بلاعنوان کے نام سے ہی منظر عام پر لے آیا جاتا
ہے ظاہر ہے کہ جب تک موضوع کا علم نہ ہو اس وقت تک عنوان بھی تجویز نہیں
کیا جا سکتا اسی لئے ایسی تخلیقات کو بلاعنوان کا عنوان دے کر یہ ذمہ داری
ناظرین سامعین اور قارئین کے سپرد کر دی جاتی ہے اور پھر ان تخلیقات کو
قارئین کی آراء کی روشنی میں کسی مناسب موضوع کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے
کوئی موزوں عنوان دے دیا جاتا ہے کہ ہر تخلیق تحریر اور تصویر کی درجہ بندی
کے لئے انہیں کسی خاص موضوع کی فہرست میں شامل کیا جانا بہت ضروری ہے اور
پھر اس موضوع کے اعتبار سے اس کا عنوان تجویز کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے
موضوعات کی بےشمار اقسام ہیں جن میں قدیم و جدید علوم مثلاً فلسفہ مذہب ادب
و آرٹ تاریخ سیاست وغیرہ شامل ہیں اور یہ ایسے موضوعات ہیں جن کی تفصیل میں
جائیں تو شاخ در شاخ موضوعات کی مزید اقسام بنتی چلی جاتی ہیں اور پھر ان
موضوعات کے پیش نظر جدید سے جدید ادوار میں جدید سے جدید تر عنوانات کی
تخلیق کا عمل جاری و ساری رہتا ہے
غور کیا جائے تو ان تمام تخلیقات و موضوعات کا تعلق ہر حوالے سے انسان،
دنیا، کائنات، خالق کائنات اور مخلوق کائنات سے متعلق ہے اسی لئے اس میدان
میں صرف انسان ہی ہے جو اترتا ہے اور اپنی حقیقیت کی جستجو میں رہتا ہے
حقائق کی یہ جستجو ہی ہے جس نے دنیا میں نت نئے علوم و موضوعات کو متعارف
کروایا ہے اور ان علوم و موضوعات سے وابستہ عنوانات کو جنم دیا ہے یہ سلسلہ
انسان کے پیدا کئے جانے سے ہی جاری ہے آدم کی یہی تو جستجو تھی کے جس نے
انسان میں جنت کو خیر باد کہتے ہوئے دنیا کے اسرار تلاش کرنے کے لئے زمین
پر قیام پذیر کروایا
علم انسان کا ہتھیار ہے کہ جس کی بدولت انسان خود آشنائی کا سفر اختیار
کرنے کی دھن میں علوم کی بےشمار اقسام و اختراعات تراشتا ہے اور انہیں
بےشمار خوبصورت موضوعات سے مزین کرتے ہوئے علم و آگاہی کے در وا کرتا ہے جو
انسان کو انسان کی حقیقت سے آگاہی کا نسل در نسل عمل جاری رکھے ہوئے ہے |