اپریل فول وہ ایونٹ ہے جس میں انسانی احساسات وجذبات کو
ٹھیس پہنچائی جاتی ہے مذاق کی آڑ میں بعض اوقات اس حدتک گزر جاتے ہیں کہ
کوئی بھی پیارا اپنی جان گنوا دیتا ہے ۔یکم اپریل درحقیقت ایک ایسا دن ہے
جس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادکو ایک منصوبے کے تحت بیوقوف بنایا گیا ہے
اور انہیں دریا برد کردیا گیا اس تہوار کو غیر مسلم بالخصوص عیسائی بڑے شوق
وجذبے سے مناتے ہیں اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہونیوالے
واقعہ سے تسکین حاصل کی جائے ہماری مسلمان قوم بھی اپنے آپ کو بیوقوف بنانے
میں پیش پیش نظر آتی ہے اور پھر مذاق ہی مذاق میں کچھ ایسے واقعات رونما
ہوجاتے ہیں جن کی تلافی ممکن نہیں ہوتی ۔ہمارے ہاں قوت برداشت کا مادہ
ناپید ہوچکا ہے ہم میں مذاق کو سہنے کی سکت باقی نہیں کیونکہ حکومتی
ایوانوں اور ارباب اختیار کا مذاق سہتے سہتے ہماری قوتیں سلب ہوچکی ہیں
۔قوی نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ۔مذاق ویسے بھی اسلام کی روسے ناپسندیدہ ہے
بالخصوص ایسا مذاق جس سے کسی کی دل آزاری اور توہین مطلوب ہویا کسی کو
ناجائز طور پر پریشان اور تنگ کرنا مقصود ہو ۔بحیثیت مسلمان ہمیں اس قسم کے
رویوں سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ایثار محبت برداشت کے رویے قصہ
پارینہ بن چکے ہیں۔ہماری تاریخ کا حصہ ہوچکے ہیں۔نفسا نفسی اس ملک کا خاصہ
بن چکی۔قیامت صغری بپا ہے۔لوگوں کو کھانے کو روٹی میسر نہیں۔ پینے کو پانی
ندارد ہے۔سر کو چھپانے کوچھت میسر نہیں ۔سروں پر سائبان کا چھایہ مقدر بن
چکا ہے۔وہ دور جسے کبھی سنہرا دور کہا جاتا تھا۔کہیں کھو گیااور اب اس کے
ملنے کے چانسز صفر ہو گئے ہیں۔ کیونکہ ہم اسے تلاشنا اور کھوجنا ہی نہیں
چاہتے۔ مغرب کی گھٹی ہمارے رگوں میں سرایت کرتی جارہی ہے۔پورپین اور انڈین
کلچر نے ہمارے قومی ہیروز کے چہرے مسخ کردیئے ہیں۔ ہمیں ابوبکر ؓکی صداقت
ملتی ہے نہ ہی عمر فاروق ؓکی عدالت و خطابت،عثمانؓغنی کی سخاوت دکھائی دیتی
ہے اور نہ ہی علی مرتضیؓ کی شجاعت۔ ہم خالد بن ولید۔ محمد بن قاسم، صلاح
الدین ایوبی کو کبھی کا فراموش کرچکے۔ہمیں تو یہ تک یاد نہیں کہ ان بے مثا
ل ہیروز کے یوم پیدائش اور یوم وفا ت کیا ہے۔ ان کے کارہائے نمایاں کو
فراموش کرانے کی بھرپور سازش بین الاقوامی طور پر کی جارہی ہے۔ ہمارے
متزلزل ایمان کو کمزور کرنے کی ناپاک سازش میں ہم خود بھی دانستہ اور
نادانستہ طور پر ملوث ہوتے جارہے ہیں۔ایثار و قربانی ،خلوص و محبت، عدل و
مساوات ، فراخدلی و خندہ پیشانی کی جو مثال ہجرت مدینہ کے وقت دیکھنے میں
آئی آج تک اور رہتی دنیا تک اس کی مثال صفحہ ہستی پر نہیں ملتی جب مکہ سے
مسلمان بے سروسامانی اور پریشانی کی حالت میں مدینہ منورہ میں داخل ہوئے
تولگتا ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ پہلی مرتبہ ایک دوسرے سے مل رہے ہیں یوں
معلوم ہوتا تھا کہ یہ صدیوں سے بچھڑے ایک دوسرے کے تعلق دار و رشتہ دار ہیں
اور اس وقت ان سب کا شوق بھی دیدنی تھا ان میں سے ہر ایک کی خواہش اور کوشش
تھی کہ میں کسی نہ کسی طرح مکہ سے ہجرت کرکے آنے والوں مسلمانوں کے کام
آسکوں ان کی خدمت کرکے اپنی خوش قسمتی پر رشک کرسکوں۔ ان میں جو جذبہ تھا
اسے الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا کہ جذبات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا
سمندر تھا کہ جس کی موجیں بار بار چھلکی جارہی تھیں آنے والوں کیلئے انہوں
نے اپنے نگاہیں بچھائی ہوئیں تھی اور ان کی مدد کو اپنا اولین شعار سمجھا
جارہا تھا۔انصار مدینہ نے مکی مسلمانوں کو اس طرح accomodateکیا کہ اپنی
جائیداد مال و دولت کاروبار میں اپنا شراکت دار بنالیا توکسی نے اپنا آدھا
کاروبار آدھی جائیدادآدھا مال ودولت بے لوث و بے غرض اپنے مہاجر بھائی کو
دے دیا۔اور ایسی مثال بھی سامنے آئی کہ اگر کسی انصاری کی دو یا زائد
بیویاں تھیں تو انہیں بھی طلاق دے کر دوسرے بھائی کے نکاح میں دے دی ایسی
مثال چشم فلک نے اس سے پہلے نہ کبھی دیکھی تو اور نہ کبھی دیکھ سکے گا اور
مہاجرین نے بھی حق ادا کرتے ہوتے صرف وہی لیا جس کی اشد ضرورت تھی اور محنت
مزدوری کو اپنا شعار بنایا تاکہ انصاری بھائی پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔ اس کے
بعد بھی فلک نے دیکھا کہ جب مکہ فتح ہوا اور حضور اکرم ﷺ جب فاتح کی حیثیت
سے مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپؐ نے جو فرمایا وہ رہتی دنیا تک ہمیشہ سے
سنہری حروف میں لکھا جائیگا کہ آج کے دن تمام دشمنوں کو عام معافی ہے کسی
سے کوئی بازپرس نہیں کی جائیگی عفو و درگزر صلہ رحمی اور ایثارکی ایسی مثال
کبھی نہ دیکھی جائیگی اور نہ سنی جائیگی۔
پاکستان کے بنتے وقت بھی اس سے ملتے جلتے ایثار وقربانی اور خلوص و محبت کے
واقعات تاریخ کا حصہ ہیں کہ جب ہندوستان سے مسلمانوں نے پاکستان کی طرف
ہجرت کی اس وقت وہ نفسا نفسی کا عالم تھا کہ ماں بیٹی سے بیٹا باپ سے بھائی
بھائی سے بہن بھائی سے جدا ہوگئے کسی کو مار ڈالا گیا تو کسی کو کاٹ دیا
گیا۔ عصمتیں لوٹیں گئیں عزتیں پامال کی گئیں ،خون کی ندیاں بہادی گئیں ایسے
میں بھی مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی جس طرح بن پڑا مدد کی انکو
ایڈجسٹ کرنے کیلئے مال و جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا گیاایسے
واقعات بھی سامنے آئے کہ جب کسی کی مد د کرنے کی پاداش میں اپنی جان کو بھی
داؤ پر لگادیا گیایہ بھی تاریخ کے اوراق کا ایک سنہری باب تھا۔ لاہور میں
ایک عیسائی کو بچانے کیلئے ایک مسلمان طالب علم گٹر میں اتر جاتا ہے اور
پھر ان دونوں کو بچانے کیلئے ایک اور مسلمان ایثار و قربانی کے جذبے کے تحت
کود پڑتا ہے اور پھر تینوں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔گجرات میں جب
وین میں آگ لگنے کا الم ناک حادثہ رونماہوتا ہے سولہ معصوم طالب علم آگ کے
شعلوں میں لپٹے مدد کیلئے پکار رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں ان کی ٹیچر جو کہ
اپنی جان بچا کر باہر نکل چکی ہوتی ہے جذبہ ایثار وقربانی کی مثال قائم
کرتی ہوئی بے خطر آگ میں کود پڑتی ہے اور معصوم ننھے طلبا و طالبات کو
بچانے کی خواہش و کوشش میں اپنی جان جان آفرین کے حوالے کردیتی ہے اور
تاریخ میں ایک اور باب کا اضافہ ہوجاتا ہے لیکن بے حس قوم و حکمرانوں کیلئے
ایک سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہے
ہر دو رویوں میں اتنا تضاد کیوں ہے؟کیوں یہ بے حسی اور عدم برداشت کے رویے
ہمارے معاشرے کا مزاج بنتے جارہے ہیں وہ بھی انسان تھے جو کہ بے لوث جذبوں
ے مزین اور طمع و حرص و ہوس سے عاری تھے۔جذبہ ایثار و وفا ان کا خاصہ تھا ۔
برداشت اور درگزر ان کی عادات میں شامل تھے۔دھن دولت مال و متاع کی حیثیت
ان کے ہاں ثانوی تھی۔ انسانیت کے دلدادہ تھے اور اس کی فلاح و بہبود ہمیشہ
ان کے پیش نظر رہتی تھی۔اور آج کے انسان نے مسلمان نے پاکستان کی عوام نے
ان قربانیوں اور جذبوں کو پس پشت ڈال دیا ہے کہ برف کے ایک ٹکڑے کی خاطریا
چند آموں کے عوض انسانی جانوں سے کھیلا جائے۔زمانہ جاہلیت کو آواز دی جائے
کہ ’’کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا‘‘کے تصور کو کھرچا جائے۔ ان عوامی
رویوں ایک کلیدی کردار حکومتی ناقص پالیسیوں اور نااہلی کا بھی ہے حکومت کو
چاہئے اس قسم کے لغویات کو روکنے کیلئے سرکاری طور پر کوئی انتظام کیا جائے
اور ہماری قومی دن اور ہیروز کے دنوں کو منظر عام پر لانے اور عوام کے دلوں
اور ذہنوں میں تازہ کرنے کیلئے کوئی مناست انتظامات کرے ورنہ’’ تمہاری
داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘ |