بد قسمتی سے پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے
جہاں خواندگی کا تناسب تشویشناک حد تک کم ہے اور لازمی پرائمری تعلیم
بدستور خواب بنی ہوئی ہے‘ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 5 سال سے
19 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد 7 کروڑ ہے جن میں صرف 27 فیصد اسکول یا
کالج جاتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں کروڑوں بچے تعلیم سے محروم
ہیں اور سڑکوں پر پھر رہے ہیں۔ ایک جانب اسکول جانے والے بچوں کی تعداد
تشویشناک حد تک کم ہے تو دوسری جانب تعلیم ادھوری چھوڑنے والوں کی تعداد
بھی بڑھ رہی ہے۔ لازمی پرائمری تعلیم کے مقاصد آج تک حاصل نہیں ہو سکے
حالانکہ پہلی جماعت سے میٹرک تک تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہے لیکن ایسا
لگتا ہے تعلیم کا شعبہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔۔۔عالیشان
عمارتیں دانش سے عاری ہوں تو پیسے کے ضیاع کی جواب دہی کس سے ہو گی
۔۔تعلیمی ترقی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی کا فقرہ سن سن کر کان پک
گئے ہیں اب مذید سننے کی ہمت نہیں ،مادری زبان میں پرائمری تعلیم دی جائے
،پرائمری سکولوں میں صرف خواتین عملہ تعینات کیا جائے ،چار سال کا معصوم
ہاتھ میں ڈنڈا پکڑے مونچھوں کو تاؤ دیتا استاد دیکھ کر کلاس روم کو
دارالامن سمجھے گا۔۔ نہیں۔۔ بھاگ جائے گا ، معصوموں نے خوف کی چادر اوڑھ لی
تو حال رہے گا نہ مستقبل۔۔۔۔بہتر ماحول ہی بہتر زندگی کی ضمانت ہے تو پھر
نئی نسل کو بگاڑنے ،سکولوں سے بھاگ جانے کی روایت ختم کرنے اور ہر سطح پر
تعلیم کو عام کرنے کے لیے آرٹیکل 25 اے کو قانون میں بدل دینے کے لیے میڈیا
اپنا بھر پور کردار ادا کرے اسی میں پاکستان کی بہتری ہے اور ہم سب کی
بھی۔۔۔ملک عزیز میں ایسا نظام تعلیم ہونا چاہئے جس سے تحقیقی کام کو فروغ
مل سکے ۔ اب دنیا تعلیم کی اہمیت کو سمجھ چکی ہے جن ممالک نے تعلیم کے فروغ
میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگئے ہیں ۔
18 ویں ترمیم کے بعد اب صوبوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تعلیم
کے فروغ کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں ۔ ہمارے پڑوسی ممالک تعلیم پر ہم سے
کئی گنا زیادہ خرچ کررہے ہیں ۔ چین جی ڈی پی کا 8 فیصد، بھارت 7 فیصد اور
بنگلہ دیش 6 فیصد خرچ کررہا ہے۔ جن ممالک نے انسانی ترقی کو اپنا نصب العین
بنایا ہے ان کی شرح خواندگی خود ہی بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے کیونکہ انسانی
ترقی کا براہ راست تعلق تعلیم اور صحت کے شعبوں سے ہے۔ناخواندگی سے قوموں
کی ترقی رک جاتی ہے اور تنزلی کا سفر شروع ہو جاتا ہے جبکہ تعلیم یافتہ
اقوام پروقار معاشروں کی علامت ہوتی ہیں۔ تعلیم کے فروغ کے لئے میڈیا کو
اہم کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ الیکٹرانک میڈیا کی ترقی کے بعد پیغامات کی
ترسیل تیز تر ہوگئی ہے۔معیار تعلیم میں بہتری اور فروغ کے لئے جی ڈی پی میں
خاطر خواہ اضافہ کرنے کے ساتھ تحقیقی کاموں پر توجہ دینا ہوگی۔ ترقی یافتہ
اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان بنیادی فرق تعلیم کا ہے اور جن ممالک نے
انسانی ترقی کو نصب العین بنایا ہے وہ دوسروں سے آگے نکل گئے ہیں……معیاری
تعلیم کے فروغ میں پاکستانی میڈیا اپنا کردار ادا کر کے معاشرے کے پسماندہ
طبقات میں موجود معاشی تفریق کو کم کر سکتا ہے۔معیاری تعلیم طلباء کی سوچ
اور زندگی میں کامیابی کے امکانات کو روشن کرتی ہے۔ ان باتوں پر اتفاق
’’علم و آگاہی ‘‘ کے موضوع پر ہونے والی تعلیمی صحافت کی ورکشاپ میں شرکاء
نے کیا۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ صحافت کے میدان میں نئے آنے والے
لوگوں کو تعلیم کی اہمیت کو عوام میں اجاگر کرنا چاہیے کیونکہ تعلیم ہی
ترقی و کامیابی کی کنجی ہے۔ ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد مشعل پاکستان نے علم
آئیڈیاز(برطانوی ترقیاتی ادارہ کے3سالہ پروگرام)کے تحت کیا تھا جس میں
مختلف پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے50سے زیادہ صحافیو ں نے شرکت کی ۔ اس ایک
روزہ سیشن میں سابق ایم ڈی اے پی پی ریاض خان نے اپنے صحافتی کیرئیر میں
پیش آنے والے و اقعات کو خوبصورت لہجے میں بیان کرکے ماحول کو بوریت سے بچا
لیا ……احتشام صاحب کی صحافت اور تعلیم پر مضبوط گرفت سے بھی شرکاء کو خاطر
خوا فیض حاصل ہوا…… تعلیمی شعبے میں پالیسی ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے میڈیا کے
کردارپر نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں میڈیا سائینسز کے
چیئر مین پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال نے کہاکہ تعلیمی پالیسی وضع کرنے میں
میڈیاکا کردار انتہائی کلیدی ہے ۔ انہوں نے تعلیمی شعبہ میں پالیسی سازوں
کی سستی پر تشویش کا اظہار کیا ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر پرائمری سطح
پر بہت سے ایسے گھمبیر مسائل ہیں جہاں پالیسی سازوں کو خاص طور پر توجہ
دینے کی ضرورت ہے۔علم و آگاہی کے پروگرام مینیجرآصف فاروقی نے اس پروگرام
کی نمایاں خصوصیات بتاتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ صحافیوں کے
لیے لرننگ پلیٹ فارم کے طور پر ایک آن لائن ویب سائٹ بنائی جارہی ہے۔جس میں
تعلیم کے مسائل پر موجودمواد کو صحافی حوالے کے طور پر استعمال کر سکتے
ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تعلیمی صحافت کو فروغ دینے کے لیے مشعل
2014کے سالانہ آگاہی ایوارڈمیں تعلیم کے موضوع پر مختلف کیٹیگریز متعارف
کروا رہی ہے۔اثر (ASER) کی نمائندگی کرتے ہوئے زائنہ گیلانی نے اجلاس کے
شرکاء کو اثر کے حاصل کردہ نتائج سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اثرپاکستان
کے قومی سروے 2013 کے مطابق 5سے 16 کی عمرکے 21.1 فیصد بچے ابھی تک سکول کی
سہولت سے محروم ہیں ۔سکولوں میں داخلے کے حوالے سے اسلام آباد (آئی سی ٹی
)کی کارکردگی انتہائی حوصلہ افزاء ہے جہاں 6سے 16سال کی عمرکے 95.1فیصد بچے
سکول جاتے ہیں صرف 4.9 فیصد بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔ تاہم جنسی تضاد
یہاں بھی موجود ہے .۔ گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کا
تناسب بالترتیب 57فیصد، 43فیصد اور 61فیصد ،39فیصد ہے ۔ اسی طرح تین بنیادی
زبانوں یعنی اردو، انگلش اور Arithmetic میں پانچویں کلاس تک بچوں کے
سیکھنے کی سطح بالترتیب61.5 فیصد، 60.4فیصداور 51فیصد ہے ۔ بچوں کی تعلیم
کو والدین کی تعلیم سے بھی وابستہ کیا جاسکتاہے خاص طور پر اسلام آبادمیں
سکول کی سطح پر پانچویں تک تعلیم میں 62فیصد ماؤں اور 81فیصد والدنے حاصل
کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ علم وآگاہی اقدام کے ذریعے پاکستان کے مختلف
شہروں میں تعلیمی صحافت پر ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے گا ان ورکشاپس کا
مقصد صحافیوں کی استعدادکار کو بہتر بنا کر تعلیم کے مسائل کو میڈیا میں
اجاگر کرنا ہے ہر علاقے سے 30صحافیوں کو ایک ورکشاپ کے لیے منتخب کیا جائے
گاتاکہ تعلیم کے شعبے کے اہم مسائل کی نشاندہی کر کے ان مسائل کی تفہیم کو
بہتر بنا یاجا ئے اور ان مسائل پر رپورٹنگ کرتے وقت کمیونٹی کے نقظہء نظر
اور دیگر عوامل کو بھی مدِنظر رکھا جائے۔مشعل پاکستان بین الاقوامی میڈیا
کی اخلاقیات کے لیے مرکز اور عالمی اقتصادی فورم کے عالمی مسابقتی اور بنچ
ما رکنگ نیٹ ورک کا شریک ادارہ ہے، مشعل بنیادی صحت اور تعلیم سمیت پاکستان
کو در پیش مسابقتی چیلنجز کی شناخت کرنے میں فورم کی معاونت کرتاہے۔ اور یہ
بات حقیقت ہے کہ میڈیا کے تعاون سے ہی تعلیمی انقلاب برپا کیا جا سکتا
ہے۔آئیے عہد کریں کہ تعلیم سے متعلق خبر کو بھی اس کی اہمیت و افادیت کے
برابر جگہ دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے……
|