راجہ آفتاب
تعلیم ، سیاحت، صنعت، سائنس و ٹیکنالوجی، اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے مواقع
کے حوالے سے اسلامی دنیا میں ملائیشیا کا نام اور مقام اچھی خبر کے طور پر
جانا اور پہنچانا جاتا ہے مگر پاکستان میں موجود انسانی سمگلنگ میں ملوث
ایجنٹ مزدوروں سے لیکر دیگر تعلیم اور صلاحیتوں سے آراستہ افراد کو سنہرے
خواب دکھا کر ملائیشیا بھیجتے رہے ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن کو کوئی بھی
اپنے ملک کے لئے سودمند نہیں سمجھتا لیکن پاکستان کی طرح دیگر ممالک سے بھی
انسانی سمگلروں نے اپنے ہی ہم وطنوں کو سبز باغ دکھا کر ملائیشیا پہنچا دیا۔
دہشت گردی کی بچھائی گئی عالمی بساط کے خطرے کے پیش نظر ملائیشیا نے 10لاکھ
سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کیاتو 250پاکستانی بھی اس
آپریشن کی زد میں آکر گرفتار ہو گئے تھے۔
ویسے تو پاکستانیوں کو بیرون ملک اپنے سفارتخانوں سے شکایات ہی رہتی ہیں
اور ان میں بڑی حد تک سچائی بھی ہوتی ہے تاہم ملائیشیا میں پاکستانی ہائی
کمشنر اور کمیونٹی ویلفیئر اتاشی سید اظہر ہاشمی مصیبت کی اس گھڑی میں غیر
قانونی تارکین وطن اور ان کے عزیز و اقارب کی طرف سے خراج تحسین کے مستحق
قرار دیئے جا رہے ہیں کیونکہ ملائیشین حکومت اور پاکستانی سفارتخانے کے
درمیان طے پانے والے معاہدے سے اب 3ہزار سے زائد غیر قانونی مقیم
پاکستانیوں کی باعزت واپسی کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ پاکستانی ہائی کمیشن
کی درخواست پر ہی ملائیشین امیگریشن حکام نے دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے غیر
قانونی باشندوں پر فی کس جرمانہ ایک لاکھ روپے سے کم کرکے پندرہ ہزار روپے
کردیا ہے جبکہ ملائیشیا میں پھنسے ہوئے بارہ مریض اور 25خواتین اور بچوں
سمیت 100افراد پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشن کے بعد ملائیشیا میں مقیم ہزاروں غیر
قانونی پاکستانیوں میں سے کم و بیش 16سو نے پاکستانی ہائی کمیشن میں
درخواستیں جمع کرائی تھیں جن کی باعزت واپسی کیلئے کمیونٹی ویلفیئر اتاشی
سید اظہر ہاشمی نے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔
ملائیشین امیگریشن کی طرف سے گرفتار کئے گئے غیر قانونی مقیم محمد یوسف
نامی شخص پر فالج کا حملہ ہوا جس کے علاج معالجہ کے اخراجات حکومت پاکستان
نے 21ہزار رنگٹ (6لاکھ سے زائد پاکستانی روپے)ہسپتال میں جمع کروائے اور اس
کے کاغذات مکمل کر کے پاکستان واپسی کے اقدامات اٹھائے۔ جن گرفتار پاکستانی
تارکین وطن کو ملائیشیا کی عدالتوں نے قید اور جرمانوں کی سزائیں سنائی ہیں
وہ ملائیشیا کے قانون کے مطابق سزاؤں کے بعد ہی وطن واپس جا سکیں گے ۔
غیر قانونی کام اور قیام کسی بھی جگہ پر ہو اُس کے خلاف قانون تو حرکت میں
آتا ہی ہے تاہم ملائیشیا میں پاکستان کی قدرومنزلت اس کے سائنسدانوں کے
حوالے سے دل کھول کر کی جاتی ہے جس کی صرف ایک مثال 4مارچ 2013 کو ملائیشیا
کی سب سے بڑی جامعہ، یونیورسٹی ٹیکنالوجی مارامیں پروفیسر عطا الرحمن
تحقیقی ادارہ برائے قدرتی مرکبات کی دریافت کا افتتاح تھا۔ یہ ملائیشیا کی
سب سے بڑی جامعہ ہے جس کے 20 کیمپسوں میں تقریبا 2 لاکھ طلبہ زیرِ تعلیم
ہیں اور عالمی معیار کا تحقیقی ڈھانچہ تشکیل دینے کے عمل میں سرگرداں ہیں۔
اس تحقیقی ادارے کے قیام کا اعلان گزشتہ سال ملائیشیا کے بادشاہ سلطان میان
زین العابدین نے عالمِ اسلام بالخصوص پاکستان میں میرے سائنس و اعلی تعلیم
کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں اعزازی ڈگری برائے ڈاکٹریٹ آف سائنس کے
موقع پر کیا۔ 4مارچ کی شاندار افتتاحی تقریب امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، جاپان
اور دنیا بھر سے دیگر ممالک کے اعلی سائنسدانوں سے مزین تھی۔ بحیثیت مہمانِ
اعزازی مجھ خاکسار کیلئے یہ یقیناخوش نصیبی اور مسرت کا موقع تھا کیونکہ
عموما کسی تحقیقی ادارے کا کسی سائنسدان کی زندگی میں اس کے نام سے منسوب
ہونا ایک اچھوتی بات ہے۔ البتہ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ
ملائیشیا کیوں اسلامی ممالک کی کمیونٹی میں ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے جس
کی تقلید ہم سب کو کرنی چاہئے۔جدید ملائیشیا کے معمار ڈاکٹر مہاتیر محمد نے
ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم بننے کے فورا بعد مجھے اندازہ ہوا کہ
ملائیشیا کی اصل ترقی کا راز تعلیم میں پوشیدہ ہے لہذا حکومتِ ملائیشیا نے
فوری طور پر تعلیم پر زیادہ سے زیادہ بجٹ مختص کرنا شروع کر دیا جبکہ ایسا
کرنے کیلئے انہیں دوسرے شعبوں کی سرمایہ کاری میں کٹوتی کرنا پڑی۔ نتیجہ یہ
ہوا کہ ملائیشیا گزشتہ 30سالوں سے تعلیم پر30% بجٹ کی سرمایہ کاری کر رہا
ہے۔ |