جنگوں میں زخمی وبیمار مقاتلین

حسن اتفاق سے اﷲ تعالی نے مجھے دنیا میں موجود تمام ادیان سماویہ اور دیگر غیر الہامی نظامہائے حکومت پر کام کرنے کے مواقع نصیب فرمائے ، اس حوالے سے ہمارے یہ مذکورہ محاضرات ولیکچر ز 500 کے قریب صفحات میں ایک وقیع کتاب :’’مکالمہ بین المذاہب ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکے ہیں ، لہذا مجھے کہنے دیجئے ،کہ صرف اسلام ہی کیا، مذہب کوئی بھی ہو، بنیادی طور پر وہ خون خرابہ ، قتل وقتال ، اور لڑائی جھگڑا کا مخالف ہوتاہے ، کیونکہ مذہب کا مقصد دراصل تہذیب اخلاق اور تربیت انسانیت ہے، ایک پر امن ، خوشگوار ،محبت وآشتی سے لبریز سوسائٹی فراہم کرنا اس کے اولین اور اہم ترین اہداف میں سے ہے ، ظاہر سی بات ہے جنگ اور لڑائی اس مقصد کے بالکل متضاد اور متناقض ہیں، اسی لئے بشمول اسلام تمام ادیان الہامیہ اور وضعیہ میں سے کسی نے بھی کبھی جہاد وقتال کو اپنے اساسی اور بنیادی ارکان میں سے نہیں شمار کیا، چنانچہ اسلام کے ارکان خمسہ : توحید ، صلاۃ ، زکاۃ، صیام ، اورحج ہیں ۔تعلیم ،تبلیغ اور نصیحت جناب رسالتمآب ﷺ کی رحمۃ للعالمینیت کی وجہ سے سب کی بھلائی کے پیش نظر بطور فرض کفایہ ایک حد تک لازم ہیں ، نہ کہ ہر کس پر ہرحال میں ۔چنانچہ سیرت نبوی ﷺ کا مکی دور اس پر شاہدِ عدل ہے،لیکن ۔۔۔ انسانیت کی بھلائی ،خیر سگالی اور ترقی وتہذیب کے مقابلے میں جب اوچھے ہتھکنڈے عروج پر پہنچ گئے، تو اب ان نازیبا ونامناسب حرکتوں ،سازشوں اور تحریکوں کا سدّ باب کر نے اورانہیں قلع قمع کرنے کے لئے مختلف آپریشن کے انتظامات جہادوقتال کے عنوان تلے کرنے پڑے،بالکل ایساہی جیسے چمنستان کے پھولوں کو خس وخاشاک یا خار وتارجب متاثر کریں ،ان کی بڑوتری اور پروان چڑھنے کے بجائے خود ان پھولوں کے مرجھاجانے کا اندیشہ ہو،تو ایسے میں پھر مالی جو کچھ قینچی چلاکر کرتاہے، وہ سب رحمۃ للعالمینﷺ کو کرناپڑا۔

آج میں اس پلیٹ فارم کے توسط سے اقوام عالم کو اپنی یہ آواز پہنچانا چاہتاہوں کہ اسلام میں اسی نقطۂ نظر کو ملحوظ رکھکر اقدامی اور دفاعی جہاد دونوں ہیں ،دفاعی جہاد پر تو اعتراض کوئی غائب الدماغ اور احمق ہی کرسکتاہے ، البتہ اقدامی جہاد پر اعتراض انجانے میں اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی کردیتے ہیں ۔
بات دراصل یہ ہے کہ اسلام میں دفاعی جہاد اور اقدامی جہاد کا تصور اس کے اسباب وعوامل اور موجبات ومحرکات کی وجہ سے ہے ، اقدامی جہاد کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ زمینی یا تاریخی حقیقت ہے کہ جہاں کہیں کفر یا کافر،نفاق یا منافق ہیں ،انہیں تہ تیغ کیاجائے ،کیا ہمارے درمیان ذمی نہیں رہتے ،کیا ہمارے چاروں طرف ہمیشہ غیر مشرف باسلام انسانوں کی مختلف سوسائٹیاں اور ممالک نہیں ہیں ، کیا ہمیں قرآن کریم نے ’’لااکراہ فی الدین ‘‘ کا ایک عظیم الشان کلیہ نہیں بتلایا،کیا عہد،نبویﷺمیں مدینے میں منافقرہائش پذیر نہیں تھے، کیا مستشرقین،مؤرخین اور دیگر معلومات تک دسترس اور رسائی رکھنے والے لوگ اور ادارے ان حقائق سے بخوبی واقف نہیں ہیں ، سب کو پتہ ہے،مگر کافرانہ عناد ،منافقانہ حسد ، ہٹ دھرمی ، کبروغرور ، دنیاوی ادنی سے ادنی مفادات نے انہیں سچ کہنے سے روکے رکھاہے ، اسلام نے جس اقدامی جہاد کا نظریہ دیاتھا ، وہی نظریہ آج دنیا میں مہذب کہلانے والی قوموں نے ’’گرم تعاقب ‘‘کے عنوان تلے اپنایاہواہے ، یعنی جہاں کہیں ان کے ملکوں،سیاسی یا جمہوری نظریات اور ان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے تانے بانے بُنے جاتے ہوں ، اس طرح کے نیٹ ور کزپر قبل از اقدام وقبل از وقت حملہ کیاجائے ،اور ان کے سازشی ،تخریبی ، اور دہشت گر دانہ نظم کو توڑا اور تہس نہس کیاجائے، اسلام نے بھی یہی کیاتھااور کررہاہے ۔

اس تمام تر سمع خراشی وبصر خراشی سے اندازہ لگایا جاسکتاہے ،کہ اسلام کاہر دوطرح جہاد وقتال خواہ دفاعی ہو یا اقدامی وہ حقیقت میں انسانیت کے دشمن قول وعمل اور فکر ونظر کا تعاقب اور ردعمل ہوتاہے ، اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ ردعمل اور تعاقب کسی لانگ ٹرم اسٹرٹیجی کا حصہ نہیں ہوتے ہیں، بلکہ ایک تکتیک اور ضرورت ہوتی ہے ، ’’جومحظورات کو بھی مباح کردیتی ہے‘‘، پھر یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ ضرورتیں ہمیشہ کے لئے بقدر ضرورت ہی ہوتی ہیں ،شیطانی حربے بقائے انسانیت کے ساتھ باقی رہینگے لہذا بطورِ ضرورت جہاد وقتال کا یہ سلسلہ بھی تا دمِ آخر باقی رہیگا ۔

اب جب یہ ثابت ہوچکا کہ اسلام چونکہ بنیادی طور پر ضرب وحرب کا طلب کنندہ مذہب نہیں ہے، اسلئے جنگوں میں اسلام نے موجودہ بین لاقوامی انسانی قوانین کی تدوین وترتیب سے سینکڑوں سال قبل کچھ اخلاقیات اور ضوابط کا تعین کردیاہے ،تاکہ بے محاباانسانیت اورکائنات کا نقصان نہ ہو ، نیز یہ کہ بلاضرورت شدیدہ سفک دماء اور قتل وگردن زدنی سے بچاجاسکے ۔۔۔۔۔چنانچہ اسلام نے زخمی ، معذور ،مزدور ،مریض ، ہتھیار ڈالنے والے ،قیدی، عابد ،مذہبی پیشوا ،بوڑھے ، بچے ، خواتین ، معالجین واطباء ،کھانے پکانے والے، خدام ،بھاگنے والے ،امان طلب کرنے والے ،عام شہری ، باغات ،درخت اورمفاد عامہ کے وسائل کو تلف وہلاک کرنے پر پابندی لگائی ہے نیزاپنے پیروکاروں کو سختی سے اس پر کاربندرہنے کی تلقین کی ہے ،گویا اسلامی نقطۂ نظر سے جنگ میں صرف اورصرف’’ مقاتل من حیث انہ مقاتل‘‘ ہی ہدف ہے اور بس ۔۔۔۔ بلکہ مذکورہ بالا متأثر ہ افراد وممتلکات کو بروقت تحفظ فراہم کرنے کے لئے اسلام ہی نے جنگ میں ’’وقفے ‘‘ کا تصوربھی دیاہے ۔مزیدیہ کہ اسلام نے مثلہ کرنے ، نعشوں کی توہین کرنے اور انہیں بے گور وکفن چھوڑنے سے بھی منع کیاہے۔ نیزاسلام نے جنگی چالوں ،حکمت عملی اور تکنیک کی تو اجازت دی ہے، مگر جنگ میں دھوکہ دہی اور غدر کو سختی سے ناجائز وممنوع قرار دیاہے ، صرف یہ نہیں مذکورہ اخلاقیات کی اگر کہیں تنفیذ میں کوتاہی کی گئی ہے ،تو اسلامی تاریخ اوراسلامی فقہ کے مراجع وامہات الکتب کے مطالعے سے معلوم کیاجاسکتاہے ،کہ ان کوتاہیوں کے مرتکب افراد ومجموعات کے لئے بروقت سزاؤں کی تعیین بھی کی گئی ہیں اوروہ سزائیں نافذبھی کی گئی ہیں ۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے ، توحقیقی معنوں میں زخمی اور بیمار مقاتل چونکہ خود بخود مقاتل کی صفت سے محروم ہوجاتاہے ،اب چونکہ اس میں قتال کی سکت باقی نہیں رہتی ،اس لئے اسلام کی نظرِعدل وانصاف اورترحم میں وہ ان تمام حقوق کا مستحق ہوجاتاہے ،جن کا غیر مقاتلین شرکائے میدانِ قتال استحقاق رکھتے ہیں ،لہذا یہ دونوں قسم کے سابق مقاتلین اور حالاًغیر مقاتلین اُن تمام رعایتوں اور آسائشوں کے مالک بن جاتے ہیں ،جن کے متعلقہ علاقے سے وابستہ عام غیرمقاتلین شہری مستحق قرار پاتے ہیں،بشرطیکہ یہ زخمی اوربیمارگرم جنگ سے لا تعلق ہوجائیں۔اسی دعوی پر اب ہم تاکید المؤکد کے طور پرچند اقتباسات کچھ تغییر ات واضافات کے ساتھ یہاں نقل کرنا چاہینگے : ’’القانون الانسانی الدولی‘‘ کے شہرۂ آفاق ماہر ڈاکٹر عامر الزمالی رقمطرازہے:
’’قانون انسانیت پر بحث اس کی اصل یعنی ’انسانیت‘ کا جائزہ لئے بغیر نہیں کی جاسکتی ۔ جنگ انسانی افعال کا نتیجہ ہوتی ہے او رکسی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ انسانیت کو نظر انداز کردے ۔ بین الاقوامی قوانین ،چاہے رواجی ہوں یا تحریری شکل میں مدون شدہ ،اپنے احکام کے ذریعے اسی حقیقت کو ظاہرکرتے ہیں ۔ یہ قوانین لازم ٹھہراتے ہیں کہ جنگ کے متاثرین کے ساتھ انسانیت کا معاملہ کیاجائے ،یعنی ان کی آبرو ،جان اور مال کا احترام مدنظررکھا جائے ۔ اسلام نے بھی انسان کی تکریم کا بنیادی قاعدہ دیاہے ۔ اسلامی قانون کا یہ بنیادی قاعدہ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے ماخوذہے :
﴿وقاتلوا فی سبیل اﷲ الذین یقاتلونکم ولاتعتدوا ، ان اﷲ لایحب المعتدین ﴾۔(البقرۃ ،آیت ۱۹۰)۔
اس آیت نے قتال کا عمل مقاتلین تک محدود کردیاہے اور اعتداء سے نفی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جنگ میں بھی کچھ خاص حدود کی پابندی لازم ہو ۔

ہم جانتے ہیں کہ بین الاقوامی قانونِ انسانیت کے معاہدات نے ان مخصوص انسانی گروہوں کے لئے مخصوص احکام وضع کیے ہیں ،مگر ان تمام معاہدات کا بنیادی ہدف ایک ہے ،اور وہ ہے ’’انسانیت ‘‘پر مبنی سلوک ۔

تاریخ اسلام پر نظرڈالیں تو نظرآتاہے کہ اسلامی افواج میں طبی امداد دینے والے اور علماء و قضاۃ شامل رہے ہیں اور پوری کوشش کی جاتی تھی کہ وہ اپنے اپنے فرائض منصبی سہولت کے ساتھ ادا کریں ، تاریخ اسلام کے اولین معرکوں میں خواتین نے مریضوں اور زخمیوں کی تیمارداری کا کام بھی کیاہے ۔ڈاکٹر زمالی نے آگے چل کر ایک اور کلیہ بھی بیان کیا،لیجئے وہ لکھتے ہیں:
انسانی قوانین کے جدید ترین معاہدات میں سے ہم بین الاقوامی انسانیت کے جنیوا معاہدات ۱۹۴۹؁ء کے پہلے اضافی ملحق کا ذکر کریں گے جو ۱۹۷۷؁ ء میں وضع کیاگیا۔ اس ملحق کی دفعہ ۴۸ میں ا س قاعدے کا ذکر ان الفاظ میں ہے : ’’ جنگ کے فریق ،عام شہریوں ، مقاتلین ، شہری آبادی اور جنگی اہداف میں تمیز کریں گے اور صرف جنگی اہداف کے خلاف اقدام کریں گے ۔‘‘
بین الاقوامی عرف پر مبنی یہ قاعدہ جدیدجنگی قوانین اور اعراف کی بنیاد ہے ،اور اس کا ان واضح اور دوٹوک الفاظ میں معاہدے میں اندراج اس بات کو مزید مؤکد کرتاہے کہ ہر طرح کے جنگی حالات میں اس قاعدے کی پابندی ضروری ہے ،ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ’’غیر مقاتلین ‘‘ کی اصطلاح ’’شہری ‘‘سے زیادہ وسیع ہے کیونکہ غیر مقاتلین مسلح افواج کے اندر بھی پا ئے جاتے ہیں ، مثلا طبی خدمات مہیا کرنے والے
او رمذہبی رسوم ادا کرنے والے افراد،زخمی اور بیمارمقاتلین بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ۔

مقاتلین اور غیر مقاتلین او رجنگی اہداف اور شہری آبادی کے درمیان تمیز کے قاعدے کے تحت یہ ناجائزہے کہ عام شہریوں ،لڑنے کی قدرت کھو دینے والے افراد جیسے زخمیوں ، مریضوں ، ڈوبتے ہوؤں ، قیدیوں اور جنگی ہوائی جہاز کھودینے کے بعد پیراشوٹ میں اترتے پائلٹ ، کونشانہ بنایاجائے، طبی خدمات یا مذہبی رسوم اداکرنے والے افراد ، خواہ وہ فوجی ہوں یا شہری ، نیز شہری دفاع کے عملے اور امداد فراہم کرنے والی بین الاقوامی فلاحی تنظیموں ، یا اس کام کے لئے اجازت رکھنے والی مقامی تنظیموں کو بھی یہی تحفظ حاصل ہے ۔اسی طرح بین الاقوامی قانون انسانیت تمام فریقوں پر یہ لازم کرتاہے کہ وہ کسی ایسی چیز کو نقصان نہ پہنچائیں، جسے جنگی ہدف قرار نہ دیاجاسکتاہو ، ان میں پُل،شاہراہیں،ڈیم ، بند ، بجلی پیداکرنے والا جوہری پلانٹ ، انسانی زندگی کی بقاکے لئے ضروری سامان، محفوظ ، اور غیر عسکری علاقے ،وہ علاقے جن کو فوجی حفاظت میسر نہ ہو اور ثقافتی مراکز ، یہ سب شامل ہیں ،بین الاقوامی قانون انسانیت کی طرف سے دی گئی یہ حفاظت ان افراد او رسامان کو اس وقت تک شامل رہتی ہے، جب تک قانوناً محفوظ کوئی شخص کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہیں لیتا،یا پھر قانوناً محفوظ کسی مقام کو جنگی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا۔ بین الاقوامی قانونِ انسانیت ان قانوناً محفوظ افراد کے خلاف انتقامی کاروائی کرنے سے بھی روکتاہے اور اسی قسم کے افعال سے کچھ خاص زمروں میں آنے والی املاک اور اشیاء کو بھی نقصان پہنچانے کی ممانعت کرتاہے ، اسی طرح اگر کسی فرد یا جگہ کے بارے میں شبہ ہو او رقرائن سے ان کا غیر عسکری ہونا معلوم ہوتاہو، تو قانوناًاس کو غیر عسکری ہی سمجھاجائے گا ، بین الاقوامی قانونِ انسانیت جنگ کے تمام فریقوں پر لازم کرتاہے کہ وہ اندھا دھند حملوں سے گریز کریں اور اپنے اہداف کے بارے میں یہ معلوم کرلیاکریں کہ وہ کس نوعیت کے ہیں ؟

اوپر مذکورہ بنیادی یہی فرق اسلامی شریعت کے اساسی قواعد میں سے ہے ۔ اسلامی شریعت کلی جنگ (totel wer )کو روا نہیں رکھتی ، اور جنگی کاروائی کو وقت ، جگہ اور ہدف کے لحاظ سے محدود رکھتی ہے ، عام احکام بیان کرنے والی قرآنی آیات کے علاوہ خاص (جنگی ) احوال سے متعلق قرآنی آیات ،احادیث نبوی ﷺ ،خلفاء راشدین رضی اﷲ عنہم اور اسلامی لشکروں کے کمانڈروں کے فرامین کو بنیاد بناکر فقہاء کرام نے مقاتلین اور غیر مقاتلین کی تحدید کے لئے قواعد مرتب کئے ، احادیث نبوی ﷺ کے ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے کچھ معین لوگوں پر حملے سے منع فرمایا ، جیسے عورتیں ، بچے ،مزدور اور خانقاہوں میں رہنے والے ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے ۱۰ھ ۶۳۲ ء میں مسلمان افواج سے اپنے پہلے خطاب میں جنگ سے متعلق احکام کی یہ بنیادیں فراہم کیں :
’’اے لوگوں ! ٹھہرو ! میں تمہیں دس چیزوں کی وصیت کرتاہوں ۔ ان کی پابندی کرنا :خیانت مت کرو ۔ مال غنیمت میں سے چوری نہ کرو۔ عہد شکنی مت کرو ۔ مثلہ مت کرو۔ بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو مت مارو۔ کھجور کے درخت نہ کاٹو۔ نہ ہی انھیں جلاؤ۔ پھل دینے والے درخت مت کاٹو۔ بکری ، گائے اور اونٹ ذبح نہ کرو، الا یہ کہ کھانے کی ضرورت ہو ،تم راستے میں ایسے لوگوں کو دیکھو گے جنھوں نے دنیا چھوڑ کر خانقاہوں میں پناہ لے رکھی ہے ـ؛ ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑدو ۔ تم ایسی قوم سے ملوگے جو تمھارے پاس اپنے برتنوں میں مختلف انواع کے کھانے لائیں گے ؛ پس جب اس میں سے کھاؤ،تو اس پر اﷲ کا نام ضرور لینا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اگر عسکری ہدف حاصل ہوجائے اور دشمن مغلوب ہوجائے تو پھر جنگی کا روائی کو مزید جاری نہیں رکھا جاسکتا۔
(بین الاقوامی قانون انسانیت اور اسلام ۔ص:۲۱۷سے ۲۲۱تک)
اس قانون کے ایک اور ماہر احسان ہندی لکھتے ہیں:
اسلام باقی مذاہب سے اس طور پر مختلف ہے کہ یہ صرف مذہب ہی نہیں بلکہ قانون بھی ہے اور یہ قانون کامل ہے جو زندگی کے تمام پہلو ؤں کا ، جن میں زمانۂ امن وجنگ میں دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہیں ،کا احاطہ کرتاہے۔

ہم جانتے ہیں کہ اسلامی قانون کے تین بنیادی مصادر ہیں : قرآن ،کریم ، سنت مطہرہ اور اجتہاد ۔ یہی تین مصادر اسلام میں قانون ِجنگ کے لئے بھی ہیں، جنھوں نے اس قانون کی تشکیل وار تقا میں ،جسے اب بین الاقوامی قانون ِ انسانیت کہا جاتاہے ،اہم کردار ادا کیا ہے ۔مثلاً دوسری اقوام کے افراد کے ساتھ زمانۂ امن وجنگ میں رویے اور طرز عمل کے متعلق قرآن کریم میں بہت سے قواعد مذکور ہیں جنھیں گویا ’’دستور ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے ۔ پھر قرآن کریم میں مذکورہ اس دستور کی تفسیر اور تکمیل حدیث شریف نے کی اور یہ گویا ’’قانونی قواعد‘‘ ہوئے ۔ اس کے بعد فقہی اجتہاد، جس میں خلفائے راشدین کی ہدایات بھی شامل ہیں ، نے اس قانونی نظام کی تشکیل کی جسے ’’عرب مسلمانوں کے جنگی ادب ‘‘ کا نام دیاجاسکتاہے ۔ اسلامی بین الاقوامی قانونِ انسانیت کوہم چارحصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں : ۱ - وہ حالات جن میں اسلام جنگ کی اجازت دیتاہے ۔۲- اسلام میں اعلان جنگ کا طریقہ ۔۳-جنگ میں مسلمان مجاہدین کا کردار ۔۴- اسلام میں قیدیوں کے ساتھ سلوک او رغنائم کے احکام ۔

قدرتی طورپر یہ ناممکن ہے کہ ہم یہاں ان تمام چارحصوں کا پورا حق ادا کرسکیں ،اس لیے ہم یہاں صرف تیسرے حصے کا خلاصہ ہی پیش کرتے ہیں،وہ یہ کہ مسلمان مجاہدین دوسری اقوام کے افراد کے خلاف جنگ میں جن قواعد کی پابندی کرتے تھے ،ان کی حیثیت محض عام اخلاقی اصولوں یا ان کے کمانڈر اور حکمرانوں کی ہدایات کی سی نہیں تھی ،بلکہ وہ ایسی شرعی ذمہ داریاں تھیں جن میں اکثر کا قرآن وسنت میں صراحتاًذکر ہے او رجن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو صرف ان کے کمانڈروں کی جانب سے ہی سزا نہیں ملتی تھی ،بلکہ وہ اخروی زندگی میں بھی اس کے عقاب سے خائف رہتے تھے۔

قانون جنیوا‘‘ مسلح تصادم کے متاثرین ، یعنی قیدیوں ،زخمیوں اور مقتولین ،کے حقوق مقرر کرنے کے علاوہ مقاتلین اور غیر مقاتلین کے درمیان تمیز کو لازم قرار دیتے ہوئے لازم کرتا ہیں کہ طاقت کا استعمال صرف مقاتلین تک ہی محدودہو۔ یہ قواعد ۱۹۲۹؁ء او ر ۱۹۴۹؁ء کے جنیوا معاہدات میں پائے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد ۱۹۴۹؁ء کے چار جنیوا معاہدات کے اضافی ملحقات آئے ،جنھوں نے ان دونوں قسم کے قواعد کو یکجا کیا اور متاثرین جنگ کی حفاظت کے قاعدے میں توسیع کے علاوہ طاقت کے استعمال کو مزید قیود کا پابند کردیا۔؂ اگر ہم ان قواعد کی بات کررہے ہیں، جن کی تدوین بین الاقوامی برادری نے انیسویں صدی کے اواخر اوربیسویں صدی میں کی ، تو دوسری طرف اسلامی شریعت نے نزول قرآن کی ابتدأسے ہی، اور پھر رسول کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے عملی نمونوں اور فقہائے کرام کے اجتہاد او ر اسلامی قانون کے قواعد عامہ کی تدوین کی شکل میں ، مسلح تصادم کے متاثر ین کی حفاظت کے لئے تفصیلی احکام بہت پہلے وضع کئے۔ہم بیان کرچکے ہیں کہ جنگ کی اجازت اسلام میں محض ایک ناگزیر ضرورت کے طورپر ہے اور یہ کہ یہ جنگ صرف عُدوان کے خاتمے کے لئے ہے ، پس ضروری ہے کہ طاقت کے استعمال کاجواز اس قید کے ساتھ مشروط ہو کہ وہ صرف اپنے ہدف تک ہی محدود رہے اوراس سے تجاوز نہ کرے ۔ اس تمام تر گفتگو سے مسلح تصادم اور خلفشار میں طبی خدمات وسہولیات اورہر قسم کے غیر مقاتل افراد و اداروں کے حقوق اور ان کے لئے موجودرعایتوں کااندازہ بڑی آسانی سے لگایاجاسکتا ہے۔

نوٹ:یہ مقالہicrcاورicrhکے تحت دو روزہ بین الاقوامی انسانی قانون کے حوالے سے گذشتہ دنوں منعقدہ سیمینار’’بیسٹ ویسٹرن‘‘ہوٹل ،اسلام آباد میں پڑھاگیا اس سیشن کی صدارت مفتی محمد رفیع عثمانی کررہے تھے۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877963 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More