شہر سے کچھ ہی دور ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس ایک چھوٹے سے
چند کجھوروں کے پتوں سے بنے چبوترے کے نیچے ایک استانی زمین پر بیٹھے کچھ
بچوں کو ان کے مستقبل کے متعلق آگاہ کر رہی تھی۔ بچوں کی ظاہری صورت ایس
تھی جسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ یہ بہت ہی غریب خاندان سے تعلق رکھتے
ہیں۔ جدید ترین سہولیات سے اور حکومت کے بڑے بڑے تعلیمی پروجیکٹ سے بے خبر
یہ بچے اور ان کی استانی اس قدر تعلیم سیکھنے سیکھانے میں مگن تھے کہ ان کو
پاس سے گزرنے والی گاڑیوں کی بھی پرواہ نہیں تھی۔ یہ منظر ایسا تھا جسے
دیکھ کر استانی کی ہمت اور بچوں کے لگن کو داد دینے اور اپنی حکومت کی
نااہلی پر افسوس کرنے کا دل کررہا تھا۔
علم حاصل کرنا ہر مسلمان مر د اور عورت پر فرض ہے ۔ علم شعور کی نت نئی
راہیں کھولتا ہے ۔ اور انسان کو صیح معنوں میں اشرف المخلوقات بناتا ہے۔
مسلمانوں کی علمی میدان میں تعلیمی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو بہت سے نا
مور اور محقق مسلمان سائنسدان روشن اور چمکتے ہوئے ستاروں کی مانند نظر آتے
ہیں۔ بوعلی سینا ، ابن الہثم،ڈاکٹر عبد السلام ،جابر بن حیان ،الفرابی ،عمر
خیام ، غزالی جیسے نامور اور مشہور سائنسدانوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔
اسلام نے ہمیشہ تحقیق اور سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی ہے تاکہ اﷲ تعالی کے
پوشیدہ رازوں کو علم اور تحقیق کی بدولت تلاش کیا جائے، مگر افسوس تو اس
بات کا ہے کہ جس بھی مسلم سائنس دان نے اس میدان میں عملی قدم اٹھایا وہ
بادشاہ وقت یا حکمرانوں کے زیر عتاب آیا۔ کسی کو نام نہاد مولویوں کے کہنے
پر جیل کی ہوا کھانی پڑی کسی کو زہر کا پیالہ پینا پڑا تو کوئی زندان میں
جاں بحق کر دیا گیا اور یوں علم کے سمندر کو روکنے کے لئے کمزور بند
باندھنے کی کوشش کی گئی۔
مگر آفرین ہے ان تمام بہادر اور جیالے علم کے پیاسے مسلم سائنسدانوں پر کہ
انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا، ان سائنسدانوں کی ابتدائی تحقیق اور علم کو
لے کر ہی انگریزوں نے اس پر مزید تجربات کئے اور پھر اس میں ترقی کرتے چلے
گئے ۔
موجودہ دور میں مسلمانوں کے زوال اور پستی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علم کے
حصول کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور جو علم اور تعلیم ان کو دی جارہی ہے وہ
ترقی کی منزلیں طے کرنے کی بجائے ان کو پستی کی طرف دھکیل رہی ہے ۔ تعلیم
کے حصول میں سب سے بڑی روکاوٹ وہ طبقاتی تقسیم ہے جو ذہین اور محنتی طالب
علموں کے لئے زہر قاتل بن چکی ہے ۔ جو طالب علم محنت کرنا اور پڑھنا جانتا
ہے اور اس کا شوق بھی رکھتا ہے اس کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کو اسکول
میسر نہیں اسکول ہے تو چھت کے بغیر۔
ظلم کی انتہا دیکھیں کہ پنجاب اور سندھ کے دور افتادہ گاؤں ، گوٹھوں میں کہ
جہاں بچے علم کا شوق رکھتے ہیں ان کو نبیادی سہولت ہی میسر نہیں ہے۔ شدید
اورتلملاتی دھوپ میں کھلے آسمان تلے علم کی پیاس بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں
۔بارش ہوجائے تو کھلے آسمان کے نیچے پرچے حل کر رہے ہوتے ہیں ۔ کہیں وڈیرے
اور چوہدری یا پھر بااثر افراد سرکاری اسکولوں پر قبضہ جما لیتے ہیں اور
پھر ان اسکولوں میں جانور بندھے نظر آتے ہیں اور اگر کہیں کو ئی پرائیوٹ
اسکول اچھی کار کردگی دکھا رہا ہوتا ہے تو حکومت اس پر قابض ہوجاتی ہے اور
یوں اس اسکول کی کارکردگی سرکاری فائلوں کی طرح دبتی چلی جاتی ہے۔
اگر بات کی جائے شہری اسکول اور ماحول کی تو یہاں تو بات ہی عجب اور نرالی
ہے۔ طالب علموں کو بہتر سے بہتر سہولیات میسر ہیں، بلکہ اکثر اسکولوں میں
تو وی آئی پی کلچر کی جھلک نظر آتی ہے۔ مگر وہاں پڑھائی کا جو حال ہے وہ
افسوسناک حد تک مایوس کن ہے۔ کند ذہن طالب علم سارا سال غیر نصابی سرگرمیوں
میں مصروف رہتے ہیں۔ کلاس سے غائب رہتے ہیں اور پھر امتحان کے دنوں میں
بوٹی مافیا کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ کہیں پرچہ آؤٹ ہو جاتا ہے تو کہیں
پورے کا پورا حل شدہ پرچہ مہنگے داموں فروخت ہورہا ہوتا ہے۔
ادھر پنجاب حکومت نے یوتھ فیسٹویل کے نام پر طالب علموں کا بہت سا قیمتی
وقت ضائع کیا۔ مضحکہ خیز یا افسوسناک پہلو اس سب ڈرامے کا یہ ہے کہ ایک
حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ تمام بنائے جانے والے
ورلڈریکارڈز دھوکہ دہی اور فراڈ تھے جعلی غیرملکی نمائندے بنا کرعوام کے
سامنے پیش کیے گئے اور یوں ایک بڑا فراڈ عوام اور ان تمام طالب علموں کے
ساتھ کیا گیا جو اس یوتھ فیسٹویل میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ شریک تھے اور
ملک سے محبت کا جذبہ لئے ہوئے تھے۔ آخر کوئی تو سوچے کہ جس ملک میں تعلیم
اور کھیل محض ایک مذاق بن کر رہ جائے وہ قوم کیسے ترقی کی منزلیں طے کر
سکتی ہے۔؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید حکومت کے پاس بھی نہیں ہے،
اس لیے کہ حکومت تعلیم کو عام کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی، اس سارے گورکھ
دھندے میں حکومت یا اس کے نمائندے بھی ملوث نظر آتے ہیں۔ اب تویہ کہنا بجا
ہے کہ اس ملک میں تعلیم کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ |