خوش دلی زندہ دلی کا نام ہے اور
زندہ دلی زندگی کا نام ہے خوش دلی بظاہر تو بہت عام سا لفظ ہے لیکن اس میں
بہت خاص بات ہے اور بہت نایاب ہے خوش دلی کہیں سے خریدی جانے والی چیز نہیں
ہے اور نہ ہی زور زبر دستی سے کسی کو خوش دلی سکھائی جا سکتی ہے بلکہ خوش
دلی ایک ایسی عادت ایک جذبہ ہے جو خوشی کی طرح انسان کے اندر سے ہی پھوٹتی
ہے خوش دلی کی صفت وہ نعمت ہے جو کوئی کسی پر اپنی مرضی سے مسلط نہیں کر
سکتا بلکہ انسان کو یہ صفت خود اپنے اندر پیدا کرنا ہوتی ہے کوئی بھی انسان
جو اپنے اندر خوش دلی پیدا کرنا چاہتا ہے اسے خود ہی اپنے دامن میں خوش دلی
کی صفت پیدا کرنے کے لئے کچھ تھوڑا بہت تردد ضرور کرنا پڑتا ہے خوش دلی کی
صفت پانے کے لئے تردد کرنے کے لئے کہیں دور نہیں جانا پڑتا بلکہ یہ صفت تو
خود انسان کے اندر پہلے سے ہی موجود ہوتی ہے صرف اسے اپنے اندر سے تلاش کر
کے اسے اپنی زندگی اور اپنے ظاہری وجود پر ظاہر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے
خوش دلی کی یہ پوشیدہ صفت اپنے باطن سے ظاہر تک لانے کے لئے انسان کو تھوڑا
سا حقیقت پسند ہونا پڑتا ہے حقیقت پسندی انسان کو اطمینان قلب بخشتی ہے اور
اطمینان قلب بغیر یقین کے حاصل نہیں ہوتا جو دل ایمان اور یقین کے نور سے
معمور ہوجائے وہی مطمئین رہتا ہے اور دل کا یہی اطمینان انسان کو خوش دلی
کی نعمت عطا کرتا ہے خوش دلی اپنے اندر صبر برداشت اور تحمل کی صفت پیدا
کرنے سے بھی حاصل ہوتی ہے صبر اور برداشت کا تعلق بھی حقیقت پسندی اور یقین
سے ہے جب تک انسان حقائق کو پورے یقین سے تسلیم نہیں کرتا اس وقت تک نہ تو
اس کا دل کسی بات کو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی اسے کبھی اطمینان حاصل ہوتا
ہے یہی بے اطمینانی انسان کو بےچین رکھتی ہے اور یہ بےچینی بالآخر انسان کو
خوش دلی سے دور رکھتی ہے جبکہ حقیقت پسندی اور یقین انسان کے دل سے ہر قسم
کا خوف دور کرتا ہے اور بے خوف دل کبھی غیر مطمئین نہیں رہ سکتا زندگی میں
اطمینان ہو تو خوش دلی خود بخود ظاہر ہونے لگتی ہے
اپنے اندر ایمان یقین صبر تحمل برداشت اور حقیقت پسندی پیدا کرنے کا آسان
طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے اپنی زندگی میں در پیش معاملات زندگی یا متوقع
حالات و واقعات کے متعلق اپنی سوچ کا دائرہ وسیع اور مثبت رکھے زندگی کے
منفی کی بجائے مثبت پہلووں پر نظر رکھے دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو
اپنے اندر متضاد کیفیات و صفات لئے ہوئے ہیں لیکن کچھ لوگ زندگی کے تاریک
پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے خود کو ہر وقت اداسی پریشانی اور خوف میں
مبتلا رکھتے ہوئے خود کو خوش دلی سے دور رکھتے ہیں ایسے لوگ حقیقت سے نظر
چرانے والے کم ہمت ہوتے ہیں اور ہر وقت مایوسی کا شکار رہتے ہیں مایوسی
ایمان کی کمزوری کی علامت ہے اسی لئے مایوسی کفر سے قریب ہے مایوس اور کم
ہمت انسان زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا اور ناکام انسان کے اندر کبھی
خوش دلی پیدا نہیں ہو سکتی چنانچہ خوش دلی کے لئے خود کو مایوسی کے
اندھیروں سے نکال کر امید کی روشنی دکھانا ہوگی اور یہ روشنی انسان کے اپنے
دل کے نہاں خانے میں خوابیدہ ہے اسے اپنے ایمان کے نور کی کرنوں سے بیدار
کرنے والا شخص ہی خوش دلی کی نعمت سے اپنی زندگی پرلطف بنا سکتا ہے
اسی طرح زندگی کے مثبت پہلوؤں پر نظر رکھنے والے کی سوچ بھی مثبت اور ارادے
مضبوط ہوتے ہیں مثبت سوچ رکھنے والے انسان کو اگر کبھی زندگی میں ناکامی یا
مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے تو اس کا یقین اسے کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا
اور وہ ہر طرح کے حالات کے سامنے ڈٹ جاتا ہے اس یقین کے ساتھ کہ وہ اپنے
ایمان کی طاقت سے ہر مسئلے کا حل نکال سکتا ہے ہر مشکل کو آسان بنا سکتا ہے
وہ جانتا ہے کہ زندگی ایک منزل یا ایک راستے کا سفر نہیں ہے بلکہ یہ سفر در
سفر کی منزل ہے اور سفر میں مشکلیں تو آتی ہیں لیکن ان سے گھبرا کر پسپا ہو
جانا کسی بھی ایمان والے کی شان نہیں
خوش دلی کی متضاد ایک چیز بد دلی بھی ہے جس طرح امید اور مایوسی ایمان اور
کفر اسی طرح خوش دلی اور بد دلی کا رویہ بہت عام ہے بعض اوقات بیماری بھی
انسان کو زندگی سے بد دل اور خوش دلی سے دور رکھتی ہے اسی طرح موت کا خوف
بھی بیشتر انسانوں کو زندگی میں خوش دلی سے محروم رکھتا ہے ہر آن موت کا
دھڑکہ انسان کو خوش نہیں رہنے دیتا موت کی پریشانی اور خوف انسان کو خوفزدہ
و ہراساں اور بد دل بنائے رکھتا ہے
اس کے علاوہ چند لوگ ایسے بھی ہیں جو زندگی میں کئے جانے والے چھوٹے موٹے
کاموں سے ہی بد دل اور نالاں رہتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں کام کرنا
بالکل پسند نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کام کے بغیر انسان کا چارہ نہیں
اپنے لئے ہی کام کرنے کو بعض لوگ مصیبت یا بوجھ سمجھتے ہوئے کام کرتے ہیں
کام کو ناپسند کرنے کے باوجود کام کرنا پڑجائے تو ان کے چہرے سے افسردگی و
بد دلی صاف ظاہر ہوتی ہے اور کبھی ایسے لوگوں کو اچانک زیادہ کام کرنا پڑ
جائے تو ان کے غم و غصے کی انتہا نہیں رہتی اور وہ کام کو اپنی ذمہ داری
سمجھتے ہوئے خوش دلی سے نبھانے کی بجائے مصیبت سمجھتے ہیں چڑچڑاتے، بڑبراتے
بد دلی سے کام کرتے ہیں یہاں تک کہ اس دوران اگر کوئی ان کی مدد بھی کروانے
پر آمادہ ہو جائے یا کام کو بہتر طور پر انجام دینے کا نیک نیتی سے مشورہ
بھی دینا چاہے تو لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں کوئی نہ کوئی ایس بہانہ
تراشنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کام سے ان کی جان چھوٹ جائے
بد دلی کی یہ تمام علامات و صفات ایسے لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو حقیقت سے
دور ہیں جن کے دل ایمان سے خالی ہیں جو صرف زندگی سے اپنا حصہ بغیر کچھ کئے
زندگی کی قیمت چکائے بغیر حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہ دنیا دارالعمل ہے
یہاں انسان جو کچھ کرتا ہے اسی کا بدل پاتا ہے ہل چلائے بغیر فصلیں تیار
نہیں ہو جایا کرتیں انسان کو زندگی میں کچھ پانے کے لئے بہت کچھ کھونا بھی
پڑتا ہے اور بہت کچھ کرنا بھی پڑتا ہے جہاں تک بیماری کے باعث بد دل ہونے
کا تعلق ہے تو انسان کو اللہ کی ذات پر بھروسہ اور ہمت و مضبوط قوت ارادی
انسان کی آدھی بیماری کم کر دیتی ہے جبکہ مایوسی و بد دلی بیماری کے مختصر
عرصے کو بھی طویل کر دیتی ہے انسان کو خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کرنی
چاہیے اور بیماری میں بھی بیمار کے تیمار داروں اور خود مریض کو بھی خود کو
کوش رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے علاج کے ساتھ انسان کا مزاج بھی بیماری کے
علاج کو جلد ممکن بناتا ہے اور یہ یقین کہ بیمار کو شفا دینے والی ذات اللہ
تعالیٰ کی ہے تو بھلے ہی طبیب یا ملنے جلنے والے لوگ کچھ بھی کہتے رہیں
انسان کو مایوس یا بد دل نہیں ہونا چاہئیے اور بیماری میں بھی خود خوش
رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے
ایک مسلمان کے لئے تو خاص طور پر کسی قسم کے حالات میں مایوس نہیں ہونا
چاہیے موت تو ایک اٹل حقیقت ہے جو دنیا میں آیا ہے اسے دنیا سے جانا بھی ہے
بلکہ دنیا میں تو انسان آیا ہی مرنے کے لئے ہے ظاہری بات ہے انسان اس دنیا
مین ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا ایک خاص مدت کے لئے اور خاص مقصد کی تکمیل
کے لئے آیا ہے اور اپنے حصے کی زندگی گزار کر واپس وہیں بھیج دیا جائے گا
جہاں سے آیا تھا تو پھر موت کے خوف سے بد دل ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا موت
سے کسی کو فرار نہیں جب ہر ایک انسان اس حقیقت سے آگاہ ہے تو موت کا خوف
خود پر سوار رکھنا اور بد دلی کا شکار رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک
اللہ کا حکم نہ ہو موت آ نہیں سکتی اور جب اس کا حکم ہو جائے تو کوئی لاکھ
جتن کرتا رہے موت کو کوئی بھی نہیں ٹال سکتا موت کے خوف میں مبتلا رہنے سے
بہتر ہے کہ زندگی میں ایسے عمل کئے جائیں جن کا حکم بھی ہے اور جو موت کے
عمل کو آسان بنا دیں کہ انسان دنیا سے روتے پیٹتے بد دلی و مایوسی کے ساتھ
جانے کی بجائے خود کو اس قابل بنائے کہ اللہ کے حضور خوش دلی سے حاضر ہو
سکے انسان کائنات اور حیات کا علم حاصل کر کے ہی خود کو اس خود ساختہ خوف
سے نجات دلا سکتا ہے جو انسان کو خوش دلی سے دور رکھتا ہے اس کے علاوہ خود
انسان کے وجود کا مقصد کیا ہے انسان خود کیا ہے اسے دنیا میں کیوں بھیجا
گیا ہے انسان کو دنیا میں کیا کرنا چاہیے کیا نہیں کرنا چاہیے اور کیسے
کرنا چاہیے انسان کے لئے اس چیز کا علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے اور ہمارے
پاس تو علم کا وہ خزانہ موجود ہے کہ جس پر عمل انسان کے لئے تسخیر کائنات
کے راز عیاں کر سکتا ہے اگر انسان چاہے سچائی کو جان لیں حقیقت کو مان لیں
یقین کے ساتھ ایمان اور بندگی کے راستے پر قائم رہیں تو اس زندگی میں کوئی
خوف کوئی رنج کوئی مایوسی باقی نہ رہے زندگی زندہ دلی اور خوش دلی قائم رہے
گی |