ایک یاد گار سفر!

مولانا ابراہیم حسین عابدی

جوں جوں سفر کے لمحات قریب آتے جارہے تھے خوف اور بے یقینی کے بادل گہرے ہوتے جارہے تھے، کیا واقعی عابدی حرمین شریفین کی زیارت کرسکے گا؟ بیت اﷲ کے سائے تلے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوسکے گا؟ روضۂ رسول پر سلام پیش کرسکے گا؟ کہیں ویزا یا پاسپورٹ میں کوئی نقص یا اعتراض نہ نکل آئے، منزل کے قریب ہی نہ دھرا لیا جائے، گناہوں کی پوٹلی سمیت واپس نہ کردیا جائے؟

یہ اور اس جیسے خیالات تھے جو عابدی پر آخری وقت تک منڈلاتے رہے، یہی وجہ تھی کہ جب سفر میں فقط تین دن رہ گئے تب اس نے دوستوں اور رشتہ داروں کو اطلاع دی، وہ بھی اس لئے کہ واپسی پر گلے شکوؤں کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کو بھی اس مبارک سفر کی خبر دیتا وہ مختلف دعاؤں کی درخواست کی فہرست تھما دیتا، دوسری ملاقات میں اس فہرست میں مزید اضافہ ہو جاتا۔

سفر پر روانگی سے قبل بڑوں نے نصیحت کی تھی کہ راستے کی صعوبتوں پر شکوہ کناں نہ ہونا، اﷲ تعالیٰ کے راستے کی تکالیف برداشت کرنا، رفع درجات کا باعث ہوگا۔ جب بھی کوئی تکلیف پہنچتی خواہ وہ ایئر پورٹ کی ہوتی یا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہوٹل وغیرہ کے انتظامات کرنے والے افراد کی طرف سے عابدی کو بزرگ کی بات یاد آتی اور خندہ پیشانی سے تکلیف جھیلتا۔

کہتے ہیں بیت اﷲ شریف پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے قبولیت کا پروانہ پاتی ہے، عابدی نے بھی اس لمحہ کے لئے تیاری کررکھی تھی لیکن بیت اﷲ پر پہلی نظر پڑی تو اس کی ایسی عجیب حالت ہوئی کہ کچھ دیر تک وہ مانگنے کی کیفیت سے دور تھا، طبیعت کچھ بحال ہوئی تو رب سے راز و نیاز میں مشغول ہوگیا۔

مسجد حرام میں سب سے افضل عبادت بیت اﷲ شریف کا طواف ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ طواف کا عمل دوسری کسی جگہ نہیں کیا جاسکتا۔ طواف کے دوران جو دعائیں مانگی جائیں قبولیت سے سرفراز ہوتی ہیں اکثر لوگوں کی زبان پر مشہور دعا: ’’ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ جاری ہوتی ہے۔ ریکارڈ کے مطابق امسال عمرہ کرنے والوں کی تعداد پچھلے سالوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھی۔

عمرہ جیسی اہم عبادت کی ادائیگی پر جانے سے قبل کسی مستند عالم دین سے رہنمائی ضرور لینی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمرہ کے مسائل و احکام کے بارے میں کوئی کتاب یا کتابچہ بھی ساتھ ہونا اہمیت کا حامل ہے۔ مشاہدہ میں آیا ہے کہ عمرہ کے دوران ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو بنیادی باتوں کے علم سے بھی نابلند ہوتے ہیں۔ کسی نے مطاف کے باہر ہی سے اضطباع شروع کیا ہوتا ہے تو کوئی طواف کے دوران بھی اس عمل سے دور ہے، کوئی صفا، مروہ کے چکروں کو ایک شمار کررہا ہے تو کوئی طواف کے بعدکی دو واجب رکعتوں سے بے بہرہ ہے۔

خواتین کو بھی احتیاط کا دامن تھامنا چاہئے، خصوصاً طواف کے دوران مردوں کے مجمع میں گھسنے سے احتراز کریں۔ یہاں ایسی عورتیں بھی نظر آتی ہیں جو میک اپ سے لدی ہوتی ہیں، خصوصاً پاکستانی اور انڈونیشین عورتیں اس باب میں غیر محتاط ہیں۔ اگر یہاں ایک نیکی کا ثواب دیگر مقامات کے مقابلہ میں ہزاروں درجہ زیادہ ہے تو گناہ کا عمل بھی دوسری جگہوں سے زیادہ شناعت کا سبب ہوگا۔ حرمین شریفین میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہئے، کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سارا سفر بے کار ہوجائے۔

بندۂ ناچیز نے اس مبارک سفر کو اس طرح ترتیب دیا کہ پہلے پانچ دن مکہ مکرمہ، نو دن مدینہ منورہ اور پھر چھ دن مکہ مکرمہ میں گزارے۔ الحمدﷲ! مبارک سفر بڑا یادگار رہا۔

یقینا عبادت کا جو حق تھا، اس کی ادائیگی سے عابدی قاصر رہا، باوجود گناہگار ہونے کے رب کی رحمت ہر جگہ شامل حال رہی۔ حرمین شریفین کے انوارات سے محظوظ ہوتے رہے، بیت اﷲ کے سائے تلے ائمہ حرم کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا الگ ہی لطف تھا، خصوصاً شیخ عبدالرحمن السدیس، سعود الشریم اور ماہر محیقلی کے کیا کہنے: سبحان اﷲ!

آخری دن ہمیں کہاگیا کہ مغرب کے بعد آپ اپنے ہوٹل میں رہیں، جدہ ایئرپورٹ کے لئے گاڑی کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ راقم نے اس وقت کو غنیمت جانا، عصر کے بعد سے طواف میں مشغول ہوگیا، اپنے لئے، رشتہ داروں، دوست احباب، مرحومین اور ملک پاکستان کے لئے خوب دعائیں کی۔ آپ کسی بھی وقت طواف کریں لوگوں کا جم غفیر کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ راقم نے چند اوقات معلوم کرلئے تھے جس میں لوگ کسی قدر کم ہوتے ہیں۔ ایک رات کے دو بجے اور دوسرا وقت نمازوں کے متصل بعد کا، اس میں عورتیں بھی نہیں ہوتیں، انہیں نماز سے آدھا گھنٹہ قبل وہاں کی انتظامیہ کے متعین افراد مطاف سے باہر کردیتے ہیں تاکہ مرد نمازیوں سے اختلاط نہ ہو۔

عابدی نے مغرب کی نماز کے متصل بعد اپنے بقایا چکر پورے کئے، غلافِ کعبہ اور اس کے دیواروں سے چمٹ گیا، اے پیارے رب! تو کہتا ہے مجھ سے مانگو مجھے قریب پاؤگے، تیرا فرمان ہے کہ میں ماں سے بھی ستر گنا زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہوں، اے رحمن و رحیم ذات! تجھے تیری رحمت و صفات کا واسطہ ہمیں خالی جھولی نہ لوٹا، تیرے دربار کے پردے پکڑ کر، تیرے مقدس گھر کی چوکھٹ پکڑ کر تجھ سے بھیک مانگتے ہیں، ہمیں خالی ہاتھ نہ لوٹا، ہمیں خالی ہاتھ نہ لوٹا، ہمیں خالی ہاتھ نہ لوٹا۔ ٭٭
Ibnul Hussain Abidi
About the Author: Ibnul Hussain Abidi Read More Articles by Ibnul Hussain Abidi: 60 Articles with 58467 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.