یکم اپریل کو منایا جانے والا دن ’’اپریل فول ‘‘ جسے
مغربی ممالک میں ’’آل فول ڈے‘‘ بھی کہا جاتا ہے مختلف ممالک میں مختلف
انداز و اطوار سے منایا جاتا ہے ۔ چوں کہ اس کا تعلق مکمل طور پر جھوٹ سے
ہے لہٰذا کئی ممالک میں یہ جھوٹا مذاق کر کے منایا جاتا ہے تو کہیں جھوٹ
بول کر بے وقوف بناکر منایا جاتا ہے ۔کہیں دن 12بجے تک جھوٹ بول کر منایا
جاتا ہے اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ 12کے بعد جو جھوٹ بولے گا وہ اپریل فول
ہوگا تو کہیں دو دن تک مسلسل جھوٹ بول کر شان و شوکت سے منایا جاتا ہے ۔
مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ اب یہ دن مشرقی ممالک اور خاص کر مسلم ممالک میں
بھی منایا جانے لگا ہے کیوں کہ مسلمانوں میں موجود کچھ منچلے غیر مسلموں کی
ڈگر پر چل کر ویسے ہی بننا چاہتے ہیں۔ اب اس دن کی وسعت کافی حد تک بڑھ چکی
ہے رہی سہی کسر جدید ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے بھی پوری کر دی ہے اب اس
دن کو منانے کے لیے انٹرنیٹ اور موبائیل کا بھی سہارہ لیا جا رہا ہے لیکن
حقیقت یہ ہے کہ اس ’’جھوٹ دن(اپریل فول ڈے)‘‘ کو جیسے بھی منایا جائے غلط
ہی ہے کیوں کہ اس دن کا مکمل دارومدار جھوٹ پر ہی ہے اور جھوٹ ایک
ناپسندیدہ عمل اور گناہ ہے۔اسی جھوٹ کے حوالے سے کچھ واقعات اور احادیث کا
احاطہ کیجئے:
ہارون الرشید اور یحییٰ ابن عبداﷲ اور عبداﷲ بن مصعب ایک مجلس میں
تھے۔یحییٰ نے ہارون رشید سے کہاکہ عبداﷲ بن مصعب کا ایک قصیدہ ہے اور پھر
اس نے قصیدہ سنادیا۔ قصیدہ سن کر ہارون کا چہرہ صدمے سے متغیر ہو گیا۔ یہ
دیکھ کر فوراً قسم کھائی کہ یہ شعر میرے نہیں ہیں ۔یحییٰ نے قسم کھا کر
کہاکہ ’’اے امیرالمومنین یہ شعر اسی کے ہیں ۔ اگر یہ انکار کرتا ہے تو میں
اس سے ایسی قسم لوں گا جو اس کو جھوٹی کھائے گا وہ فوراً عذاب میں پکڑا
جائے گا‘‘ہارون نے اجازت دے دی اور یحییٰ نے ایک بڑی بھاری قسم لی مگر
عبداﷲ نے قسم سے انکار کر دیا۔ ہارون سے خفا ہوکر فضل بن ربیع سے کہا کہ ’’
اگر عبداﷲ سچا ہے تو قسم کیوں نہیں کھاتا؟‘‘ ہارون نے اپنی چادر کی طرف
اشارہ کر کے کہاکہ ’’ اگر اس کے بارے میں کوئی قسم لے لو تو میں ضرور قسم
کھا کر کہوں گا کہ یہ میری چادر ہے‘‘ فضل نے عبداﷲ کو لات مار کر کہاکہ قسم
کھا ، چناں چہ اس نے قسم کھا لی ا س وقت وہ ڈر سے کانپ رہا تھا اور چہرہ فق
تھا تو یحییٰ نے اس کے شانے پر ہاتھ مارکر کہا ’’ اے عبداﷲ تو ہلاک ہو کر
ہی رہے گا کیو ں کہ تو نے جھوٹی قسم کھائی ہے‘‘اﷲ تعالیٰ کی قدرت کہ ابھی
عبداﷲ مجلس سے اٹھا بھی نہ تھا کہ اس کو جذام ہوگیا اور بدن کے ٹکڑے گل گل
کے گرنے لگے اور تیسرے دن اس کا انتقال ہوگیا۔ فضل بن ربیع بھی اس کے جنازے
میں شریک تھا جب عبداﷲ کو قبر میں رکھ کر اینٹیں رکھی گئی تو قبر دھنس گئی
اور لاش اتنی نیچے چلی گئی کہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگئی پھر اچانک سخت
غبار کی آندھی نکلی اور فضل نے شور مچایا کہ ’’ لاؤمٹی لاؤ‘‘ مگر مٹی جس
قدر ڈالتے اندر گم ہوجاتی ۔ پھر کانٹوں کے گٹھڑے لائے گئے وہ بھی اندر غائب
ہو گئے ۔ فضل کے حکم سے اس قبر پر لکڑی کی چھت بنا دی گئی اور قبر کی
گہرائی کو بھرنے سے تمام لوگ عاجز آگئے۔
حضرت عمرہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عائشہؓ کے پاس تھی تو ایک عورت ایک مرد
کو پکڑ کر لائی اور کہنے لگی کہ ’’ اس آدمی نے میری انگوٹھی چرالی ہے‘‘ مرد
نے فوراً کہاکہ میں نے نہیں چرائی تو عورت نے کہاکہ ’’ آپ سب لوگ آمین کہیں
میں دعا کرتی ہوں کہ اے اﷲ اگر میں جھوٹی ہوں تو میرے ہاتھ شل کر دے اور
اگر یہ آدمی جھوٹا ہے تو اس کے ہاتھ شل کر دے ‘‘ دوسرے دن صبح وہ آدمی اٹھا
تو اس کاہاتھ شل تھا۔(العقوبات صفحہ ۴۲۲۔ عبرتناک واقعات)
حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ سچ کو
لازم پکڑو اس لیے کہ سچ نیکی کی طرف راہ نمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف
لے جاتی ہے اور انسان سچ بولتا ہے اور سچائی پر قائم رہنے کی کوشش کرتا
رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اﷲ کے یہاں صدق لکھ دیا جاتا ہے اور تم جھوٹ سے بچو اس
لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی آگ تک پہنچاتی ہے
اور انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کے پیچھے پڑا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ
اﷲ کے ہاں کذاب و جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے‘‘(بخاری و مسلم)
حضور پاکﷺ نے ایک دن اپنا خواب بیان فرمایا اور بتایا کہ آج رات خواب میں،
میں نے فلاں فلاں قسم کے مجرم کا یہ حال دیکھا ۔جھوٹ بولنے والے کا حال
بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’ ہم ایک آدمی کے پاس آئے جو گدی کے بل چِت لیٹا
ہوا تھا اور دوسرا آدمی اس کے اوپر کھڑا ہوا تھا جس کے ہاتھ میں لوہے کی
درانتی تھی کیا دیکھتا ہوں کہ وہ لیٹے ہوئے آدمی کے ایک طرف آتا ہے اور
جبڑے کو گدی تک چیر دیتا ہے اور اس کے نتھنے کو بھی گدی تک چیر دیتا ہے ،
اور اس کی آنکھ کو گدی تک چیر دیتا ہے پھر وہ دوسری طرف جاتا ہے اور وہاں
بھی اسی طرح کی چیر پھاڑ کرتا ہے اور وہ ابھی دوسری طرف سے فارغ بھی نہیں
ہو پاتا کہ پہلی جانب اپنی اصلی شکل پر پلٹ آتی ہے وہ آدمی اس جانب کی
دوبارہ چیر پھاڑ کرتا ہے جس طرح اس نے پہلے چیر پھاڑ کی تھی آپ ﷺ فرماتے
ہیں میں نے کہا سبحان اﷲ ! ان دونوں کا کیا ماجرا ہے ؟ دونوں فرشتوں نے
مجھے بتایا : یہ آدمی گھر سے نکلتا تو کوئی ایسا جھوٹ بولتا جو دور دور تک
پھیل جاتا‘‘ (بخاری شریف)
ہنسے ہنسانے اور تفریح طبع کے لیے بھی جھوٹ بولنا آپ ﷺ کو سخت نا پسند تھا
۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تباہی ہے بربادی ہے اس شخص کے لیے جو اس لیے جھو ٹ
بولتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہنسائے ، بربادی ہے اس کے لیے، اور بربادی ہے اس
کے لیے‘ (ابو داؤد شریف)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایاکہ ’’ کوئی بندہ پورا مومن ہو ہی نہیں سکتا یہاں
تک کہ ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا اور جھگڑا کرنا چھوڑ دے اگر چہ وہ فی نفس
سچا ہو‘‘ ( مسند احمد)
مندرجہ بالا احادیث اور واقعات کو پڑھ کر ایک غیرت مند مسلمان کو یہ زیب
نہیں دیتا کہ وہ اس فضول ترین دن کو منائے اور دوسروں کے لیے پریشانی و
تکلیف کا باعث بنے ہاں اگر ان احادیث اور واقعات کو پڑھ کر بھی ایک مسلمان
کی غیرت ایمانی نا جاگے اور وہ اس دن کو غیر مسلموں کے ساتھ شان و شوکت سے
منائے تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا ا ور نہ ہی کچھ کیا جاسکتا ہے ۔ |