سانحہ گڈانی

یہ کس کے پتہ تھا کہ ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد جب منزل مخص آدھے گھنٹے کے فاصلے پر تھی تووہی پر زندگی کی ایسی درناک شام ہوجائے گی جہاں سے روشن صبح کو تصور ناممکن ہے ،اور وہی زندگی کی باقیات کو پہچانا بھی مشکل ہوجائے گا، وہ بھی ایسا سانحہ جس کو بھلانے میں اہل بلوچستان کو شائد زمانہ لگے ۔سرزمین بلوچستان پر جہاں پر انسان کسی نہ کسی کے قہر کا شکا رہے وہاں اس بار کچھ اپنے اور کچھ دوسروں کے پیٹ کی اگ کو بجھاتے ہوئے ایک ایسی درناک اگ کے شعلے کے نظر ہوگئے شکار ہوگے ،وہی 50 زندگیاں ٹرپتے ہوئے جل جل کر رکھ ہوئیں۔

مجھے یاد ہے مکران سے لے کر لسبیلہ تک سول سوسائٹی کی تنظیموں نے مسافرگاڑیوں میں پٹرولیم مصنوعات کی غیر قانونی ترسیل کے خلاف مختلف فورم ،مباحثوں ،تحریکوں ،ڈائیلاگوں ،میڈیا مہم کاانعقاد کیا اور حکومت اور اس کے ماتحت اداروں سے ان غیر قانونی اقدامات کو روکنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ان جان لیوا قانون کشنی کو روکا جائے مگر جہاں پر اوپر سے لے کرنیچے تک لوگ کرپش ،اقرار پروری ،لالچ کا شکار ہواور جہاں پیسے حوس کے لیے انسانی زندگیوں کو کوئی اہمیت حاصل نہ ہو تو وہاں سانحہ گڈانی جیسے واقعات جنم کیوں نہیں لیے گئے۔

بلوچستان بھر میں ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی غیر قانونی صنعت قانون کے رکھوالوں کے ناک کے نیچے برسوں سے قائم و دائم ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی جارہی ہے ، مکران سے کراچی چلنے والی زیادہ تر بسس و کوچز کے اندر،اوپر نیچے پٹرول و ڈیزل سے بھرے ہوے کین ،ڈبے اور ڈرم ملیں کے ،ہر چھوٹے بڑے شہر کے اندر روڈ کے کنارے سنیکڑروں غیر قانونی پٹیرول پمپ ملیں گئے ،وہی پر پٹرول و یزل کے ڈمپینگ اسٹیشن ملیں گے ،مگر سوال یہ اٹھتاہے کہ مسافر گاڑیوں میں پٹرولیم منصوعات کی ترسیل کس قانون کے تحت ہورہی ہے یہاں ریاست کے ٹریفک کے قانون اس چیز کی اجازت دیتاہے کہ سات سو کلومیٹر طویل سفر کو پر خطر بنائیں اور انسانی جانوں کے ساتھ کھلیں ،مگر جہاں دولت کی ہوس کے بچاری ہر جگہ ہوں اور جہاں موت کے سوداگر دیدادلیری کے ساتھ ہر ناجائز کام کو جائز سمجھ کر کیا جارہاہوں وہاں پر زندگی سے محبت کا درس دینا مخص ایک خیال ہی ہے۔

اس حادثے کے پیش ہونے کے فورا بعد میں جائے وقوع پر پہنچا ،جہاں پر ہر طرف تباہی و بربادی و موت کا رقص تھا وہی پر انسانیت کو بھی شرمندہ پایا کہ وہ اپنے حسس ،لالچ کے لیے آج خود سینکٹروں لوگ کے اموات کا ذمہ دار ٹھہر ا ،ہمارا لمیہ ہے کہ ہم حادثات کا انتظار کرتے ہیں اس بعد کچھ دنوں رونا روتے ہیں پھر دوبارہ یہی کام جاری رکھتے ہیں ،اور پھر حکومت بھی فوری تحقیقات کا حکم دیتی ہے ،روپوٹ طلب کرتی ہے اور پھر ہوتاکچھ نہیں ،اس بار بھی اس سانحہ کے بعد میڈیا روپوٹ کے مطابق ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا ہے ،کمیشن حادثے کی وجوہات معلوم کرنے کے علاوہ ذمہ داروں کا بھی تعین کرئے گااور مستقبل میں ایسے طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے اقدامات بھی تجویز کرئے گا

ان تمام تر واقعات پر کمیشن کے ممبران سے مجھے سمیت ایک عام بندے کے لیے اس سوالوں کے جوابات بہت اہمیت رکھتے ہیں،

پاک ایران بارڈر پر تیل کی اسمگلنگ کا ذمہ دار کون ہے؟ ،سیکیورٹی اداروں بشمول ،پولیس ،ایف سی ،پاکستان کسٹم ،گوسٹ گارڈ ،لیویز فورس اور موٹروے پولیس کا کیا کردار ہے؟ ،پٹرولیم مافیا کے پیجھے ڈان کون ہے؟ ،غیر قانونی اسمگلنگ میں کون کون ملوث ہیں اور ان کو کن کن حکومتی افسران اور سیاسی نمائندوں کی سپورٹ حاصل ہے؟ ،محکمہ کسٹم اور دیگر ادارے جب ایکشن لیتاہے تووہ کیا محرکات ہیں جن کی بناپر یہ دھندہ دوبارہ شروع ہوجاتاہے ،؟

سانحہ گڈانی نے پورے مکران کو ہلا کر رکھ دیا ہے لہذا غیر قانونی حرکات میں ملوث افراد کے اس طرح غیر دانش مندانہ رویوں کی وجہ سے ہونے والے واقعات پر حکومت سمیت بے حس عوام کی بھی انکھیں کھل جانی چاہیں کہ چند لوگوں کی ان قانونی شکنی رویوں سے کتنے لوگ لقمہ اجل بنتے سکتے ہیں اور کتنے گھر اجڑ سکتے ہیں،ان پچاس سے زائد قتل پر جن میں حکومت ،حکومتی ادارے ،اور خاموش عوام سب کے سب ذمہ دار ہیں مل کر سوچنا ہوگا کہ مستقبل میں ان واقعات سے کیسے بچا جاسکتاہے -

ان گزارشات کے ساتھ میں میں حکومت بلوچستان اور حکومتی اداروں کی توجہ بیلہ سے کراچی چلنے والی لوکل ٹرانسپوررٹ جن میں بسس اور ویگن شامل ہیں کی طرف بھی مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ ان ٹرانسپورٹ کے اند ر موت کے کپسل کے نام سے منسوب سی این جی سلنڈر لگے جو کہ دوران سفر کسی بھی ٹائم پھٹ سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کوئی بڑا سانحہ جنم لے سکتاہے ،کیونکہ ہمارے ہاں زیادہ تر گاڑیوں میں لوکل طریقے سے ان سلینڈر کونصب کیا گیا ہے جس کی کوئی تصدیقی سرٹیفکٹ نہیں ہے ، سانحہ گڈانی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مذید انسانی کو زندہ جلنے سے بچایا جاسکے،اس سلسلے میں سول سوسائٹی اور میڈیا کے افراد کو ایک بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت مسافر گاڑیوں میں پٹرول و ڈیزل کی ترسل کو فوری طور پر روکے اور بیلہ سے کراچی جلنے والے گاڑیوں سے غیر تصدیق شدہ سلینڈر کو فوری پر نکال کر ہزاروں مسافر وں کے محفوظ سفر کو یقنی بنائیں -
Khalil Ronjho
About the Author: Khalil Ronjho Read More Articles by Khalil Ronjho: 3 Articles with 1846 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.