فیقا نائی باتوں اور قصوں کے لیے اتنا ہی مشہور تھا جتنا
مامے قوبے کی دھکا سٹارٹ ویگن۔۔ ۔بڑے بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں کے نام
ایسے لیتا تھا جیسے اس کے کانے ہوں۔ ڈہوک پراچہ کا کوئی گھرانہ فیقے کی
مخبری سے بچا ہوا نہیں تھا۔۔ کس کے ہاں خوشی آنی ہے۔۔کس کے چہلم میں نیاز
اچھی نہ تھی۔۔کون کس کے ساتھ فٹ ہے۔۔ایل ایچ وی کا اپنے میاں سے کیا جھگڑا
چل رہا ہے۔۔عدالتی معاملات اور لوکل الیکشن پر بحث میں اسکا طوطی بولتا
تھا۔۔حجامت کا ہنر ،ایک عدد سائیکل اور مخبری اسے ورثے میں ملے تھے۔۔ہر ایک
کو تڑکا اور چونا لگانا روز کا مشغلہ تھا۔۔دکان کھلتے ہی گاہکوں سے زیادہ
منچلوں کا ہجوم لگ جاتا تھا۔۔فیقا فنکاری میں اپنے آپ کو خشت اول سمجھتا
تھا۔۔حسب معمول دکان کھولی تو جاگیردارانہ وضع قطع کا ایک شخص کرسی پر
براجمان ہوا اور اخبار طلب کی۔۔۔سیٹھ جی اتنے سویرے دودھ پتی مل سکتی ہے
اخبار یخبار نہیں۔۔فیقے کا جواب پورا نہیں ہوا تھا کہ سیٹھ بولا۔ اخبار ،
دودھ پتی اور شیو روزانہ ہو گی پیسے بھی نقد ملیں گے ۔فیقا مستقل بنیادوں
پر گائک اور مفت کی دودہ پتی کا ملنا بابے چوراسی کی کرامت سمجھتے ہوئے
خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا۔۔تعلقات اوردوستی کی خوائش فیقے کی پرانی نہ
چھٹنے والی عادت تھی۔۔فورا دو کپ دودہ پتی کا اشارہ کر دیا۔سیٹھ نے پیسے
دیے اورچلتا بنا۔۔فیقا سیٹھ کی فیاضی دوسرے گاہکوں کے سامنے ایسے بیان کر
رہاتھا جیسے بچپن سے جانتا ہو۔۔ ادھر فیقا دکان سجاتا ادہر سیٹھ جی کی
گرجدار آواز میں سلام ہو جاتا۔۔۔فیقا لمبی لمبی چھوڑتا۔۔کوئی محکمہ ایسا نہ
تھا جہاں فیقے نے نوکری نہ کی ہو۔۔اگر کوئی نوکری چھوڑنے کی وجہ پوچھنے کی
جسارت کرتا تو استرا لہراتے ہوئے کہتا بھائی شاب خاندانی ہوں ،غلط بات
برداشت نہیں کر سکتا۔۔اجت نوکری سے پیاڑی ہے۔۔ میں نے بیوی گھر سے نکال دی
مگر اپنے پیشے پر حرف نہیں آنے دیا۔۔فیقے کی ہچکی بندہ جاتی اور خاموش ہو
کر کام میں مگن ہو جاتا۔۔۔اسے تعریف کے علاوہ کچھ اچھا ہی نہیں لگتا
تھا۔۔دوستی کے ٹھیک پانچویں روز سیٹھ جی اور فیقا باتیں کر رہے تھے کہ ایک
جوان نے سائیکل مستعار مانگی۔۔فیقے نے سوچے بغیر سر ہلا دیا اور دل میں
بولا سیٹھ بیٹھا ہوا ہے کیا سوچے گا ۔۔آخر خاندانی ہوں۔۔نوجوان نے پیڈل
دبایا اور یہ جا اور وہ جا۔۔۔۔۔دو دن گزر گئے نوجوان آیا نہ سائیکل نظر آئی۔
فیقے کو بخار نے گھیر لیا۔دکان پر دیر سے آنے کی سیٹھ نے وجہ پوچھی تو فیقے
نے کہا کہ پیدل آیا ہوں سائیکل تو واپس نہیں آئی جو سائیکل لے کر گیا
تھا۔آپ کا جاننے والا تھا ۔سیٹھ بولا نہیں۔۔پھر تو ہاتھ ہو گیا فیقے کی
آواز دب گئی۔۔سیٹھ نے کہا فکر نہ کر چل تجھے نئی سائیکل لے کر دیتا ہو
ں۔سائیکلوں کی دکان پر پہنچتے ہی فیقے کا بخار اترنے لگا۔۔پسند کرو۔۔سیٹھ
بولا۔فیقے نے اﷲ جب بھی دیتا ہے چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے ‘ کے مصداق سہراب
سائیکل کی گھنٹی چیک کی اور ہلکی مسکان سجائے سیٹھ جی کو دیکھا ‘ کتنے کی
ہے۔۔ ساڑھے چھ ہزار ۔۔ سیلز مین بولا۔ ٹرائی کرلو۔ فیقا سائیکل لے کر سڑک
پر نکل گیا۔۔۔ چکر لگا کر واپس آیا تو سیٹھ جی بولے پسند ہے ۔۔فیقا بولا
’’مہنگی ‘‘ ہے ۔ اس کی فکر نہ کرو لاؤ ذرا میں بھی ٹرائی مار لوں سیٹھ جی
سائیکل لیکر نکل گئے ‘ فیقا سیلز مین کے پاس یوں کھڑا تھا جیسے ’’پرائذ
بانڈ‘‘ کی انعامی رقم ملنے والی ہے …… دس منٹ ‘ بیس منٹ‘ آدھا گھنٹہ‘ دو
گھنٹے۔۔ وقت گزرتا گیا اور شام آگئی…… سیٹھ جی واپس نہ آئے۔ سیلز مین نے
فیقے کو آواز دی کہ کاؤنٹر پر جاکر رسید کٹوا لو …… وہ سیٹھ جی …… کون سیٹھ
جی …… وہ جو سائیکل لے کر گئے ہیں …… پسند تم نے کی تھی …… قیمت تم نے
پوچھی تھی ……پے منٹ کرو …… فیقے کا رنگ سرخ ہو گیا …… اپنے ایک عزیز کو فون
کرکے بلایا …… ساڑھے چھ ہزار کی رقم ادا کی …… تب جان چھوٹی …… فیقے کے
ساتھ پیش آنیوالا سانحہ کی گونج بھی اس کے قصوں ‘ گپوں اور پبلک ریلیشننگ
کی طرح دور دور تک پھیل گئی ایک گاہک بولا سیٹھ جی کو پہلے سے جانتے تھے
۔۔۔ نہیں۔۔ جو جوان سائیکل لے کر گیاوہ کون تھا …… پتہ نہیں …… جب دونوں کو
جانتے نہیں تھے تو یہ تو ہونا تھا…… تم بھی نرے نا…… ہی نکلے ۔ |