دنیا میں انصاف اب ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔مجرم سے ہمدردی
اور مظلوم سے بے پرواہی یہ عام ہوتا جارہا ہے۔کوئی کتنا بڑا جرم کرے اگر وہ
اعلیٰ خاندان یا اعلیٰ عہدے پر فائز رہ چکا ہے اس سے وہ انصاف نہیں کیا
جاتا جس انصاف کا حقدار وہ ہوتا ہے۔اور عام لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ سالہا
سال گزر جاتے ہیں لیکن مقدمہ کا فیصلہ ہی نہیں ہو کے دیتا۔دنیا کا عدالتی
نظام خصوصاٍ مسلمانوں میں جب اس رخ پر چلنے لگے تو انصاف کا بول بالا نہیں
ہو سکتا۔غیر مسلم تو جو انصاف کرتے ہیں وہ اپنے بنائے ہوئے اصول و ضوابط کے
مطابق کرتے ہیں ۔لیکن مسلمانوں کو تو جو قوانین دئے گئے ہیں وہ کتابی صورت
میں قرآن پاک میں موجود ہیں۔اگر ان قوانین پر صحیح طرح عمل کیا جائے تو کسی
قسم کی بے انصافی نہ ہو۔لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمارا عدالتی نظام
اسلامی ہے یا برطانوی ؟ اگر اسلامی ہے تو جو فیصلے اعلیٰ عدلیہ میں آتے ہیں
ان میں جن فیصلوں کے حو الے دئے جاتے ہیں کیا وہ اسلامی عدالتوں کے فیصلے
ہوتے ہیں؟آج کل ایک اہم ترین مقدمہ مشرف کا جو چل رہا ہے وہ بھی ہماری
عدالتوں کی کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے ۔مشرف کے وکیل تاخیری حربہ استعمال کر
رہے ہیں ۔ساتھ میں بیماری کا خصوصی اسلحہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔عدالت
بڑے صبر و تحمل سے ان تمام تماشوں کو صرف نظر کر تی رہی لیکن آخر کار مشرف
کے وکلاء کی ناگوار باتوں پر بھی عدالت نے کوئی سخت فیصلہ نہ کیا۔آخر کار
مشرف اپنی اکڑی گردن کو لچک دے کر عدالت میں پیش ہو گئے اور اپنا وکیل بھی
تبدیل کر لیا ۔عدالت نے ان کی اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا اورُ انھیں
اپنی بیمار ماں سے ملنے پر بھی کسی قسم کا اعتراض نہ کیا بلکہ ECL سے ان کا
نام نکالنے کے لئے ذمہ داری حکومت کی بتائی۔مشرف نے اپنے دور میں اعلیٰ
عدالتوں کے ججوں اور چیف جسٹسوں پر شدید دباؤ رکھا ۔اس دور میں جو ٹسل
عدلیہ اور مشرف کے درمیان چلی اس سے کون واقف نہیں۔اب مشرف نا سمجھی میں
ملک واپس آگئے تو ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات کا تانتا بندھ گیا۔مشرف
قوانین کے شکنجے میں جکڑتے گئے اور آخر کار لاکھ حیلوں بہانوں کے باوجود
انھیں عدالت میں پیش ہونا پڑا۔اپنے دور میں انھوں نے ججوں کو کچھ نہ سمجھا
اور وہ وقت بھی آگیا جب یہ خود ججوں کے سامنے پیش ہونے پر مجبور ہوئے۔ لیکن
ججوں نے نہ پچھلی باتوں کے پیش نظر انتقامی جذبہ رکھا نہ اس کو ناک کا
مسئلہ بنایابلکہ انصاف کے مطابق فیصلہ دیا اور انسانی ہمدردی کے جذبہ کو مد
نظر رکھتے ہوئے حکومت کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہے تو ECL سے ان کا نام
نکال دے اور ماں کی عیادت کی اجازت دے دے۔اب گیند حکومت کی کورٹ میں جاچکی
ہے۔اگر حکومت اسلامی نقطہ نظر سے دیکھے تو مشرف کا جرم کتنا بڑا ہے اور وہ
کسی رو رعائت کا حق دار ہے کہ نہیں اس کا فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے وہ اس
معاملہ میں ملک کے علماء اور مفتی حضرات سے مشورہ کر سکتی ہے۔اور اگر کوئی
نیا NRO ہونا ہے تو وہ دوسری بات ہے۔پھر تو عدالتوں کا کوئی کردار نہیں رہ
جائے گا۔اگر یہ فیصلہ عدالتوں میں ہونا ہے تو پھر حکومت کو عدالت سے ہی
رجوع کرنا چاہئے کہ اگر حکومت اجازت دے دے اور پھر مشرف عدالت کے بلانے پر
بھی واپس نہ آئیں تو کون ذمہ دار ہوگا۔پھر جن جن لوگوں اور خصو صاً معصوم
بچوں اور بچیوں کا جو قتل ہوا ہے کیا ان کے لواحقین کی آہ ان لوگوں پر نہیں
پڑے گی جو مشرف کو ملک سے باہر بھیج دینے کے ذمہ دار ہونگے۔بہر حال جو
طیارہ مشرف کو لینے کے لئے آیا تھا وہ تو واپس چلا گیا ۔اب اﷲ نے مشرف کی
قسمت میں کیا لکھا ہے مزید ذلت و رسوائی یا بس اب بہت ہوگئی اور اب لوٹ کے
بدھو گھر کو جاؤ۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔[email protected] فون
نمبر۔0321-4389839
|