محمد ﷺ جس شریعت کا تکمیلی صحیفہ لے کر آئے اس کی بڑی
خصوصیت یہ ہے کہ وہ دین و دنیا کی جامع ہے۔ اس کا ایک ایک حرف مصلحتوں اور
حکمتوں کے دفتروں سے معمور ہے۔اسلام نے عبادت کا وہ جامع طریقہ اور وسیع
تصور انسانیت کو دیا جو صرف روحانیت ہی کو تسکین نہیں بخشتا بلکہ کردار
سازی اور اخلاقی تربیت میں بھی مثالی کردار ادا کرتا ہے۔ حج بھی اسی نظامِ
عبادت کا اساسی رکن ہے جو جذبہ عشقِ الٰہی کی آبیاری کے ساتھ ساتھ اجتماعی
شعور پروان چڑھانے کا مثالی کورس ہے۔ حقیقی روح اور گہری بصیرت کیا جانے
والا حج بقیہ زندگی کو منظم کرنے کے لیے کافی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ (الحج:۲۸)"تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے
دیکھیں جو ان (حاجیوں ) کے لیے رکھے گئے ہیں"
قرآن کی اس بلیغ تعبیر میں منافع کا اطلاق ان اخلاقی پہلوؤں اور تربیتی
فوائد پر بھی ہوتا ہے جن کا حج سرِ عنوان ہے۔ذیرِ نظر مضمون میں مناسکِ حج
کے اسی اخلاقی پیغام کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جن کو اپنا کر ہر سال
معاشرے میں لاکھوں حاجیوں کی صورت میں اچھے شہریوں کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
۱۔ حج اور نظم و ضبط
جلد بازی ہمارے معاشرے کی ریت بن چکی ہے۔ قطار بنانا ، پہلے سے موجود لوگوں
کا احترام کرنا، ٹریفک سگنلز کی مکمل پابندی اور پرسکون ڈرائیونگ مسلم
معاشروں میں ناپید ہوتے جارہے ہیں، جبکہ سکون اور اطمینان کی تعلیم اسلام
کا طرہ امتیاز ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ قرآن مجید ٹھر ٹھر کر پڑھیں۔ نماز بھی
سکون سے ادا کی جائے، حتیٰ کہ باجماعت نماز کے لیے جاتے وقت بھی تیز چلنا
مکرہ ہے۔
حج کے پانچ دنوں میں منیٰ، عرفات، مزدلفہ، مکہ مکرمہ کا مسلسل اور اجتماعی
سفر بھی اسی اطمینان اور نظم و ضبط کی عملی تربیت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور ﷺ کے ساتھ (مزدلفہ سے) واپس
آرہے تھے ۔نبی کریم ﷺ نے اپنے پیچھے اونٹوں کو مارنے اور (تیز دوڑانے کے
لیے) چینخنے کی آواز سنی تو کوڑا سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: أَيُّهَا
النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ ، فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِالإِيضَاعِ(
صحیح البخاری:۱۶۷۱)"لوگوں ! اطمینان کو لازم پکڑو، کیونکہ سواری دوڑانا
کوئی نیکی نہیں"
۲۔ حج اور امن پسندی
تیز تر ہوتی زندگی، آفس کے خلافِ طبع معاملات، بازار کا رش مزاج کو چڑچڑا
بنا دیتا ہے، لہجہ مین تلخی آجاتی ہے اور کبھی کبھار تو آپس میں سخت
گفتگو، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس کے برخلاف حج
حاجی کو امن و سلامتی اور صلح جوئی کی پوری تصویر بنا دیتا ہے۔ اسے حکم ہے
کہ لڑائی جھگڑا ، دنگا فساد بالکل نہ کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَمَنْ
فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي
الْحَجِّ(البقرۃ:۱۹۷)"چنانچہ جو شخص ان مہینوں میں اپنے اوپر حج لازم کرلے
تو حج کے دوران وہ نہ کوئی فحش بات کرے، نہ کوئی گناہ ، نہ کوئی جھگڑا"
حاجی کو انسان تو کجا کسی چیونتی تک کو مارنے کی اجازت نہیں۔ شکار تک اس کے
لیے جائز نہیں۔اگر کسی حاجی سے کسی جانور کے قتل کی حرکت قصداََ صادر
ہوجائے تو اسے اپنے اس گناہ کے کفارے میں اس جانور کے برابر کسی حلال جانور
کی قربانی، یا چند محتاجوں کو کھانا کھلانا یا اتنے ہی روزے رکھنے لازم
ہیں(سورۃ المائدہ: ۹۵)
مقامِ حج کو اس قدر پرامن بنادیا گیا ہے کہ سخت سے سخت دشمن سے بھی حدودِ
حرم میں بدلہ لینا یا اس کو سزا دینا منع کردیا گیا ہے۔ قرآن یہ اعلان
کرتا ہے: وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (سورہ آلِ عمران:۹۷)، یعنی "جو اس
(حرم ) میں داخل ہوتا ہے امن پایا جاتا ہے" اسی کا اثر تھا کہ حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اگر میں اپنے باپ حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کے قاتل کو بھی وہاں پاؤں تو میں اس ہاتھ نہ لگاؤں حتی کہ وہ باہر
نکلے( تفسیر الدر المنثور)
حج اور آبروئے مسلم کا احترام
بیت اللہ شریف کا دیکھنا بھی عبادت ہے، حدیث میں ہے کہ ہر روز اللہ تعالیٰ
روزانہ بیت اللہ پر ایک سو بیس رحمتیں نازل فرماتے ہیں جن میں سےبیس رحمتیں
محض خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر ہوتی ہیں( مجمع الزوائد:۵۷۳۹)۔ مشہور
تابعی حضرت عطا رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ بیت اللہ کا دیکھنا ایک
سال کی عبادت سے بھی افضل ہے(تفسیر الدر المنثور)۔ انہی جیسے دیگر فضائل کی
وجہ سے حجاج کرام خانہ کعبہ سے چمٹنے کے لیے بیتاب اور اس کی زیارت کے ہر
وقت مشتاق رہتے ہیں۔
لیکن یہ حدیث ہر حاجی کو اپنے پاس رکھ لینی چاہیے جس میں بیت اللہ کا طواف
کرتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ اے بیت اللہ ! تو کتنی حرمت والا ہے ،
کتنے تقدس والا ہے۔ لیکن ایک مسلمان کی جان، اس کا مال، اور اس کی آبرو کو
نقصان پہنچانے والا شخص خانہ کعبہ کو ڈھانے والے کی طرح ہے۔ اسی لیے مولانا
رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
دل بدست آور کہ حج اکبر است
کسی کا دل تھامنا حجِ اکبر ہے
ایک اور حدیث میں ہے کہ حج کے دوران لوگ حضور ﷺ کے پاس آکر اپنی غلطیاں
بتارہے تھے ، کوئی کہہ رہا تھا کہ یا رسول اللہ ! میں نے غلطی سے سعی طواف
سے پہلے کرلی، کوئی کہہ رہا تھا کہ میں نے حلق پہلے کرلیا۔ آپ ﷺ سب سے
فرما رہے تھے کہ (پہلا حج ہے ، لہذا ) کوئی گناہ نہیں، گناہ تو اس شخص پر
ہے جس نے کسی مسلمان کی عزت پر ظلماََ ہاتھ ڈالا (سننِ ابی داؤد:۲۰۱۵)۔
ان ارشادات کو مدِ نظر رکھا جائے تو حج کے بعد بھی غیبت، دل آزاری، طعنہ
تشنیع سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ ورنہ تو یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ حج سے
واپسی ہوئی ، دڑائیور کو ائرپورٹ پہنچنے میں زرا تاخیر ہوگئی تو اس کو بھرے
مجمع میں خوب سنایا گیا، ہر طرح کی زبان استعمال کرکے کعبہ سے زیادہ محترم
دلِ مسلم ڈھا دیا گیا۔ حج الوداع کے موقع پر حضور اقدس ﷺ اور حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ کا سب سامان ایک اونٹ پر تھا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ کے غلام کی سپردگی میں تھا۔ جب وادی عروج میں پہنچے تو دیر تک یہ
حضرت ان کا انتظار فرماتے رہے۔ دیر میں وہ آئے اور کہا کہ اونٹ تو کھوگیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو مارا کہ ایک ہی اونٹ تھا وہ بھی
کھو دیا۔ آپ ﷺ ارشاد فرمانے لگے کہ ان محرم کو دیکھو یہ کیا کر رہے ہیں ،
یعنی حالتِ احرام میں مار رہے ہیں( فضائلِ صدقات: ۲۲۳)
خلاصہ یہ ہے کہ حج محض چند رسومات کی ادائیگی کا نام نہیں بلکہ اخوت و
مساوات کی مجسم تشکیل اور منظم زندگی کی تعمیر بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جب
فرمایا کہ نیکی والے حج کا بدلہ جنت سے کم کچھ نہیں تو صحابہ رضی اللہ عنہم
نے عرض کیا کہ حضور حج کی نیکی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا: "إطعام
الطعام وطيب الكلام"(المعجم الاوسط:۸۴۰۵)، یعنی کھانا کھلانا اور نرم گفتگو
کرنا۔ اس لیے نہایت ضروری ہے کہ حج تربیتی پروگرامز میں مسائل ِحج کے ساتھ
ساتھ حج کے اس اخلاق ساز پہلو پر بھی بھر پور روشنی ڈالی جائے اور حجاجِ
کرام ان آیات اور احادیث کو ہر وقت مدِ نظر رکھیں تاکہ عازمینِ حج حج کے
تمام فوائد سے صحیح معنوں میں مستفیذ ہوسکیں اور حج کا عالمی اجتماع امتِ
مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ کی بنیاد بن جائے۔ |