پتھری بل فرضی جھڑپ معاملے کو اگرچہ 14 برس مکمل ہوگئے
لیکن اب بھی اس سانحہ میں مارے گئے افراد کے لواحقین انصاف کی تلاش میں
ہیں، حالانکہ قابض بھارتی فوج نے شواہدوں اور ثبوتوں کی کمی کی بناء پر یہ
کیس بند کر دیا لیکن جھڑپ متاثرین کی امیدیں اب بھی نہیں ٹوٹی ہیں۔ ان
لوگوں کی آخری نظریں اب یہاں کی ریاستی حکومت پر ہی ٹکی ہیں، مارچ 2000ء
میں اننت ناگ اسلام آباد کے پتھری بل جنگلات میں مارے گئے 5 افراد کے اہل
خانہ اب بھی اس دن کو نہیں بھولے ہیں جب انکے عزیز ایک جھڑپ کے دوران ہمیشہ
ہمیشہ کیلئے ان سے بچھڑ گئے، ان لوگوں کے مطابق اگرچہ بعد میں اس جھڑپ کو
فرضی قرار دیا گیا اور سپریم کورٹ میں بھی ’’سی، بی، آئی‘‘ نے اس بات کو
ثابت کیا کہ فوج کے ہاتھوں مارے گئے افراد عام شہری تھے نہ کہ چھٹی سنگھ
پورہ قتل عام میں ملوث ملی ٹینٹ لیکن اسکے باوجود بھی انہیں انصاف نہیں
ملا، جسکا انہیں بے حد رنج و ملال ہے۔بھلے ہی فوج نے پتھری بل فرضی
انکاؤنٹر کا کیس بند کیا ہو لیکن متاثرین کی ہمت ابھی نہیں ٹوٹی بلکہ 14
سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ انصاف کیلئے جنگ لڑنے کا حوصلہ رکھے
ہوئے ہیں اور انہوں نے پتھری بل کی 14ویں برسی کے موقعے پر براری انگن
شانگس گاؤں میں اس واقعہ کے حوالے سے خاموش احتجاج کیا، اس موقعے پر 42
سالہ جمہ خان، جسے جنگجو جتلاکر مارا گیا تھا، کے بیٹے رشید خان نے کہا کہ
فوج نے بھلے ہی اپنے افسروں کو جو اس واقعہ میں ملوث تھے، کو کلین چٹ دی
ہو، جنہوں نے 5 بے گناہ شہریوں کو قتل کردیا، ہم انصاف کیلئے لڑتے رہیں گے،
انہوں نے کہا کہ ان ہلاکتوں نے ہمارے دلوں پر جو زخم لگائے ہیں وہ 14 سال
گزرنے کے باوجود اب بھی تازہ ہیں، ہمیں اْن لوگوں سے انصاف کی امید نہیں
تھی جو خود اس واقعہ میں ملوث تھے، جمہ خان کا معاملہ 5 مارے گئے شہریوں کے
معاملے سے اس وجہ سے بھی منفرد ہے کیونکہ اس واقعہ کے ایک ہفتے بعد اْس کا
چھوٹا بیٹا رفیق احمد خان، جس کی عمر 16 سال تھی، 3 اپریل کو 2000ء کو اس
واقعہ کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے براکہ پورہ کے نزدیک پولیس ٹاسک فورس کے
ہاتھوں اندھا دھند مارا گیا، اس واقعہ میں 7 افراد مارے گئے تھے۔براری آنگن
میں کل اس واقعہ کے احتجاج میں متاثرین جمع ہوئے اور انہوں نے احتجاج کرتے
ہوئے انسانی حقوق تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ انہیں انصاف دلانے میں مدد کرے،
پتھری بل میں مارے گئے دیگر 4 افراد کے متاثرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ
آخری سانس تک انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد کریں گے، یہ واقعہ ہے 20 مارچ
2000ء کو چھٹی سنگھ پورہ قتل عام اور اس کے بعد 24 مارچ کے روز 5 معصوم
شہریوں کو پاکستانی جنگجو جتلاکر جاں بحق کرنے اور یکم اپریل کو ان ہلاکتوں
کے خلاف احتجاج کر نے والے لوگوں پر فائرنگ کر کے مزید 7 لوگوں کو ابدی
نیند سلانے کی ہے جو آج تک ہنوز معمہ بنی ہوئی ہے، نہ ہی چھٹی سنگھ پورہ
میں 35 سکھوں کے قتل عام میں ملوث اصل مجرموں کو پکڑا جاسکا ہے اور نہ اس
واقعہ کے فقط 4 روز بعد پتھری بل میں ایک فرضی جھڑپ کے دوران مارے گئے 5
شہریوں کے قاتلوں کو سزا دی گئی ہے، 14 برس گزر گئے لیکن متاثرین کو ابھی
تک انصاف فراہم نہیں ہوا، واضح رہے کہ قابض فوج نے پانچوں شہریوں کو چھٹی
سنگھ پورہ قتل عام میں ملوث ٹھہرا کر غیر ملکی جنگجو جتلاکر ہلاک کیا تھا
لیکن سچائی نہ چھپ سکی اور لوگوں نے فوج کے اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے
الزام لگایا کہ یہ پانچوں مقامی شہری ہیں جس کے بعد زبردست احتجاجی مظاہرے
ہوئے اور براکپورہ میں انہی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کر نے والے لوگوں پر
گولیوں کی بوچھاڑ کر کے مزید 8 لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔سابق وزیر
اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداﷲ کے دور میں ہوئی ان شہری ہلاکتوں کے خلاف زور دار
احتجاجی مظاہرے کئے گئے تھے جس کے بعد سخت عوامی دباؤ کے نتیجے میں جاں بحق
کئے گئے 5نوجوانوں کی نعشوں کو قبروں سے باہر نکالا گیا اور ان کی شناخت سے
یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے کوئی ایک بھی جنگجو یا جنگجویانہ سرگرمیوں
میں ملوث نہیں تھا ۔ مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی نے اپنی ابتدائی
تحقیقات کے بعد یہ واضح کیا کہ 25مارچ 2000کو پتھری بل اننت ناگ میں فوج کی
7راشٹریہ رائفل اور جموں و کشمیر پولیس کی مشترکہ کارروائی میں جو 5کشمیری
مارے گئے تھے وہ سبھی معصوم اور بے گناہ شہری تھے ۔ سی بی آئی نے اپنی
تحقیقات میں ریاستی پولیس کے اس وقت ایس ایس پی اننت ناگ فارو ق خان کے
علاوہ دیگر کئی پولیس افسروں کی طرف بھی انگلی اٹھائی ۔ سی بی آئی کی طرف
سے کی گئی تحقیقات کے بعد شہری ہلاکتوں کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی مرتب کی
گئی جس میں سی بی آئی نے فوج کے کئی سینئر افسروں کو بھی ملزمان کے کٹہرے
میں کھڑا کر دیا ۔ سانحہ پتھری بل کا معاملہ ریاستی ہائی کورٹ سے ہوتے ہوئے
سپریم کورٹ تک بھی پہنچا جبکہ عدالت عظمیٰ میں بھی سی بی آئی اپنے اس موقف
پر کاربند رہی کہ پتھری بل میں 5معصوم شہریوں کی ہلاکت میں فوج ملوث ہے
کیونکہ وہاں فرضی جھڑپ کا ڈرامہ رچایا گیا ۔ ریاستی عدالت عالیہ اور عدالت
عظمیٰ میں فوج کے قانونی مشیر اس بات کی دلیل دیتے رہے کہ افسپا کے تحت کسی
بھی طرح کی حقوق انسانی خلاف ورزی میں ملوث فوجی یا فورسز افسر اور اہلکار
کے خلاف سیویلین عدالت میں کیس زیر سماعت نہیں لایا جا سکتا ہے اور نہ
ریاستی سرکار کسی فوجی افسر یا اہلکار کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی عمل
میں لاسکتی ہے ۔ فوج کے قانونی مشیر اس بات میں کامیاب ہوگئے کہ پتھری بل
شہری ہلاکتوں کا معاملہ فوج نے اپنی تحویل میں لیا اور اس سلسلے میں فوجی
عدالت نے اپنی طرف سے معاملے کی سماعت شروع کر دی تاہم اس حساس ترین معاملے
کی سماعت ادھم پور میں قائم فوج کی شمالی کمان کے ہیڈ کوارٹر میں رکھی گئی
جبکہ مارے گئے 5شہریوں کے لواحقین کو اپنے بیانات قلمبند کرانے کیلئے فوجی
عدالت میں مدعو کیا جاتا رہا اور اس کی وجہ سے جب مذکورہ غم زدہ خاندان تنگ
آئے تو انہوں نے فوجی عدالت کا رخ کرنا ہی بند کر دیا ۔ پتھری بل سانحہ نے
ماہ جنوری 2014میں اس وقت ایک نیا موڑ لیا جب فوجی عدالت نے 5شہریوں کی
ہلاکت میں ملوث تمام فوجی افسران کو کلین چٹ دیتے ہوئے کیس کی فائل اور
سماعت بند کر دی ۔ 14سال قبل جن 5شہریوں کو فوج نے فرضی جھڑپ کے دوران ابدی
نیند سلا دیا تھا ، ان جاں بحق شہریوں کے لواحقین اور دیگر لوگوں نے ان
معصوم شہریوں کی 14ویں برسی کے موقعہ پر جامعہ مسجد براری آنگن اننت ناگ سے
ایک احتجاجی جلوس بر آمد کیا ۔ جلوس میں شامل لوگ فوج اور حکومت کے خلاف
نعرے بازی کر رہے تھے اور اس دوران قاتلوں کو سزا دو اور متاثرین کو انصاف
دو کے نعرے بھی بلند کئے گئے ۔ احتجاجی جلوس میں شامل لوگ براری آنگن میں
واقعہ قبرستان پہنچے جہاں انہوں نے 14سال قبل فرضی جھڑپ کے دوران مارے گئے
5شہریوں اور اس قبرستان میں دفن دیگر فوت شدگان کے حق میں اجتماعی فاتحہ
خوانی کی۔ پتھری بل کیس کی سماعت سے جموں و کشمیر کے عوام کو یہ واضح پیغام
دیا گیا کہ انہیں کبھی کسی معاملے میں انصاف نہیں مل سکتا ۔ سی بی آئی کی
تحقیقات اور مختلف عدالتوں میں پتھری بل کیس کی سماعت کے دوران بار بار یہ
بات ثابت ہوئی کہ 25مارچ2000کو فوج نے فرضی جھڑپ کے دوران جن5شہریوں کو جاں
بحق کیا تھا ، وہ تمام کے تمام معصوم اور بے گناہ شہری تھے ۔ سی بی آئی کی
تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سانحہ پتھری بل میں ملوث فوج کے افسر ملزم
ہیں لیکن اس کے باوجود فوج نے یکطرفہ فیصلہ لیتے ہوئے ملوث فوجی افسروں کو
کلین چٹ دے دی ۔ |