ان دنوں بھی ہمیشہ کی طرح پاکستان کے معاشی حالات بہتر
دکھائی دیتے نظر نہیں آ رہے ،ملک کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری ،دہشت گردی
اور اس طرح کے کئی مسائل نے گھیر رکھا ہے۔پاکستان کی تقریبا40 فی صدآبادی
انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔انہی غریب لوگوں میں اکثریت توایسے
ہے جو بھیک مانگنے کوہی اپنا پیشہ ہ بنا چکے ہیں۔یہ لوگ اتنے بھی گئے گزرے
نہیں ہوتے کہ دو وقت کی روٹی کے لیے تگ و دور نہ کر سکیں مگر بھیک مانگنے
سے بغیر کچھ محنت کیے روزانہ کئی سو اکھٹے کر لیے جاتے ہیں اسی طرح انہیں
عادت سی ہو گئی ہے کہ بغیر محنت کیے پیسے کمائیں جائیں۔ بھیک مانگنا ان
بھگاریوں کے لیے سب سے آسان حل ہے جو آج کل یہ کر رہے ہیں۔
سڑک،چوک،بس سٹاپ،سکول،کالج،شاپنگ سینٹرز،ریسٹورینٹس اور اسی طرح کی دوسری
جگہوں پر بھکاری بہت زیادہ تعداد میں دیکھے جاتے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے
لوگوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔مختلف طریقوں سے لوگوں کو بیوقوف بنا کر یہ
لوگوں سے پیسہ نکلوا رہے ہو تے ہیں کوئی اپنی بیماری کا سرٹیفیکیٹ دکھاتا
ہے تو کسی نے معذور کا سہارا لیا ہوتا ہے اور اسی طرح کے ملتے جلتے بہانے
بنا کر عام لوگوں سے پیسہ نکلوانے کے لیے ان کی آنکھوں میں جھوٹ،مکاری اور
جذباتی بلیک میلنگ کی جھلک نمایاں دیکھی جاسکتی ہے۔اس طرح کی حرکتوں سے
بھکاری یومیہ دو سو سے چھ سو تک کما لیتے ہیں جبکہ رمضان اور عیدیں پر ان
کی چاندی ہو جاتی ہے۔
اب اگر بھکاری بچوں کی بات کی جائے جو اپنی پڑھائی کی عمر سے ہی اس کام میں
لگ جاتے ہیں اور پڑھائی کو ترک کر دیتے ہیں کیونکہ ان بچوں کو سکھایا ہی
یہی جاتا ہے کہ جاؤ اور بھیک مانگ کر رقم اکھٹی کر کے لے آؤ۔ان بچوں کو
شروع سے ہی سکول جانے کی تربیت نہیں دے جاتی اور ان کے بڑے اپنے ساتھ بھیک
مانگنے کے لئے ساتھ لے جاتے ہیں اور بعد میں جب بچہ اکیلا سڑک پر جانے لگتا
ہے تو اسکو مانگنے کی عادت پختہ ہوجاتی ہے-
کیونکہ بھیک مانگنے کو یہ لوگ بہتر سمجھتے ہیں بجائے اس کے کہ محنت کر کے
روزی کمائی جائے۔بھکاریوں کی ایک مافیا اس کام کو پھیلانے میں اہم کردار
ادا کر رہی ہے جو بچوں سے بھیک منگوا کر ان کے جمع شدہ رقم کاصرف 5%دیتی ہے
جرائم پیشہ لوگ بچوں کو اغوا کر کے مختلف شہروں میں لے جا کر بھیک منگواتے
ہے جیسے 2012 میں کراچی سے 2317بچوں کو اغوا کیا گیا جن میں سے صرف 16 فیصد
ہی بازیاب کرائے جا سکے اسی طرح یقیناباقی بچے بھیک مانگنے جیسا گھٹیا کام
کرتے ہوں گے ۔ اس لیئے کہ یہ معصوم بچے اب ان ظالموں کے رحم و کرم پر ہوتے
ہیں ۔
حکومت وقت کا یہ فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔ بھیک
مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور عوام الناس کو بھی اس بات کا خیال
رکھنا چاہیے کہ صرف ضرورت مندوں کی ہی مدد کی جائے ۔ اس کا سب سے بہتر حل
تو یہ ہے کہ اپنے اردگرد موجود غریب اور بے سہارا لوگوں کے بارے میں
معلومات رکھیں اور بوقت ضرورت دل کھول کر ان کی مدد کریں ۔۔ اسلام میں بھی
محنت کر کے روزی کمانے پر زور دیا گیا ہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ عوام الناس
اس اہم مسئلے کو سمجھے اور بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان
کو بھیک دینا بند کر دیں ۔شاید یہی اس مسئلے کا واحد حل ہے ۔ |