محتاط رہیے ! آج اپریل فول ہے

ٹرن !ٹرن! فون کی گھنٹی بجی تو راضون نے فون ریسیو کیا ،دوسری جانب کوئی خاتون تھی،بولی آپ محمد راضون بول رہے ہیں جی! میں بات کرر ہا ہوں ،میں امریکہ کی مائیکر و سافٹ کمپنی کی پاکستانی برانچ سے حفصہ بول رہی ہوں، ہمارے برانچ منیجر آپ سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔فون ہولڈ ہوا اور پھر دوسری جانب منتقل کر دیا گیا،ایک مرد محمد رضون سے مخاطب ہوا کہ آپ نے ہمارے ادارے میں اپنی سی وی ارسال کی تھی،رضوان سوچ میں پڑ گیا! مگر خاموش رہا، آپ ہمارے ادارے کے تمام شرائط پر پورے اترتے ہیں لہذا ہماری مینجمنٹ کمیٹی نے آپ کو نوکری دینے کی منظوری دے دی ، آپ اسلام آبا دکے پوش ایریا F-6پھر مکمل ایڈریس سمجھایا کہ یہاں آج8بجے تک تشریف لے آئیں ۔راضون پڑھا لکھا لیکن بے روزگار تھا ،اور والدین کی اکلوتی اولاد اور واحد سہارا تھا،جس وجہ سے وہ انتہائی خوش ہوا۔اور بتائے ہوئے ایڈریس پر چلا گیا،جب وہ بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچا تو وہ اندھیرا اور سنسانی تھی ،وہ چلتا گلی کی نکر سے آگے بڑا تو اندھیرا کے وجہ سے نظر نہ آیا تو وہ ایک کھائی میں گر گیا ۔جوں ہی وہ نیچے گرا تو اس کا سر ایک نوک دار پتھر پر ٹکرا گیا وہ بے ہوش ہو کر گر گیا، جن دوستوں نے اس کے ساتھ یہ مذاق کیا تھا، وہ 9بجے موجود جگہ پہنچے تو راضون کو وہاں نہ پاتے ہوئے آواز دی جب کوئی آواز نہ آئی تو اس ڈھونڈنے لگے کافی دیر تلاش وبسیار کے بعد ایک دوست کو کھائی میں گرا ہوا نظر آیا، اس اٹھایا تو خون کافی بہہ چکا تھا،جس وجہ سے وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا یوں تمام دوست کے ہوش و حواس اڑ گئے یوں ایک گھناؤنے مذاق نے ماں سے اکلوتا بیٹا اور دوستوں سے ایک بہترین دوست چھین لیا ،آج بھی وہ تمام دوست اپنے کیے پر پشیمان ہیں۔ مگر اب کیا فائدہ جب چڑیا ں چک گئی کھیت-

ماں اولاد کی تربیت میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے،وہ جس رسم کی سختی سے تنبیہ کرتی ہے کہ یہ ہماری رسم نہیں،اور نہ ہمارے مذہب میں اس کی جازت ہے تو اولاد اس رسم اور ایسی بات سے پرہیز کرتی ہے، مگر اس کے باوجود کچھ لوگ جو شور شرابے اوربے ہودہ رسموں سے دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر محفوظ ہوتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کون سی رسم بحثیت مسلمان ہمیں منانی چاہیے اور کس سے اجتناب ہی ہماری دنیاوی و اخروی کامیابی کا زرینہ ہے۔نوجوان طبقے میں زندگی کے ہر شعبے میں لوہا منوانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے لیکن جہاں بات سنوارنے کی ہے وہاں یہ طبقہ بات بگاڑنے میں آئے تو ایسا بگاڑتا ہے کہ آنے والی نسلیں بھی وہ بات ٹھیک کرنے میں سالہا سال لگا دیں تو پھر بھی اصلیت کی جانب نہیں لا سکتی۔

اپریل فول جو ہماری ثقافت پر ایک دھبہ ہے ۔ ہمارے ہاں اس کو منانے کے لیے باقاعدہ تیاریاں ہوتیں ہیں ،عموماً کالجز،یونی ورسٹیوں میں باقاعدہ اہتمام سے یہ دن منایا جاتا ہے۔ہر سال 2اپریل کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے درجنوں اموات صرف ایک جھوٹ کی وجہ سے ہوتیں ہیں،فول بنانے کے جوش نے ہمیں اتناخود غرض اور سنگ دل بنا ڈالا کہ ہم اپنے نفس کو خوش کرنے کے لیے زبان سے گولیاں چلا کر کسی کی جان کے درپے ہوتے ہیں ،کسی بھی قوم کی ثقافت اورتہذیب وتمدن اُس کی پہچان کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے ۔اگر وہ ان چیزوں سے منہ موڑ کر اغیار کی ثقافت پر عمل پیرا ہو جائے تو اُس قوم کی شناخت مٹ جاتی ہے ۔اپریل فول کی تاریخی و شرعی حیثیت کیا ہے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اپریل فول کے بارے میں لوگوں کی آرا مختلف ہیں کوئی بھی حتمی رائے معلوم نہیں ہو سکی بعض لوگوں کا کہنا ہے 21مارچ جب دن اور رات برابر ہوتے ہیں اور موسم بہار کی مناسبت سے تقریبات منعقد ہوتیں ہیں۔ جب یہ تقریبات شروع ہوتیں ہیں اپریل فول کی تاریخ بھی وہاں سے ہی شروع ہوتی ہے۔ بعض کا خیال ہے رسم فرانس میں1564میں نیا کیلنڈر جاری ہونے کے بعد جو لوگ نئے کیلنڈر کو تسلیم نہ کرتے اور اس کی مخالفت کرتے تھے انہیں طعنہ وتشنیع اور لوگوں کے استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا اور ان کے ساتھ انتہائی بدسلوکی روا رکھی جاتی۔انگریز لوگ’’اپریل فول‘‘ کو اپریل کی مچھلی(rpisson Barni) کہتے ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس دن سورج برج حوت سے دوسرے برج میں داخل ہوتا ہے۔حوت مچھلی کو کہتے ہیں یا دوسری وجہ یہ کہ لفظ Possionباسون سے تحریف شدہ ہے باسون کا معنی عذاب اور Possionکے معنی مچھلی کے ہیں۔ اس لیے اس سے اس عذاب اور تکلیف کی طرف اشارہ ہے جو عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق سیدنا حضرت عیسی ؑکو برداشت کرنا پڑی۔ان کا خیال ہے کہ یہ واقعہ یکم اپریل کو رونما ہوا انگریز لوگ اپریل کے پہلے دن کو ’’اپریل فول ڈے‘‘ یعنی احمقوں اور پاگلوں کا دن کہتے ہیں اس لیے وہ اس دن ایسے ایسے جھوٹ بولتے ہیں جنہیں سننے والا سچ سمجھتا ہے اور پھر وہ اس سے استہزا کرتے ہیں ۔سب سے پہلے اپریل فول کا ذکر’’Dralce News Letter‘‘ میں ملتا ہے اخبار مذکورہ اپنی دو اپریل 1968کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ کچھ لوگوں نے یکم اپریل کو لندن ٹاور میں شیروں کے غسل کا عملی مظاہرہ کرانے کا اعلان کیا ، یکم اپریل کو یورپ میں ہونے والے مشہور واقعات میں سب سے اہم اور مشہور یہ واقعہ ہے ایک انگریزی اخبار اخبار اللفیج سٹار نے 31مارچ 1846کو اعلان کیا کل یکم اپریل کو اسلجون(شہرکا نام) کے زرعی فارم میں گدھوں کی عام نمائش اور میلہ ہو گا لوک انتہائی شوق سے جمع ہوئے اور نمائش کا انتظار کرنے لگے جب وہ انتظار میں تھک کر چور ہو گئے تو انہوں نے پوچھنا شروع کیا کہ میلہ کب شروع ہو گا؟ مگر انہیں کوئی خاظر خواہ جواب نہ ملا،آخر کا ر انہیں بتایا گیا جو نمائش دیکھنے میلے میں آئے ہیں وہ خود ہی گدھے ہیں۔وہ شخص جسے لوگ یکم اپریل کو عملی طور بے وقوف اور احمق بنائیں وہ اپریل فول کہلاتا ہے (جی۔ای۔ایمپریکٹیکل ڈکشنری)کو بے فائدہ اور احمقانہ پیغامات بھجوانے کا مشغلہ ہے۔فیروزاللغات اُردو کے مطابق اپریل فول پہلی اپریل کو دوسروں کو بے وقوف،احمق بنانے کی رسم ہے۔

اسلام اس سلسلے میں کیا رائے دیتا ہے ۔اپریل فول جھوٹ کا ہی دوسرا نام ہے جب کہ جھوٹ ایک کبیرہ گناہ اور انتہائی برا عیب ہے ۔اسے منافقت کی نشانی اور علامت قرار دیا گیا ہے ۔یہ چوں کہ ایمان کے منافی ہے اس لیے اسے ایمان میں بہت بُرا عیب قرار دیا گیا۔جھوٹ بولنا انتہائی مذموم اور قبیح فعل ہے آنحضرت محمدﷺ نے اسے سب سے بُری عادت قرار دیا ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخض میں چار خصلتیں موجود ہوں وہ پکا منافق ہے اورجس کے اندر ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے ۔جب بات کرے تو جھوٹ بولے، کوئی معاہدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے،جب وعدہ کرے اس تو کی خلافی کرے،اور جب کسی سے جھگڑا ہو تو گالیاں دےْ‘‘

اپریل فول گھناؤ مذاق ہے جو جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے وہ منافق کی پہلی اور بڑی واضح نشانی ہے اور منافق کے بارے میں تو یہاں تک ذکر ہے کہ یہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ جھوٹ کو چھوٹی موٹی بات سمجھ کرنظر انداز کر دیتے ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے ’’رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہمیشہ سچ بولو سچائی جنت کی طرف لے کر جاتی ہے جو شخض سچ بولتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے تو اسے اﷲ تعالی کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے۔اور جھوٹ سے بچو بے شک جھوٹ گناہوں کی طرف لے کر جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے کر جاتا جو شخض جھوٹ بولتا اور بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تو اسے اﷲ رب العزت کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘سعودی علماء اکرام کا فتوی ہے ’’اپریل فول کافروں کا شغل اور مسلمانوں کے لیے حرام ہے‘‘ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے۔اس حدیث میں 3اشخاص کے بارے میں ذکر ہے درمیانی لائن میں حضرت محمدﷺ فرماتے ہیں’’اور جو شخص جھوٹ ترک کر دے خواہ مذاق و مزاح ہی کر رہا ہو تو اس کے لیے جنت کے وسط میں ایک محل کا ضامن ہوں‘‘۔

جھوٹ صرف تین موقعوں پر بولنے کی اجازت ہے’’لڑائی کے موقع پر لوگوں کے درمیان صلح کرانے کی خاطر اور میاں بیوی کا ایک دوسرے سے خفگی یا لڑائی،یہاں لڑائی کے معنی جنگ کے ہیں اس کے علاوہ کوئی مسلمان کسی بھی موقع پر جھوٹ نہیں بول سکتا۔ تاریخی حقائق سامنے رکھیے تو یہ بات ثابت ہے کہ (اپریل فول)کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔یہ تہوار تو کافروں کا ہے اب تو غیر مسلم بھی ان تہواروں کو منانا غلط سمجھتے ہیں ہماے دین اسلام نے تو جھوٹ بولنے سے (چاہے وہ وہنسی و مزاح کیوں نہ ہو)سختی سے منع فرمایا ہے لیکن نجانے ہم غیر مسلم تہوار منانے میں کیوں خوشی اور فخر محسوس کرتے اور باقاعدگی سے مناتے ہیں۔ سمندر میں چھوٹی چھوٹی لہروں سے ہی موجیں جنم لیتی ہیں پھر سمندر میں طوفان آ جاتا ہے۔اسی طرح معاشرے میں پہلے چھوٹی چھوٹی اخلاق سوز غلطیاں ہی معاشرے کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوتیں ہیں۔ عہد کرنا ہو گا ہمیں اُن تمام تہواروں جو صرف اور صرف فضول خرچی بے حیائی پر مشتمل ہیں اُن سے ہمیشہ کے لیے لاتعلقی اختیار کرنا ہوں گی تاکہ ہم روز قیامت اﷲ کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل بن جائیں۔اپریل فول منانے سے پہلے سوچئے گا ضرور ناصر کی ماں کو ایک جھوٹ نے مارا تھا،رضوان کے قاتل اس کے دوست تھے۔

Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 54934 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More