کسی کو پوراپورا ہرلحاط سے اسکا حق دے دینا اور کسی کے
ساتھ زیادتی نہ کرنا عدل وانصاف کہلاتاہے۔ اسلامی معاشرے میں عدل وانصاف کی
بڑی اہمیت ہے۔ معاشرے میں امن سکون کی ضمانت اس کو قرار دیاگیا ہے۔ہماری
کائنات کا نظام عدل پر قائم ہے۔ اس کی ایک ایک چیز درست مقام پر کام کر رہی
ہے۔ کائنا ت میں موجود اشیاء ایک دوسرے کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں
کرتی ہیں۔ عدل اﷲ تعالی کی صفت ہے۔ قران میں بھی باربار اس بارے میں احکام
بیان کئے گئے ہیں۔قران میں ایک جگہ پر اس کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ــ’’میں
بندوں پر ظلم نہیں کرتا ‘‘جبکہ دو سرے مقام پر یہ بات یوں کہی گئی ’’اے
رسولﷺ جب آپ انکے درمیان فیصلہ کریں تو عدل کے ساتھ فیصلہ کریں بیشک اﷲ
تعالی ٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ جبکہ سورۃ شوری میں
اسطرح سے حضور ﷺ کی زبان سے قران میں کہلایا گیا کہ’’کہو مجھے یہ حکم دیا
گیا ہے کہ تمھارے درمیان عدل کرو‘‘۔
پاکستان میں دیگر معاملات کی طرح قانون پر بھی اس طرح سے عمل درآمد نہیں
کیا جاتا ہے جیساکہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں کیا جاتا ہے۔اسی وجہ سے
پاکستان میں جرائم کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے اور بہت سے لوگ’’ قانون کو
جوتے کی نوک ‘‘پر رکھتے ہیں۔جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو
بہت سے سیاسی نام نہاد مفاد پرست حکمران جماعت ،سیاسی لیڈروں یا پھر کسی
بھی سیاسی تنظیم کی پشت پنا ہی حاصل ہوتی ہے تو وہ من چاہی کاروائیاں کر تے
ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کر لیں انکے ’’بڑے‘‘ قانون کے ہاتھوں
میں آنے سے بچا لیں گے ۔اسی طرح سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مفاد
پرست عناصر جو کہ ’’مالی فائدہ‘‘ کے عوض انصاف کو بیچتے ہیں وہ بھی پاکستان
میں انصاف کا بول بالا اور قانون کی حکمرانی میں بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔
دوسری طرف لوگ خود بھی قانون پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں۔آپ اگر
اپنے آس پاس دیکھیں تو پتا چلے گا کہ ٹریفک قوانین پر ہم کتنا عمل کر رہے
ہیں؟ہر کوئی تیزی سے آگے بڑھنے کا خواہاں ہوتا ہے چاہے اس میں انکی اپنی
جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔دوسری طرف اگر ہم آج کل کی دہشت گردی کے حوالے سے
بات کریں تو دیکھیں کہ کس طرح سے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سے بعض
عناصر اپنی غفلت کی وجہ سے کتنے معصوم لوگوں کے جان بحق ہونے کا سبب بن رہے
ہیں،کہیں جیلوں میں پیسہ کی بدولت لوگوں کو جیل میں اور کہیں جعلی پولیس
مقابلوں میں مارا جاتا ہے ۔اور اگر کوئی غریب مسکین انصاف کے حصول کیلئے
قانون کا دروازہ کھٹکاتا ہے تو اسے اتنا ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے کہ وہ وقت
سے پہلے بڈھا ہو جاتا ہے یا مرکھپ ہی جاتا ہے ۔اگر یہ نہ بھی ہو تو اسکو اس
قدر دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ وہ بھی رہی سہی عزت کی خاطر چپ ہونا بہتر
سمجھتا ہے۔اس طرح کے معاملات کئی سالوں سے میڈیا پر آرہے ہیں ،آپ حالیہ
مظفر گڑھ میں لڑکی کی خود سوزی کے معاملے کو دیکھ لیں،شاہ زیب والا کیس
دیکھ لیں یا پھر بے گناہوں کی عمر قید سزا والا معاملہ دیکھ لیں کہ کس طرح
سے قانون شکنی کر کے ایسے لوگوں کو سزائیں دلوائی جاتی ہیں یا بچا لیا جاتا
ہے۔جہاں ملک کے بڑے بڑے حکمران خود قانون پر عمل درآمد نہ کرتے ہوں ،اپنے
مقاصد کے حصول کیلئے قانون کا سہارا لے کر من کرتی ہوں وہاں کیسے قانون کی
حکمرانی ہو سکتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ اور دیگر قانون نافذ
کرنے والے ادارے قانون پر ہر طرح سے عمل درآمد کو یقینی اور قانون کو بکنے
سے بچائیں تاکہ غریب کے لئے اور امیر کے لئے الگ والا قانون ختم ہو سکے
تاکہ لوگوں کو بروقت انصاف مل سکے ۔جو قومیں قانون پر عمل درآمد نہیں کرتی
ہیں وہ تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔یاد رکھئے کہ ایسے لوگ جو ملک میں امن
وامان کی فضا خراب کرتے ہیں وہ کسی طور رعائت کے مستحق نہیں ہیں وہ قانون
کو ہاتھ میں وجوہات کچھ بھی ہوں لے رہے ہیں انکا سدبا ب کرنا بے حد ضروری
ہے ،یہ وقت کی ضرورت اور قانون کی حکمرانی کا سوال ہے؟؟؟؟؟؟؟ |