(اس دوسری قسط میں ہم ان شاء اﷲ تعالیٰ ’’عربی بطورزبان‘‘
اور ’’عربی بطور ادب‘‘ کے متعلق مستقل گفتگو کریں گے، جس میں ہم دونوں کے
طرق اکتساب،حصول و تحصیل اور تعلیم و تعلم کے اسالیب اور مروّجہ تجارب پر
تفصیلی بحث پیش کریں گے)۔
عربی زبان و ادب کی اہمیت، منفعت اور افادیت صرف اہل علم اور عام مسلمان ہی
کے لیے نہیں بلکہ عام انسان کے لیے بھی واضح ہے، اس لیے کہ عربی زبان بطور
’’زبان‘‘ کے پوری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، عرب لیگ میں شامل خود
عربوں کے ۲۲ممالک کے علاوہ عالم اسلام کے اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی عربی زبان
بقدر کفایت جانتے ہیں۔ نیز عرب دنیا کے اپنے ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ دنیا
کے بیشتر ممالک میں عربی زبان میں ابلاغیات کا باقاعدہ اہتمام ہے۔
جبکہ عربی زبان بطور ادب و ثقافت کے توشاید کائنات کے تمام زبانوں سے کہیں
زیادہ ادبی ذخیرہ سے مالا مال ہے اور کیوں نہ ہو، اس کو تمام انبیاء ورسل
کی زبان ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس کو تمام کتب سماویہ بشمول قرآن کریم کے
ظرف ہونے کا افتخار واعتزاز حاصل ہے۔ سابق مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا
مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرماتے ہیں:
’’روایات اس پر متفق ہیں کہ ابوالبشرحضرت سیدناآدم علیہ السلام کو سب سے
پہلے جو زبان جنت میں بصورت ’’تعلیم اسماء‘‘ سکھائی گئی تھی، وہ عربی تھی،
اور اسی زبان کو وہ دنیا میں بولتے تھے، انسان سے پہلے اس دنیا میں جنات کے
درمیان کوئی دوسری زبان ضرور رائج ہوگی، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ انسان کی
سب سے پہلی زبان عربی ہے، ظاہر روایات سے فرشتوں کی زبان کا بھی عربی ہونا
معلوم ہوتا ہے۔
امام جلال الدین سیوطی نے ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ
انبیاء سابقین پر جتنی کتابیں نازل ہوئی تھیں وہ سب عربی میں تھیں، ان
انبیاء کرام علیھم السلام نے ان کتابوں کا ترجمہ اپنی اپنی قوموں کی زبانوں
میں کردیا تھا، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ تو فرمایا گیا ہے کہ ہر نبی
کو قوم کا ہم زبان بھیجا گیا ہے۔ ’’وماأرسلنا من رسول الا بلسان قومہ‘‘
لیکن یہ نہیں فرمایا کہ وہ آسمانی کتابیں بھی اسی قوم کی زبان میں تھیں، اس
قسم کی روایات سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ جس طرح ہر حکومت کی اپنی
دفتری زبان ہوتی ہے اور اسی میں فرامین جاری ہوتے ہیں، اسی طرح حکومت الھیہ
کی دفتری اور سرکاری زبان عربی ہے، انسان کو سب سے پہلے جنت میں یہی زبان
سکھلائی گئی ، دنیا میں سب سے پہلے انسان نے اسی زبان کو استعمال کیا اور
عالم آخرت ، برزخ، محشر اور جنت کی زبان بھی یہی عربی ہوگی، اسی عربی زبان
میں تمام آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں۔عربی زبان کی فصاحت و بلاغت اور اس
کی وسعت و سہولت پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس زبان کا
انتخاب ہی اسی لیے فرمایا تھا کہ وہ کُل دنیا کی زبانوں کے مقابلے میں ہر
حیثیت سے بہتر اور افضل ہے………… اﷲ جل شانہ نے عربی زبان کو انسان کے دنیا
میں آنے سے پہلے بلکہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے پیدا فرمایا تھا دوسری
زبانیں طوفانِ نوح علیہ السلام کے بعد دنیا میں رائج ہوئی تھیں، اﷲ تعالیٰ
کے کلام قرآن مجید کا عربی زبان میں ہونا اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے کہ
عربی زبان ہی سب سے پہلے پیدا کی گئی تھی……‘‘ (مقدمہ المعجم: ص؍۱۳۔۱۴۔۱۵)
قرآن وحدیث اور اس کے متعلقہ دیگر علوم و فنون کی عربیت کے علاوہ بہت سے
دنیوی علوم و فنون کے اصل مصادر و مراجع کابڑا حصہ عربی زبان ہی میں ہیں۔
مثلاً علم ہند سۃ، جغرافیا، قرض الشعر، فلکیات، تاریخ وغیرہ وغیرہ۔
پھر معاصر دنیا میں سمعی ومرئی و قلمی میڈیا نے عربی زبان کے زمانہ ٔ قدیم
کی اصطلاحات ، محاورات ، ضرب الامثال اور لغات و مفردات کو ازسرِنو زندہ
وجاویدکردیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب دنیا کی سوقی عربی اور اہل علم
و فضل کی عربی میں خاصا فرق ہے، مگر مجلات و جرائد ، صحائف واخبارات، مواعظ
وخطبات درس و تدریس، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں فصیح عربی ہی بولی اور سمجھی
جاتی ہے، چنانچہ جب بھی آپ کسی سوقی عربی سے بات کرتے ہوئے اس کو ’’عامیہ‘‘
سے فصحٰی پہ لانا چاہیں، تو ان سے کہہ دیں ’’یا شیخ تکلم بالفصحی‘‘ تو وہ
فوراً فصیح لغت پر آجائے گا۔ حتی کہ دنیا کے تمام براعظموں کی مشہور ومعروف
جامعات، کلیات اور دانش گاہوں میں عربی زبان کے شعبے اور ڈپارٹمنٹ اسی مقصد
کے لیے چلائے جارہے ہیں تاکہ انسانیت اپنی اس عظیم عربی ورثے کے توسط سے
باہمی ارتباط قائم رکھ سکے۔ دنیا کی بین الاقوامی تسلیم شدہ زبانوں (عربی ،
انگریزی، روسی، چینی، فرانسیسی) میں سب سے زیادہ افرادی قوت بھی عربی زبان
کو حاصل ہے۔ مسلمانوں کی عظیم الشان علمی، سیاسی اور تمدنی تاریخ کی وجہ سے
دنیا کی ان چار بڑی زبانوں نے بھی عربی زبان سے کافی استفادہ کیا ہے، صرف
انگریزی زبان میں دس ہزار عربی الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
عربی زبان کی وسعت کا اندازہ آپ اس سے لگائیے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اﷲ
علیہ جو فقہ، حدیث و تفسیر کے ساتھ عربی ادب و شاعری کے بھی امام تھے
،فرماتے ہیں:’’ عربی وسیع ترین زبان ہے، اس کے تمام لغات کا احاطہ نبی کے
سوا کسی عام انسان کے بس کام کام نہیں ہے‘‘نیز علامہ سیوطی نے عربی زبان کی
تعلیم و تعلم کو فرض قرار دیا ہے‘‘ (حوالہ سابقہ)۔
مسلم وغیرمسلم کی تفریق کے بغیر ایک عام آدمی کے لیے ہی عربی کی یہ اہمیت
افادیت اور منفعت بیان کی گئی۔ اہل اسلام کے لیے عربی زبان کس قدر ضروری ہے
اس کے لیے محدث العصر حضرت علامہ مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اﷲ علیہ کا
قدرے طویل اقتباس پیش خدمت ہے:
’’اسلام اور عربی زبان کا جو باہمی محکم رشتہ ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ اسلام
کا قانون عربی زبان میں ہے۔ اسلام کا آسمانی صحیفہ۔ قرآن حکیم۔ عربی زبان
میں ہے۔ اسلام کے پیغمبر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم کی زبان عربی ہے۔ حضرت رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تمام
تر تعلیمات، ہدایات اور ارشادات کا پورا ذخیرہ عربی زبان میں ہے۔
اسلام کی اہم ترین عبادت صلوۃ (نماز) جس کو روئے زمین کے تمام مسلمان اپنے
اپنے ملکوں میں روزانہ پانچ وقت پڑھتے ہیں وہ عربی زبان میں ہے۔ یہ نماز ہی
توحید اسلام کا اعلیٰ ترین مظہر اور دین اسلام کی بنیادی عبادت ہے۔ پھر
ہفتہ واری اسلام کا پیغام۔ جمعہ کا خطبہ۔ عربی زبان میں ہے۔ سال میں دو
مرتبہ عمومی و اجتماعی پیغام۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی کا خطبہ۔ تمام دنیا
میں عربی زبان میں پڑھا جاتا ہے۔
حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے امت کی رہنمائی کے لیے
جو عجیب و غریب اذکار ودعائیں صبح سے شام تک ہر محل اور ہر موقع اور ہر کام
کے لیے تلقین فرمائی ہیں، عبدومعبود کے درمیان تعلق و رابطہ پیدا کرنے یا
اس رشتہ کو مضبوط کرنے کے لیے جن سے زیادہ موثر اور کوئی تدبیر نہیں ہے وہ
سب عربی میں ہیں۔بارگاہ قدس رب العالمین اور تجلیات الہیہ کا سرچشمہ جس
سرزمین میں واقع ہے مکہ مکرمہ زادہا اﷲ تعالیٰ شرفا وتعظیما وتکریما
ومہابۃً ۔وہ عرب ہے اور وہاں کے باشندوں کی زبان عربی ہے۔
سیدالکونین رسول الثقلین حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی
اقامت گاہ اور دارالہجرت جس سرزمین مقدس میں واقع ہے۔ مدینہ منورہ زادہا اﷲ
تعالیٰ نورا وطیبا ً۔وہ عرب ہے اور اس کے بسنے والوں کی زبان بھی عربی ہے۔
مکہ معظمہ جس طرح عدنانی عرب کا مرکز تھااسی طرح ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ
قحطانی عرب کا مرکز بن گیا اور ان دونوں مرکزوں کی زبان اور تہذیب عہد قدیم
سے آج تک عربی ہے۔ دونوں قوموں عدنانی اور قحطانی عربوں کا سرمایہ تاریخ و
ادب عربی زبان میں ہے۔ قرآن کریم اور اسلام کے پہلے مخاطب جزیرۃ العرب میں
بسنے والی پوری آبادی عرب ہے۔ جزیرۃ العرب سے باہر اسلام کے دو اہم ترین
مرکز عراق و شام ہیں۔ دونوں ملک عربی زبان اور تہذیب کا گہوارہ تھے اور
ہیں۔
مصر، لیبیا، سوڈان، مغربی افریقہ، الجزائر، تیونس اور مراکش وغیرہ سب عربی
بولنے والوں کے مرکزی مقامات ہیں اور شمالی افریقہ کی اکثریت کی زبان بھی
عربی یا بگڑی ہوئی عربی ہے۔ صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام کے زمرہ میں شامل
عرب فاتحین جو اسلامی فتوحات کے سلسلہ میں سندھ و ہند، افغانستان و بخارا
سے لے کر اسپین تک نہ صرف پھیل گئے بلکہ ان ملکوں میں بس بھی گئے تھے ان کے
ذریعہ ان ملکوں میں بھی عربی زبان پہنچ گئی تھی چونکہ ان ملکوں کے تمام
مسلمان قوموں کا دینی سرمایہ عربی زبان میں تھا اس لیے ان ملکوں کی بھی
دینی اور مذہبی زبان عربی بن گئی۔
چنانچہ نہ صرف یہ کہ ان ممالک اسلامیہ میں لائق فخر عربی داں پیدا ہوئے
بلکہ عجمی ممالک کے ان مراکز سے بھی عربی کے وہ مایہ ناز ماہرین وموجدین
علوم و فنون پیدا ہوئے جن کی نظیر کا دنیا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ان ہی
عجمی علماء کی بدولت عربی علوم میں صرف و نحو، معانی بیان، بدیع، لغت عربی
،رسم الخط، علم الاشتقاق، عروض و قافیہ اور شعرو ادب اوردیگر اسلامی علوم
زندہ وتابندہ ہیں۔ تفسیر و اصول، تفسیر حدیث و اصول حدیث، فقہ و اصول فقہ،
عقائد و توحید، کلام اور آلیہ علوم۔ منطق، فلسفہ ہیئت ریاضی وغیرہ علوم کا
سارا ذخیرہ عربی زبان میں ڈھل گیا۔ اور نہ صرف یہ، بلکہ عربی زبان کے حقائق
فقہ و لغت کی باریکیاں اور حیرت انگیز لسانی خصوصیات عربی تلفظ کی صحت و
سہولت کے قواعد و ضوابط اور لسانی حسن و جمال کی نیرنگیاں وغیرہ وہ علمی
سرمائے ہیں کہ عربی کے علاوہ دنیا کی اور دوسری زبانوں میں ان کا پتہ تک
نہیں ہے۔
الغرض دینی علوم ہوں یا اسلامی تاریخ، وحی الہٰی کا منبع ہوں یا تعلیم و
تربیت نبویؐ کا سرچشمہ ،اتحاد اسلامی کا عظیم مقصد ہو یا بین المملکتی
سیاسی مفاد و مصالح ہر لحاظ سے اور ہر حیثیت سے عربی زبان کی اہمیت سے
انکار جنون کے مرادف ہے۔
عصرحاضر میں بھی صحرائے عرب میں جزیرۃ العرب کے اندر اور جزیرۃ العرب کے
باہر اﷲ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے جو زرسیّال، پیٹرول اور دوسرے معادن کے
ابلتے ہوئے چشمے نمودار ہوگئے ہیں انھوں نے ان بادیہ نشینوں اور خانہ
بدوشوں عرب اقوام کی عزت و مجد اور عظمت و ثروت کے اس اعلیٰ مقام پر
پہنچادیا ہے کہ آج روس و امریکہ فرانس و برطانیہ جیسے اعداء اسلام بھی اپنے
اقتصادی وسیاسی مفاد ومصالح کی خاطر ان بدویوں کی خوشامد پر اس کے لیے عربی
زبان سیکھنے اور بولنے پر مجبور ہوگئے ہیں اسی لیے تمام یورپین ممالک کے
لیے عربی زبان و ادب کی درسگاہیں کھولنا اور ان کو فروغ دینا ناگزیر ہوگیا
ہے(عراق کی موجودہ اور سابقہ جنگیں بھی اسی زرسیّال ہی کے لیے ہیں)۔
کویت کا صحرا آج وہ دولت و ثروت اُگل رہا ہے جس کی بدولت انگلستان کی باغ و
بہار قائم ہے۔ اگر آج کویت کی دولت انگلستان کے بینکوں سے نکال لی جائے تو
برطانیہ کا دیوالیہ نکل جائے۔ غرض جس طرح عہد ماضی میں روحانی ہدایت کے
سرچشمے صحرائے عرب سے پھوٹے آج بالکل اسی طرح مادی دولت و ثروت کے سرچشمے
بھی اسی سرزمین سے ابل رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ دین ہو یا دنیا روحانیت ہو یا
مادیت ہر جہت اور حیثیت سے عربی زبان دنیا کی تمام قوموں کے لیے اپنی
غیرمعمولی اہمیت کی بناء پر قابل توجہ بنی ہوئی ہے۔
عربی زبان سیکھنے کے لیے جہاں تک معمولی نوشت و خواند کا تعلق ہے صرف تین
چارماہ کاعرصہ کافی ہے۔ ہاں عربی زبان و ادب کی مہارت اور لسانی علوم و
فنون ، صرف ونحو، معانی بیان و بدیع اور قرآنی اعجاز کے حقائق تک پہنچنا تو
اس کے لیے بیشک عمریں درکار ہیں۔‘‘ (ماہنامہ بینات، محرم ۱۳۸۶ھ)
رہی بات اہل اسلام میں طبقہ ٔ علماء، مجتہدین، مفتیانِ کرام اور خواص کی،
سو اس حوالے سے محققین اہل سلف کے کچھ اقوال درج کیے جاتے ہیں تاکہ نتیجہ
اخذ کرنے میں کوئی صعوبت نہ رہے۔
- خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر الفاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’تعلّموا
العربیۃ فانھامن دینکم……‘‘(ایضاح الوقف والابتداء: ۱؍۱۵)
-حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ کو اپنے ایک مکتوب میں حضرت فاروق رضی اﷲ
عنہ نے فرمایا: ’’أمابعد، فتفقھوا فی السنۃ، وتفقھوا فی العربیۃ، وأعر بوا
القرآن فانہ عربي‘‘․ (اقتضاء الصراط المستقیم ۲۰۷)
-تفسیرقرطبی میں ہے کہ مدینہ منورہ کی مسجد نبویؐ شریف میں حضرت فاروق اعظم
رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے سورۂ
توبہ کی اس آیت ﴿إن اﷲ بریئی من المشرکین ورسولُہ﴾ کے آخر میں ’’ورسولُہ‘‘
کے بجائے ’’ورسولِہ‘‘ پڑھ دیا۔ جس کا معنی بالکل کچھ سے کچھ ہوگیا۔ معنی
تھا: ’’بے شک اﷲجل شانہ مشرکین سے الگ (بیزار) ہے اور اس کا رسولؐ بھی‘‘ اب
بکسر اللام پڑھنے کی صورت میں نعوذباﷲ تعالیٰ معنی ہوگا: ’’اﷲ جل شانہ
مشرکین سے اور اپنے رسولؐ سے بیزار ہیں‘‘ جو خطأً فحش غلطی ہے ہی، قصداً
کفر تک لے جانے کا باعث بھی ہے۔ مختصراً یہ کہ اس پر حضرت فاروق اعظم رضی
اﷲ عنہ نے اپنا مشہور قولِ فیصل فرمان جاری فرمایا کہ ’’لایُقریٔ القرآن
إلاعالم باللغۃ‘‘(مقدمہ ٔ تفسیر قرطبی ص۲۰) کہ قرآن کریم پڑھانے والا لغت
عربی کے قواعد وضوابط سے اگر بے خبر ہے تو اس سے تعلیم قرآن کی قطعاً اجازت
نہیں ہے۔ اب ذرا اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے کہ ہمارے یہاں قارئین و
مُقرئینِ قرآن کریم تو درکنار مفسرین قرآن کریم (بلکہ صحیح معنوں میں
متفسرین) ایسے بہت سے ہیں جو بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عربی زبان و ادب
سے بالکلیہ عاری ہوتے ہیں۔حضرت امام دارالہجرۃ فرماتے ہیں: ’’لااُوتی برجل
غیرعالم بلغۃ العرب یفسر کتاب اﷲ إلاجعلتہ نکالاً‘‘ (الإتقان في علوم
القرآن للسیوطي: ۱؍۱۷۹) زرکشی کا بھی اسی طرح کا ایک قول ہے دیکھیے
(البرھان في علوم القرآن للزرکشی: ۲۹۲/۱)جناب سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم
کا ارشاد ہے:’’من قال في القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ فی النار ۔
(أبوداؤد، بحوالہ الإتقان: ۱۷۹/۲) گویا علمی استعداد کے بغیر قرآن کریم کے
متعلق رائے زنی کرنے والا اپنا ٹھکانا جہنم میں بنارہا ہے۔
-ابوالزناد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ : ’’ماتزندق من تزندق بالمشرق
إلاجھلاً بکلام العرب‘‘ (المدخل إلی العربیۃ) یعنی مشرق میں جتنے زنادقہ
پیدا ہوئے وہ عربی زبان و ادب سے ناواقفیت کی بناء پر پیدا ہوئے۔
-حضرت عبداﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ کا ارشاد ہے: ’’لایُقبل الرجل بنوع من
العلوم ، مالم یزیّن علمہ بالعربیۃ‘‘ یعنی قبولیت في العلم کے لیے عربی سے
لگاؤضروری ہے۔ نیز ان کا ارشاد ہے : ’’أنفقت في الحدیث أربعین ألفاً، وفي
الأدب ستین ألفاً، ولیت ماأنفقتہ في الحدیث، أنفقتہ في الأدب، قیل لہ: کیف؟
قال: لأن الخطأ في الأدب یؤدي إلی الکفر‘‘ یعنی حدیث کی تحصیل میں چالیس
ہزار درہم خرچ کیے، اور ادب کی تحصیل میں ساٹھ ہزار مگر پھر بھی فرماتے ہیں
کہ کاش جو کچھ میں نے علم حدیث کے حصول میں خرچ کیا وہ علم ادب ہی کے حصول
میں خرچ کرتا ۔ کیوں کہ عربی ادب کی غلطیاں اہل علم کے لیے مفضي إلی الکفر
ہیں، سبحان اﷲ (سابق حوالہ)۔
-امام المفسرین حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے ’’فاطر
السماوات والأرض‘‘ کا معنی نہیں معلوم تھا۔ یہاں تک کہ میں نے ایک عربی
خاتون کو ’’أنا فطرتہ‘‘ کہتے ہوئے سنا، پوچھنے پر اسی نے بتایا ’’أی
ابتدأتہ‘‘ اسی لیے آپ نے فرمایا: ’’إذا خفي علیکم شيء من القرآن الکریم،
فابتغوہ في الشعر، فإنہ دیوان العرب‘‘ کہ جب بھی تم پر قرآن کریم کے کسی
لفظ کا معنی مخفی رہے، تو اس سے عربی شاعری میں تلاش کرو، کیوں کہ شعرعربی
زبان کا مستند مأخذ ہے۔ آپ ؓ جب تفسیر پڑھاتے پڑھاتے اکتا جاتے تو نشاط کے
لیے فرماتے: ’’ھا توني دیوان الشعراء‘‘ اور پھر اسے پڑھتے اور پڑھواتے۔
(الإحکام في أصول الأحکام للآمدی: ۵۱/۱)۔
-حضرت شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ نے عربی زبان و ادب اور
اسلامی عقائد کے درمیان اعضاء جسمانی کے جوڑوں ومفاصل کے ارتباط کی طرح
مضبوط ربط کا کلام فرمایا ہے۔ (اقتضاء الصراط المستقیم : ۱۲۴)
-حضرت امام رازی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ قرآن وحدیث کے علوم بقدر کفایت
حاصل کرنا فرض ہے اور چونکہ قرآن وحدیث کے سمجھنے کے لیے عربی زبان وادب
بطور مفتاح وکنجی ہے اس لیے عربی زبان و ادب کی تحصیل بھی فرض ہے
’’ومالایتم الواجب، إلابہ فھو واجب‘‘ (المحصول في علم أصول الفقہ للرازي:
۲۷۵/۱)
-حضرت امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ عربی زبان و ادب کے نابغہ ٔ روزگار ماہر تھے
ان کا ارشاد ہے: ’’ما أردت بھا’’یعني العربیۃ‘‘ إلا الاستعانۃ علی الفقہ‘‘
(سیر أعلام النبلاء للذھبي: ۷۵/۱)۔
-جناب سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’من یُحسن أن
یتکلم بالعربیۃ، فلایتکلم بالعجمیۃ فإنہ یورث النفاق‘‘ أو ’’من کان یُحسن
أن یتکلم بالعربیۃ، فلایتکلم بالفارسیۃ فإنہ یورث النفاق‘‘ (مستدرک الحاکم:
۷۸/۴) یعنی جو شخص اچھی طرح عربی زبان میں تکلم پر قادر ہو تو وہ عربی ہی
میں بات کیا کریں تاکہ اعجمی زبان و ثقافت کے مضراثرات سے محفوظ رہے۔
-آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’أنا أفصح العرب بیدأني من قریش‘‘ یعنی
میں فصیح ترین عربی ہوں اس لیے کہ میں قریشی ہوں۔
نیزبعض محققین نے اس سے نصف علم قرار دیا ہے ’’معرفۃ مفردات اللغۃ نصف
العلم، لأن کل علم تتوقف إفادتہ واستفادتہ علیھا․ وحکمہ: أنہ من فروض
الکفایات…… لأن بہ تُعرف معاني ألفاظ القرآن والسنۃ، ولاسبیل إلی إدراک معا
نیھما إلابالتبحر في علم ھذہ اللغۃ‘‘ اوراسی بناء پر کہا گیا:
حفظ اللغات علینا، فرض کحفظ الصلاۃ
فلیس یُحفظ دین ، إلابحفظ اللغات
(مقدمہ ٔ القاموس المحیط للفیروز آبادی)
-علامہ ابن نجفی نے فرمایا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ أہل اجتھاد وفتاوی کہلانے
والا اگر لغت عرب سے ناواقف ہوگا تو وہ ’’ضلّ وأضلّ‘‘ کا مصداق بن جائے
گا(الخصائص: ۲۴۵/۳)
-مفسر قرآن کے لیے عربی زبان و ادب کی اہمیت وفرضیت کے متعلق شیخ الاسلام
حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم رقمطراز ہیں:
’’نمبر۵: لغت عرب۔ قرآن کریم چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس لیے تفسیر
قرآن کے لیے اس زبان پر ’’مکمل‘‘ عبور حاصل کرنا ضروری ہے (بدقسمتی سے اور
تو اور ہمارے عربی مدارس میں بھی قرآن کریم کے تفسیری اسباق اکثر و بیشتر
ایسے اساتذہ کے سپرد کیے جاتے ہیں جو نحو وصرف اور عربی ادب میں زیرو ہیں
ہی دیگر علوم و فنون میں بھی یدطولی کے مالک نہ ہیں)۔ مستثنیات کی بات الگ
ہے قرآن کریم کی بہت سی آیات ایسی ہیں کہ ان کے پس منظر میں چونکہ کوئی
شانِ نزول یا کوئی اور فقہی یا کلامی مسألہ نہیں ہوتا اس لیے اُن کی تفسیر
میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یا صحابہؓ و تابعینؒ کے اقوال منقول نہیں
ہوتے، چنانچہ ان کی تفسیر کا ذریعہ صرف’’ لغت عرب‘‘ہوتی ہے اور لغت ہی کی
بنیاد پر اس کی تشریح کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اگر کسی آیت کی تفسیر میں
کوئی اختلاف ہو تو مختلف آراء میں محاکمہ کے لیے بھی علم لغت سے کام لیا
جاتا ہے‘‘ (مقدمہ معارف القرآن: ۵۱/۱)۔
-بعض لوگ فارسی کی اہمیت کے لیے نہیں بلکہ عربی کی اہمیت کم کرنے کے لیے
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ وعلی أصحابہ کے فتوی جواز صلاۃ
بالفارسیۃ سے بارداستدلال کرنے میں نہیں تھکتے اور فارسی کو اردو اور
انگریزی اور دیگر زبانوں کے لیے بھی بطور مقیس علیہ کے پیش کرتے ہیں۔
فیاسبحان اﷲ۔ ایسے حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ جہاں جہاں جواز صلاۃ
بالفارسیۃ کا حضرت امام صاحب کا قول منقول ہے وہیں پر آخر میں ان کا رجوع
بھی منقول ہے۔ نیز حضرات ِ فقہاء کرام رحمۃ اﷲ علیہھم أجمعین نے حضرت کے
قول کی تشریح اس طرح کی ہے: ’’الخلاف فیما إذا جری علی لسانہ من غیرقصد،
أما من تعمد ذلک فیکون زندیقاً أومجنوناً، فالمجنون یُداوی والزندیق
یُقتل‘‘ (فتح القدیر: ج۱، ص۲۴۹ ، المکتبہ الرشیدیہ کوئٹہ)
لطیفہ: عالمِ جلیل حضرت ابوبکر محمد بن فضل رحمۃ اﷲ علیہ کے زمانہ میں کسی
مفسد قسم کے شخص نے حضرت سے فتویٰ طلب کیا کہ اس زمانے میں تعلیم وتعلم
عربی زبان میں طلبہ پر نہایت شاق ہے، عربی کے بجائے کیا ہم فارسی میں تعلیم
بچوں کو دلاسکتے ہیں؟ محمد بن فضل رحمۃ اﷲ علیہ نے پیامبر سے فرمایا کہ آپ
جائیے ہم سوچ بچار کرکے جواب دیں گے ۔ پھر آپ نے اس شخص (عالم) کے متعلق
معلومات کیں، پتہ چلا کہ مذہب و مسلک اور فکر ونظریہ کے لحاظ سے فساد کا
شکار ہے اس لیے اس قسم کا استفتاء ارسال کیا ہے توآپ نے اپنے ایک خادم کو
خنجر دیا اور فرمایا کہ جاکر ایسے شخص کو قتل کردواور اگر کوئی روکنے کی
کوشش کرے تو بتانا کہ محمد بن فضل نے حکم کیا ہے تو اس خادم نے جا کر اسے
قتل کردیا، پولیس نے تحقیقات کی اور قضیہ حاکم بلد کو پیش کردیا گیا، حاکم
نے حضرت امام ابوبکر محمد بن فضل کو بلاوا بھیجا، حضرت حاضر ہوئے اورماجری
سنا کر فرمایا: ’’إن ھذا کان یرید أن یُبطل کتاب اﷲ تعالی۔
آگے چل کر مصنف یہ بھی لکھتے ہیں: فخلع لہ الأمیر وجازاہ بالخیر‘‘ یعنی یہ
شخص کتاب اﷲ کا بطلان کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے اسے قتل کروایا اور
بطلان کی تفصیل قرآن کی عربیت اور اس کی تیسیر کی بتائی ہوگی جبکہ ان مفسد
ومبطل معلم کا کہنا تھا کہ عربی میں تعلیم طلبہ پرشاق ہے۔بحرحال حاکم نے
سزا کے بجائے حضرت شیخ کو انعام دیا اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس سے
کتاب اﷲ کے متعلق عربی زبان و ادب پر غیرت آجانے کا اندازہ آپ بخوبی
لگاسکتے ہیں۔
(فتح القدیر: ۲۳۸/۱۔ ۲۴۹ المکتبہ الرشیدیہ کوئٹہ) |