تحقیق کے مطابق سائنس دانوں کو
آج تک یہ سمجھ نہیں آسکی کہ انسان کا چہرہ شرم و حیا سے سرخ کیوں ہو جاتا
ہے؟ آنجہانی ڈارون نے اس کی وضاحت یوں کی تھی کہ جب ہم جھوٹ بولتے ہیں تو
ہمارا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے یعنی جھوٹ بولنا چونکہ ایک شرمناک فعل ہے اس لئے
مارے شرم کے چہرے کا سرخ ہونا لازمی ہے۔ ڈارون بیچارہ اپنی جگہ سچا تھا
لیکن اسے شائد اندازہ نہیں تھا اس کی یہ وضاحت ق لیگ کے سیاست دانوں،
پاکستانی ہیرووئینوں اور ہر سال حج کرنے والے ذخیرہ اندوزوں کے بارے میں
غیر تسلی بخش ثابت ہو گی کیونکہ ان تینوں قومیتوں کا چہرہ جھوٹ بولتے وقت
نہیں الٹا سچ بولتے وقت سرخ ہو جاتا ہے کیونکہ جھوٹ سے زیادہ ان کا سچ
شرمناک ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک سچ پچھلے دنوں شیر افگن نیازی نے ایک نجی ٹی۔
وی کے ٹاک شو میں بولا جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایک فوجی جرنیل کی
آمریت کا ساتھ دینے پر اب کسی قسم کی شرمندگی محسوس کرتے ہیں تو جوابا ً
مسٹر نیازی نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ انہیں کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں
اور یہ کہتے ہوئے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
سائنس دان توہم پرستی کا بھی کوئی ارتقائی تاریخی جواز فراہم نہیں کر سکے۔
یعنی کچھ ایسی غیر معمولی چیزیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا لیکن
پھر بھی انسان ان پر اعتقاد رکھتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ توہم پرستی سائنسی
اعتبار سے ناقابل فہم ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہمارے توہمات اس قدر مضحکہ
خیز ہیں کہ انہیں سائنس کی رو سے تو کیا جادو کی رو سے سمجھنا بھی مشکل ہے۔
مثلاً چڑیل کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کے پاؤں مڑے ہوتے ہیں حالانکہ فدوی
کے نزدیک یہ نشانی نہیں بلکہ کوئی پولیو نما بیماری ہے۔ اسی طرح کہا جاتا
ہے کہ بچوں کو خوشبو نہیں لگانی چاہئے ورنہ چڑیل چمٹ جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ خوشبو لگانے پر چڑیل صرف بچے کو کیوں چمٹتی ہے، اس کے باپ کو
کیوں نہیں؟ایک آخری مثال…کسی محلے میں کوئی فوت ہوگیا، جہاں میت کو غسل دیا
گیا اس جگہ گھر والوں نے ایک موم بتی جلا دی۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی تو
انہوں نے بتایا کہ چالیس دن تک مرنے والے کی روح اس جگہ آتی ہے اس لئے یہ
موم بتی جلائی گئی ہے۔ غالبا ً ان کا مطلب یہ تھا کہ موم بتی روح کو گائیڈ
کرنے کے لئے جلائی گئی ہے کہ کہیں روح، غسل والی جگہ بھول کر کسی اور کمرے
میں نہ آ گھسے۔ ویسے میں اگر ”روح“ ہوتا تو موم بتی سے زیادہ مجھے اس بات
کی خوشی ہوتی اگر گرمیوں میں میرے لئے لسی کا اہتمام کیا جاتا اور سردیوں
میں کافی کا … موم بتی کا میں نے اچار ڈالنا تھا!!!
ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے کہا تھا کہ خواب ہمارے تحت الشعور میں موجود
خواہشات کا اظہار ہوتے ہیں لیکن اس نظرئیے کو اکثر ماہرین نے مسترد کر دیا
اور ان کا کہنا ہے خواب ہمارے جذبات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہو سکتے ہیں
لیکن یہ کہ ہم اپنے خوابوں میں اتنی عجیب و غریب چیزیں کیوں دیکھتے ہیں؟ اس
بات کا ابھی تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا جا سکا ہے۔ اس سے پہلے میں بھی
خوابوں کی حقیقت کے حوالے سے فرائڈ صاحب کی تھیوری کو ہی مستند سمجھتا تھا
لیکن اب معلوم ہوا کہ بے سروپا خواب تاحال سائنس دانوں کے لئے معمہ ہیں۔
تاہم یہ بات طے ہے کہ ان مغربی سائنس دانوں کی نظر سے ”خزینہ حکمت، لاہور“
کا شائع کردہ”خواب نامہ“ نہیں گزرا ورنہ یہ گورے خوابوں کی گتھی بھی سلجھا
لیتے اور پھر جیسا کہ ہوتا آیا ہے ، یہ کارنامہ بھی اپنے کھاتے میں لکھ
ڈالتے۔ خواب نامہ، ہم اہل مشرق کی ایک فخریہ پیشکش ہے، خواب چاہے جیسا بھی
ہو، آ پ کو اس میں تعبیر مل جائے گی۔ چڑیا کا انڈا دیکھنا خوشی کی علامت ہے
لیکن بہت کم۔ پس ثابت ہوا کہ خواب دیکھتے وقت اس بات کا خاص خیال کرے کہ
انڈا مرغی کا ہے، بطخ کا یا چڑیا کا؟ ویسے مجھے ان سب میں فقط مرغی کے انڈے
کی پہچان ہے اور وہ بھی اس لئے کہ اسے تل کر کھانا میرا محبوب فعل ہے۔ اسی
طرح خواب میں انجن دیکھنا طاقت ور ہونے کی دلیل ہے جبکہ پوری ریل گاڑی
دیکھنے کا مطلب ہے کوئی عزیز سفر سے واپس آئے گا۔ عینک خریدنے کا مطلب ہے
کسی عالم کی صحبت حاصل ہوگی، عینک لگانے کا مطلب ہے انجینئر بنے گا، وکالت
پاس کرے گا یا ڈاکٹر یا پروفیسر وغیرہ بنے گا جبکہ عینک اتارنے کی تعبیر
عہدے سے معزول ہونا یا علم و ہنر سے کنارہ کش ہونا ہے۔ میں نے جب خوابوں کی
ان تعبیروں کا ذکر پرائمری فیل راجو بلیکی سے کیا تو اس نے خوش ہو کر کہا
کہ وہ متواتر تین دن سے یہ خواب دیکھ رہا ہے کہ اسے عینک لگ گئی ہے جس کا
مطلب ہے کہ وہ بھی عنقریب ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے گا۔ میں نے اسے یقین
دلایا کہ اگر وہ بھی کوٹ پینٹ پہن کر کوئی کلینک کھول کر بیٹھ جائے اور
کیبل پر دھڑا دھڑ اشتہارا ت دینا شروع کر دے تو نہ صرف لوگ اسے ڈاکٹر مان
لیں گے بلکہ کوئی سرکاری محکمہ بھی اس سے باز پرس نہیں کرے گا۔ بات راجو کے
دل کو لگی تاہم چند دن بعد ہی اس کا ارادہ بدل گیا، میں نے وجہ پوچھی تو
مایوسی سے بولا کہ اس نے خواب میں دیکھا ہے کہ اس کی عینک اتر گئی ہے۔
سائنس دان اب تک ہنسنے کی بھی کوئی ٹھوس وجہ نہیں جان سکے۔ ان کا کہنا ہے
جب ہم ہنستے ہیں تو ہمارے جسم کے اندر مزاج کو بہتر بنانے والے کیمیائی
مادے خارج ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم ہنسی کے بعد پھر مزید ہنستے ہیں۔
دس سال تک جاری رہنے والی ایک تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ ہم لطیفوں کی
نسبت فضول باتوں یا فقرے بازی پر زیادہ ہنستے ہیں۔ اس تحقیق سے قطع نظر،
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر کسی قسم کا کوئی لطیفہ، مزاحیہ گفتگو یا
فقرے بازی اثر نہیں کرتی۔ حتیٰ کہ قابل دست اندازی ایس۔ایم۔ایس بھی ان پر
کوئی اثر نہیں ڈالتی بلکہ الٹا ان کے چہرے کی کرختگی مزید نمایاں ہو جاتی
ہے۔ ایسے لوگ عموماً حکومت کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ میرے خیال
میں سائنس دانوں کو اس بات پر تحقیق کرنے کی بجائے کہ انسان کیوں ہنستا ہے،
اس بات پر تحقیق کرنی چاہئے کہ کوئی شخص کسی لطیفے یا مزاحیہ گفتگو پر کیوں
نہیں ہنستا؟ میرے نزدیک اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں، اول، جس شخص پر
جملہ کسا جاتا ہے، وہ نہیں ہنستا، دوم، مردہ شخص بھی نہیں ہنستا۔ خدا کا
شکر ہے کہ ہماری قوم ابھی اتنی مردہ نہیں ہوئی کہ کسی اچھے لطیفے یا فقرے
پر ہنسنا بھول جائے البتہ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جن باتوں پر ہمیں رونا چاہئے،
ہم ان باتوں کو بھی ہنسی میں اڑا دیتے ہیں ۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب
کسی سائنس دان کو نہیں بلکہ کسی ایسے سیاست دان کو دینا چاہئے جس کا چہرہ
آج کل کے دور میں بھی شرم و حیا سے سرخ ہو جاتا ہو!!!
|