امن کو ترستا شہر

23 مارچ جہاں پورے ملک کے لیے خوشی کا دن ہے، وہیں اس سال 23مارچ کو اہل کراچی کو یہ خوشی بھی نصیب ہوئی کہ شہر قائد میں کوئی شخص بھی ٹارگٹ کلنگ کا شکار نہیں ہوا اور کراچی میں ایک دن کا بھی ٹارگٹ کلنگ سے پاک گزر جانا کسی غنیمت سے کم نہیں ہے۔ قتل و غارت گری سے پاک دن قائد کے شہر کو کبھی کبھی ہی نصیب ہوتا ہے، کیونکہ بدامنی نے کراچی کے باسیوں کا جینا اجیرن کیا ہوا ہے۔ اس شہر بے اماں میں ہر وقت موت کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ روز نجانے کتنے لوگ اندھی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہر فرد اپنی آنکھوں میں سجے ڈھیروں سارے سپنوں کی تکمیل چاہتا ہے، لیکن ہر چڑھتے سورج کے ساتھ مزید تلخ ہوتے حالات تمام خواب چکنا چور کردیتے ہیں۔ بکھرتے خوابوں کایہ شہر برسوں سے قتل و غارت گری اور بے سکونی کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ ان حالات میں اگر یہاں صرف ایک دن بھی امن نصیب ہوجائے تو انہونی بات معلوم ہوتی ہے۔ کسی دور میں یہ شہر امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا، لیکن آج اس قدر بدامنی ہوچکی ہے کہ ٹارگٹ کلنگ سے پاک صرف ایک دن ہی نصیب ہوجانے پر بے انتہا خوشی محسوس ہوتی ہے،ماضی بتاتا ہے کہ کسی دور میں یہاں ہر دن ہی قتل و غارت گری اور بدامنی سے پاک ہوتا تھا، ہر طرف پیار و محبت کا دور دورہ تھا، جب بھی کراچی کا ذکر آتا تھا تو اس کی محبت، اخوت، وسعت دامانی اور بھائی چارے کا تصور ذہن میں ابھرتا تھا۔ نہ دن کو کوئی خوف ہوتا تھا اور نہ ہی رات کو کسی کا ڈر۔ اس شہر کے دن اور رات یکساں جاگتے تھے۔ یہاں کے فٹ پاتھ اور پارک دن میں لوگوں کے لیے آمد ورفت اور تفریح کے مواقع فراہم کرتے اور رات کو غریب اور مزدوروں کا آشیانہ بن جاتے تھے۔ شہر میں بس سکون ہی سکون تھا، بدامنی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔

قیام پاکستان کے وقت کراچی تین لاکھ آبادی کا ایک انتہائی پرسکون تجارتی مرکز تھا، بعدہندوستان اور ملک کے مختلف حصوں سے لاکھوں افراد نے کراچی میں پڑاﺅ ڈالا۔ قیام پاکستان کے وقت اس شہر نے اپنے دامن میں بے شمار مہاجرین کو پناہ دی۔ انصار اور مہاجر ایک دوسرے کے دست وبازو بنے، جس سے شہر کی رونقیں دو چند ہوئیں، شہر نے ترقی کی اور دنیا کے نصف درجن کے قریب عظیم شہروں میں اس کاشمار ہونے لگا۔ اس کے دامن وسعت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے کونے کونے سے لوگ یہاں آئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس شہر کی آبادی دو کروڑ کو چھونے لگی۔اس شہر نے ہمیشہ ایثار ومحبت کو فروغ دیا اور ہر آنے والے کو اپنے دامن میں پناہ دی۔ ملک بھر سے کراچی کا رخ کرنے والے رزق کے متلاشیوں کو اس شہر نے کبھی مایوس نہیں لوٹایا، ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں پناہ دی۔ بیشتر لوگ تلاش معاش کے لیے کراچی میں آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ کراچی میں پاکستان کی تقریباً ہر نسل اور ہر قوم کے لوگ آباد ہیں۔خداجانے اس شہر کو کس کی نظر بد لگ گئی، محبتوں کے شہر میں نفرتیںجنم لینے لگیں۔ روشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ جو شہر کبھی عروس البلاد کے نام سے مشہور تھا، ”شہروں کی دلہن“ زخموں سے چورچور اور لہولہان ہوگئی۔ ہر آنے والا دن ان زخموں میں اضافہ اور آتش فشاں بننے کی نوید سنانے لگا۔ اس کی سوگوار فضائیںآہ و بکا اور سسکیوں سے گونجنے لگیں، آشیانے ویران، بچے یتیم، بیویاں بیوہ اور ماﺅں کی آنکھیں تاریک ہونے لگیں۔ اب تو ہواﺅں میں تخریب کی ایک بو سی رچی بسی ہے، سرِراہ موت ننگا ناچ ناچتی ہے۔ دن میں تیرگی چھائی رہتی ہے اور سر شام ہی خوف کی حکمرانی قائم ہوجاتی ہے۔اسٹریٹ کرائم عروج پر ہےں۔ بھتہ مافیا اور لینڈ مافیا کا راج ہے۔خوف کے سائبان تلے زندگی گزارنے والے ہزاروں تاجر زیادہ تر سرمایہ کاری بیرون کراچی منتقل کرچکے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں ہزاروں گھروں کے چراغ گل ہوچکے ہیں۔ کراچی میں انسانی جان سمندر کے ساحل پہ بکھری ریت کے ذروں سے بھی ارزاں معلوم ہوتی ہے۔

کبھی کراچی کے نام سے روشنیوں، رونقوں اور رعنائیوں کا تصور انگڑائی لیتا تھا، آج کراچی کا نام سنتے ہی شعلوں میں لپٹی گاڑیوں، بے ہنگم برستی گولیوں، سائرن بجاتی ایمبولینسوں کا منظر نگاہوں میں ابھرتا ہے۔ کراچی کی صورتحال اس قدر ابتر اور ناگفتہ بہ ہوچکی ہے کہ بعض بستیاں صرف لسانی بنیادوں پر قائم ہیں۔ مختلف مافیاﺅں کی غیر قانونی سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے شہر پر قبضے کے رجحان نے بھی اس شہر کو بے اماں کیاہے۔ مافیاﺅں کے کارندے سیاسی جماعتوں کی صفوں میں گھس کرشہر میں مسائل کو دوچند کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کی اطلاعات کئی بار میڈیا پر آچکی ہےں اوربعض سیاسی ارکان اس بات کا اقرار بھی کرچکے ہیں ۔اب تو آئی ایس آئی کے افسران نے بھی واضح الفاظ میں بتادیا ہے کہ کراچی میں لاقانونیت اوربرائی کی ایک بڑی وجہ قانون شکن اور جرائم پیشہ عناصر کے سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط ہیں۔ کہاجا تا ہے کہ اس شہر میں نفرت کے بیج تو آمروں نے بوئے بعد میں ان بیجوں کو پانی دے کر تناور درخت سیاسی جماعتوں نے کیا ہے۔ یہاں سیاسی جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہیں۔ حالانکہ پوری دنیا کا یہ اصول ہے کہ جب قوم، ملک یا کسی شہر پر مشکل اور کڑا وقت آ جائے، اندرونی اور بیرونی سازشیں ہونے لگیں، سلامتی خطرے میں پڑجائے تو ان گمبھیر حالات میں تمام افراد، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر، کسی بھی جماعت، کسی بھی حلقے سے ہو متحد ہوجاتے ہیں۔ اپنے ذاتی مفادات اور لڑائی جھگڑوں کو ختم کردیتے ہیں، باہم مل بیٹھ کر غوروفکر کرتے ہیں، سوچتے ہیں اور ملک وملت کی تعمیر کرتے ہیں ، لیکن یہاں سارا معاملہ ہی الٹ ہے۔
موجودہ حالات میں کراچی کو امن کی انتہائی زیادہ ضرورت ہے۔اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا ہوا ہے ،روزانہ کی بنیادوں پر کثیرتعداد میں مجرموں کی گرفتاری کی اطلاعات بھی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں،اس کے باوجود جرائم وقتل وغارت گری کی شرح میں کوئی نمایاں کمی نظر نہیں آرہی، اس بدامنی کا سد باب کرنا ضروری ہے۔ یہاں امن کی فراہمی سب سے پہلے حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے، لیکن افسوس! حکومتیںبھی اپنے مفادات کی تلاش میں ہی سرگرداں نظر آتی ہےں۔یہاں قائم ہونے والی حکومتوں نے ہمیشہ اپنے فرائض سے پہلو تہی برتی اور کراچی میں امن کا مستقل قیام شاید کبھی حکومت کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں رہا۔ حکام مفادات کے مورچوں میں بیٹھے چین کی بانسری بجانے میں مصروف رہے۔ اس شہر کے لیے وسیع البنیاد ماسٹر پلان تیار نہیںکیاگیا،اگر کوئی ماسٹر پلان بنا اس پر عمل نہیں ہوا۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کراور تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر حقیقت پسندی، دانشمندی اور حب الوطنی کے ساتھ کراچی سے جرائم کا قلع قمع کرکے امن قائم کرے اورتمام سیاسی جماعتیں بھی اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرکے ہمیشہ کے لیے کراچی سے بدامنی کو ملیامیٹ کردیں اور امن کے قیام کا سبب بنیں۔ سب مل جل کر ہی کراچی میں امن قائم کرسکتے ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701276 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.