آج کل ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں انتخابات کابگل بجتے ہی انتخابی گہما گہمی
اس قدر عروج پر پہنچ چکی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت مسلمانوں کو غدار قرار دے
کر ہندو ووٹوں کے حصول کے لئے مسلمانوں کے گلے کاٹنے کا اعلان کررہی ہے تو
کوئی مسلمانوں سے ہمدردی جتا کر ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
مختلف سیاسی جماعتیں رائے دہندگان کو مختلف طریقوں ‘ نعروں ‘ وعدوں اور
دعووں سے رجھانے کی کوشش کررہی ہیں۔ مسلم دشمنی کے حوالے سے شہرت پانے اور
مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردینے کے حوالے سے مشہور و معروف شیو سینا، بی
جے پی اور اسی قبیل کی دیگر سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر بقیہ سیاسی جماعتیں
اپنے سیکولر ہونے کا جس زور و شور سے ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں اس سے ظاہر ہوتا
ہے کہ مذہب و مسلک کوئی اہمیت نہیں رکھتا جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے لئے سرکاری سرپرستی میں اقلیتوں
کے ساتھ مظالم ڈھائے گئے اور آج بھی بے گناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے
ساتھ ساتھ مسلمانوں کا قتل عام کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر ان کا جس
طرح سے استحصال کیا جارہا ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اُدھر دوسری
طرف حزب مخالف سے حزب اقتدار تک ہر بھارتی جماعت سیکولر ہونے کی دعویدار ہے
اور یہ نام نہاد سیکولر جماعتیں ،مسلمانوں کو بار بار انتباہ دے رہی ہیں،
ڈرا رہی ہیں خوف دکھلا رہی ہیں کہ وہ متحد ہو کر انہی کو ووٹ دیں۔ اور ہر
سیکولر کہلانے والی سیاسی جماعتیں دوسری سیکولر جماعتوں پر فرقہ پرستی کا
الزام عائد کررہی ہیں جبکہ جوابی الزامات کا سلسلہ بھی جارہی ہے جس کی وجہ
سے عام مسلمان شش وپنج کا شکار ہے کہ وہ اس سیاسی جنگل میں کدھر جائے۔ کل
تک مسلمانوں کے خون کی پیاسی ساری سیاسی جماعتیں یکایک مسلمانوں کا دم
بھرنے لگی ہیں،ان کے مسائل گنا رہی ہیں، ان پر کئے گئے کاغذی احسانات کی
یاد دلا رہی ہیں، مسلمانوں کی بھلائی کی ترقی کی بہبود کی باتیں کہیں جارہی
ہیں، لیکن کوئی سیاسی جماعت اور بالخصوص کوئی سیکولر جماعت یہ بتانے کے لئے
تیار نہیں کہ وہ کتنے مسلمانوں کو پارلیمنٹ میں نمائندہ بنا کر بھیج رہی
ہے، ساری سیکولر جماعتیں ایک غیر تحریری دستور پر عمل کررہی ہیں کہ
مسلمانوں کی پارلیمنٹ و اسمبلی میں سے نمائندگی کو کم سے کم کیا جائے، تاکہ
مسلمانوں کو دل خوش وعدوں کے ذریعہ آئندہ برسوں تک بہلایا جائے اور ان کے
ووٹوں پر حکمرانی کی جائے،اور گزشتہ بیس برسوں سے یہ واضح طور نظر بھی آ
رہا ہے کہ بھارت کی تمام سیکولر جماعتیں شاید ایک غیر تحریری دستور پر عمل
کر رہی ہیں جس کی وجہ سے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی
تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے۔ستم کی بات بھی یہ ہے کہ مسلم ووٹ کے ذریعے برسر
اقتدار آنے والی سیاسی جماعتیں ہی مسلمانوں کی وفاداری پر شبہات کے اظہار
کے ساتھ ساتھ ان کا استحصال بھی کرتی ہیں اور انتہا پرست ہندو تنظیموں کو
مسلمانوں کے قتل عام کی چھوٹ دے کر مسلمانوں کی نسل کشی میں اپنا غیرمرئی
کردار بھی ادا کرتی ہیں جبکہ استحصال کا شکار مسلمانوں پر ہی یہ الزام بھی
عائد کیا جاتا ہے کہ وہ وفادار نہیں ہوتے ہیں اور فرقہ پرستی کو ترجیح دیتے
ہیں اگر واقعی مسلمان وفادار نہیں ہوتے یا فرقہ پرستی کو ترجیح دیتے تو
پارلیمنٹ اور اسمبلی میں مسلم نمائندوں کی تعداد یقینی طور پر ان کی آبادی
کے تناسب سے ہوتی یا پھر ہر ایک سیاسی جماعتوں کو مسلم ووٹوں کے حصول کے
لئے مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلمان امیدوار کو ٹکٹ دینا پڑتا مگر ایسا نہیں
ہے۔ یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ سیکولرازم کا دم بھرنے والی کوئی بھی سیاسی
جماعت انہیں پارلیمنٹ اوراسمبلی میں مسلمان اور ان کی نمائندگی منظور نہیں
البتہ انہیں مسلم ووٹ ضرور درکار ہیں ‘ وہ یہ نہیں چاہتی ہیں کہ مسلمانوں
کے نمائندے پارلیمنٹ کے ایوانوں میں پہنچیں اور مسلم مسائل پر آواز
اٹھائیں۔ ہر جماعتیں خود کو سیکولرکہلواتی ہیں اور جب سیکولرازم کے عملی
مظاہرہ کا وقت آتا ہے تب ان کو ڈرایا جاتا ہے دھمکایا جاتا ہے، خوف دلایا
جاتا ہے، فرقہ پرست جماعتوں سے فرقہ پرست قائدین سے۔ کہ ہمیں منتخب نہیں
کیا گیا تو ’’گجرات‘‘ بنیں گے۔ کیا ان تمام وجوہات سے یہ ثا بت ہوتا ہے کہ
بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ کوئی
امتیازی رویہ اختیار نہیں کیا جارہا ہے۔عوام کو سبز باغ دکھا کر اقتدار میں
آنے والوں نے مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔اب قوم کے پاس احتساب کا نادر
موقع ہے جسے ضائع کرنے کا مطلب ایک مرتبہ پھر ظالم اور کرپٹ لوگوں کو
اقتدار کی راہ دکھانا ہے۔
|