القدس کا حق دار کون؟۔۔یہودی یا مسلمان

جب ہم عالم اسلام پر سرسری نگاہ ڈالتے ہیں، تو اس کے درمیان اسرائیل ہمیں ایک اجنبی حصہ نظر آتا ہے، یوں لگتا ہے کہ اس عظیم اسلامی جسد میں گویا یہ ٹکڑا بتکلف جوڑ دیا گیاہے۔ اس ٹکڑے کو اس طرح جوڑنا یہود ہی کا کارنامہ ہے، چونکہ ہرجسم کا اپنے اندر غیر کو برداشت نہ کرنا ایک منطقی عمل ہے، اس لئے اس علاقے میں کشیدگی کے اصل سبب کا اندازہ لگانا کسی کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔

آج سے تقریباً ستر سال قبل اسرائیل کے روحانی پیشوا ’’ٹیوڈر ہرٹزل‘‘ نے اپنے اُن مشہور افکار وخیالات کا نقشہ پیش کیا تھا جس میں یہود کے لئے ایک علیحدہ ملک کا ذکر ہے اور یہ بھی مذکور ہے کہ اس کا نام اسرائیل ہوگا۔ جس میں زراعت و صنعت کو جدید سائنسی اور ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا جائے گا۔ اور معاشرتی نظم و ضبط کا نہایت اہتمام ہوگا۔ اس کے علاوہ کئی اور جزئیات بھی ہیں جن کو انتہائی غور وغوض اور بالغ نظری سے مرتب کیا گیا ہے۔ جن کا مطالعہ کرنے والا تعجب کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن قابل توجہ بات کا تذکرہ ان جزئیات وافکار میں عمداً یا سہواً رہ گیا ہے۔ حالانکہ وہ ایک اہم جزو ہے، وہ ہے وہاں کے حقیقی عرب باشندوں کا مقابلہ و مقاومت۔ ’’ھرٹزل‘‘ کاخیال یہ ہے کہ یہ یہودی ملک قائم رہ کر آرام آرام سے پھیلتا رہے گا، اور یہ کہ اس کی فوجی قوت کسی کو ضرر نہیں پہنچائے گی اور نہ ہی کسی سے کچھ قبضہ کرنے کی جسارت کرے گی۔ اور نہ ہی کسی پر ظلم ڈھائے گی۔ گویا کہ اس کے ارد گرد خلا ہوگا، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، اس لئے کہ مقاومت ومقابلہ کا عنصر تو ہر جگہ پایا جاتا ہے جس کے اثرات کبھی کبھی نہایت ہی گہرے ہوتے ہیں، جس سے ملکی سیاست پر اثرات تو مرتب ہوتے ہی ہیں، بلکہ گاہے بگاہے ملک کو آخری انجام تک پہنچانے میں ان کا اہم کردار ہوتاہے۔

یگانۂ روزگار شہر
القدس کوئی معمولی شہر نہیں ہے، بلکہ یہ تو پورے روئے زمین پر ایک یگانۂ روزگار اور یکتا شہر ہے کیونکہ یہ تینوں بڑے سماوی ادیان کے لئے یکساں مقدس و محترم ہے، اور تینوں کی یہاں مقدس عبادت گاہیں موجود ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے جب کسی ایک اہل دین کے پاس یہ شہر رہے تو وہ کون ہوں گے، جو اس کے تمام ادیان کے لئے یکسانیت اور ہمہ گیریت کی حیثیت کو برقرار رکھ سکیں گے؟

نظریاتی، علمی اور تاریخی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ کام ماضی میں مسلمانوں اور صرف مسلمانوں نے کیا ہے اور اب بھی اس کی یہ حیثیت صرف مسلمان ہی برقرار رکھ سکتے ہیں۔

نظریاتی اور اعتقادی تناظر تو یہ ہے کہ مسلمان حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان پر نازل شدہ کتابوں (توریت و انجیل) پر ایمان رکھتے ہیں، جب کہ دوسری جانب یہودی اور عیسائی حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب قرآن مجید پر یقین نہیں رکھتے۔ اس جامعیت کی بناء پر مسلمانوں کو یہود اور نصاریٰ سے اس معاملے میں سبقت اور فوقیت حاصل ہے۔

عملی تناظر سے اگر دیکھا جائے تو بات اور زیادہ کھل کر سامنے آجاتی ہے، اور وہ اس طرح کہ القدس شہر عالم اسلام کے وسط یعنی قلب میں واقع ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ چاروں طرف کوئی اور نظام ہو اور درمیان میں اس کا بالکل مخالف نظام داخل کردیاجائے، تو اس کا چلنا صرف اور صرف طاقت سے ہی ممکن ہے، طبعی طور پر محال ہے اور جب طاقت کا استعمال ہوگا تو اس متاثرہ علاقہ میں ہمیشہ بدامنی رہے گی۔ اس پر تاریخ بھی شاہد ہے۔

اسلام دینی آزادی کاحامل ہے
القدس شہر تمام ادیان کے ماننے والوں کے لئے اسلامی دور خلافت میں کھلا رکھا گیا، اس دور میں یہود ونصاریٰ کو یہاں کوئی گزند نہیں پہنچی اور نہ ہی مسلمانوں نے یہاں کبھی خون کی ہولی کھیلی۔ اس کے برعکس جب بھی اسلامی حکومت سے القدس چھینا گیا ، ساتھ ہی آزادی وحریت کے نام کو یہاں شجرۂ ممنوعہ قرار دیا گیا۔ تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان حقائق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو واقعات کی صورت میں یہاں رونما ہوئے۔

دو مرتبہ القدس عالم اسلام سے کٹ کر یہود و نصاریٰ کے خونی پنجوں میں گرفتار ہوا ہے۔

۱۰۹۹ء میں اس پر نصاری صلیبیوں نے حملہ کرکے قبضہ جمالیا، جو مسلسل ۱۱۸۷ء تک رہا۔
اب حالیہ قبضہ یہودی صہیونیوں کا قائم ہے۔

اب ذرا آئیے! برٹش انسائیکلوپیڈیا کی چند سطور کا مطالعہ کرتے ہیں، جن میں صلیبی جنگ اول میں نصاریٰ کے القدس پر حملے اور قبضے کا ان الفاظ میں ذکر ہے ’’ایک ماہ کے طویل محاصرے کے بعد ۱۵ جولائی ۱۰۹۹ء کو نصاریٰ نے القدس پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ جس کے بعد شہر کی سڑکوں، اور گلیوں میں مسلمانوں کے خون کا ایک سیلاب رواں تھا۔ جوں ہی رات ہوئی تو نصاری نے اپنی خوشیوں کے جنونی نعرے لگائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر (بزعم نصاری) پر جاکر رونا اور چیخنا، چلانا شروع کردیا، لیکن ان کے ہاتھوں سے اس وقت بھی مسلم خون ٹپک رہا تھا، اور یوں یہ پہلا قبضہ اس المناک صورت حال کے ساتھ جولائی کی شدید ترین گرمی میں اپنی انتہا کو پہنچا۔

عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ القدس میں
اب ہم اس قبضہ کا مسلمانوں کے قبضہ سنہ ۶۳۸ء سے موازنہ کرتے ہیں۔

آئی، جے، ویلز اپنی کتاب ’’تاریخ العالم‘‘ میں یوں رقم طراز ہے: ’’القدس کو مسلمانوں کے حوالہ کرتے وقت ایک غیر معمولی شرط لگادی گئی، وہ یہ کہ شہر خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب ہی کے حوالے کیا جائے گا، اس اہم معاملے کی انجام دہی کے لئے حضرت عمر نے ۶۰۰ میل کا سفر مدینہ سے القدس تک طے کیا، صرف ایک اور آدمی کی ہمراہی میں، ایک ہی اونٹ پر، زاد سفر ایک تھیلا جَو کا، ایک تھیلا کھجور کا، ایک مشکیزہ پانی کا اور کھانے کے لئے ایک برتن تھا۔ یوں ہی بغیر وفود اور بغیر سیکیورٹی گارڈز کے القدس پہنچ کر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور وہاں کے پوپ میں میٹنگ ہوئی، انہوں نے بازنطینی (رومی) امراء سے بغیر کسی جنگ وجدل کے القدس لے کر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے سپرد کردیا۔ پھر پوپ نے اپنے مہمان کو شہر کے مقدس مقامات کی سیر کرائی، حضرت عمرؓ اس وقت نہایت ہی مسرور تھے، پوپ اور اس کے ساتھیوں کی دولت اور خودنمائی کو حقارت کی نظروں سے دیکھ رہے تھے‘‘۔

مذکورہ بالا اقتباس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوا کہ مسلمانوں نے انتہائی مصالحانہ اور شریفانہ انداز میں اس مقدس شہر کو یوں فتح کیا کہ کسی بھی شخص کو کسی قسم کا گزند نہیں پہنچایا۔ یہی ان کو زیب بھی دیتا ہے، جس دن سے مسلمانوں نے اس شہر کو اسلامی سلطنت کے زیرنگین کیا، اسی دن سے اس کا ایسا احترام کیا گویا کہ یہ ان کی روحانی میراث تھی جس سے صدیوں وہ محروم رہے تھے۔ فتح کے دن مسلمان مجاہدین نے کسی پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ آج القدس فتح ہوا ہے یا اسے آزادی مل گئی۔ بلکہ ان کے چہروں سے یہ آثار جھلک رہے تھے کہ ’’یہ ہمارا ایک مشن تھا، جسے ہم نے پورا کرلیا‘‘۔

دوسری طرف جب نصرانیوں کا القدس پر اٹھاسی سالہ قبضہ تھا اس عرصۂ دراز میں القدس کی زمین کو کسی مسلم یا یہودی کے قدم نہیں چھو سکے۔ جب کہ صلیبی جنگوں کے نقشے تیار کرنے والے (بیتر صحرائی) نے مسلمانوں کے دور میں اس شہر کے کئی دورے کئے تھے۔

اب تیسرا رخ دیکھئے۔ جب بطل جلیل صلاح الدین ایوبیؒ نے القدس کو صلیبیوں کے قبضۂ ناپاک سے چھڑایا اور اس پر ۱۱۸۷ء میں اسلامی پرچم دوبارہ لہرایا، کچھ دنوں بعد آپ نے یہودیوں کو اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرنے کے علاوہ انہیں یہاں بسایا اور ایک عظیم الشان جلسہ عام منعقد کرکے اس میں یہود ونصاریٰ اور مسلمان بچوں کے درمیان بھائی چارگی کا اعلان کردیا، جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں بہت کم ہی ملے گی۔ بلکہ یوں کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ کسی فاتح کا مفتوحہ اقوام کے ساتھ اس قدر برابری اور دینی آزادی کی مثال دنیا میں ہے ہی نہیں۔

یہودی قبضہ اور مقامات مقدسہ کی بے حرمتی
یہود نے القدس کو ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا، اس وقت سے مذہبی آزادی کی کیا حالت ہے اس شہر میں، جسے عرب ’’مدینۃ الأدیان السماویۃ الثلاثۃ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، آئیے اس پر کچھ گفتگو کرتے ہیں:
رومی کیتھولک چرچ اور انگلستانی ارتھوڈوکس چرچ کے فلسطین کے منتظمین نے اقوام متحدہ کی ایک اسپیشل کمیٹی کو یہودی قبضہ کی کچھ ایسی بدترین معلومات فراہم کیں ہیں، کہ جس کا ان کے قبضے کے بغیر وقوع پذیر ہونا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ مثلاً:
کیتھولک چرچ کے سربراہ پوپ سمعان نے مذکورہ بالا اسپیشل کمیٹی کو رپورٹ دی کہ یہود نے القدس شہر کی چہار دیواری کے پاس شامی کیتھولک چرچ کو ڈھا دیا ہے۔ اسی طرح مشہور ’’انا‘‘ چرچ کے ایک حصے کو بھی منہدم کرکے وہاں سے اسرائیلی فوج کے لئے شہر کے مشرقی جانب سے مغرب کی طرف ایک گزرگاہ بنادی ہے۔ اور ’’مخلص‘‘ چرچ کو تقریباً ویران کرکے اسے فوجی اسلحہ خانہ کی شکل دی گئی ہے۔ ساتھ ہی اس سے بازنطینی دور کے قدیم آثار اورقیمتی اشیاء غائب کردی گئیں ہیں، جن کی تاریخ چوتھی صدی عیسوی سے چلی آرہی تھی۔

ادھر کیتھولک رومن چرچ کے پیشواؤں کے چیئرمین نے بتایا کہ اسرائیلی فوجی یوحنا الصابغ (المعمدانی) نامی چرچ موضع (عین القرین) میں داخل ہوئے اور اس میں تمام قابل انتقال وقابل استعمال اشیاء کو لوٹ کر لے گئے۔ پھر اس کی دیواروں پر جلی حروف میں بیت الخلا لکھ دیا اور بالفعل اسی مقصد کے لئے اس چرچ کو استعمال کرنا شروع کیا۔ اسی طرح انہوں نے الیاس چرچ کو بھی لوٹا اور اس کی تمام خوبصورت اشیاء کے علاوہ فرنیچر بھی لے گئے۔ یہ آخر الذکر چرچ بیت لحم کے راستے میں واقع ہے۔ اس پر اکتفاء نہیں بلکہ موضع زاغہ میں اسرائیلی فوج و پولیس کے درندوں نے زاغہ جامع مسجد کے تمام قلمی مخطوطات تک چوری کئے، جیسا کہ زاغہ چرچ سے تمام اموال کو بے دریغ لوٹ کر اپنے قبضے میں لے لیا۔

مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی
اور آخر یہود کی ان خطرناک اور گھناؤنی سازشوں کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کو بھی اس میں دھکیل کر جلا دیا گیا جو حرمین شریفین کے بعد مسلمانوں کے لئے سب سے مقدس ترین عبادت گاہ اور اسلامی مرکز ہے۔ جو کسی دور میں حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ ساتھ تمام اصحابؓ کے لئے قبلہ بھی رہ چکا ہے۔ تاریخ کا طالب علم جب ان تاریخی حقائق کو سامنے رکھتا ہے، تو اس کو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کا جلانا ایک اتفاقی معاملہ نہیں تھا بلکہ اسرائیلی حکومت باقاعدہ اس مہم کے لئے مرحلہ وار انتہائی نازیبا حرکات کررہی تھی تاکہ مسجد اقصیٰ کو انہدام کی طرف لے جایا جائے (اور اب یہ سلسلہ جاری ہے) کیونکہ جس طرح ہم نے اوپر ذکر کیا کہ القدس کے متعلق مسلمانوں، نصرانیوں اور یہودیوں کے نقطہائے نظر میں بعد المشرقین ہے۔ اس لئے یہودونصاریٰ اپنے علاوہ کسی کو اس میں برداشت نہیں کرسکتے۔ اور اس قسم کے اعمال کے یہ مرتکب ہوتے رہتے ہیں ،تاریخ اس پر بہترین شاہد ہے۔ جب کہ ان کے بالمقابل مسلمان اس قسم کی بدترین، سطحی اور پست حرکات سے ہمیشہ اجتناب کرتے رہے ہیں کیونکہ مسلمان، یہودیت اور نصرانیت کے آسمانی دین ہونے اور ان کے مقدس مقامات کے تقدس کا قائل ہے۔ کیونکہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ کافر، طاغوت اور معاندین ختم ہوں بلکہ اسلام تو ان کی ذوات کے بجائے ان کی غلط حرکات کو ختم کرنے اور اسے نیست و نابود کرنے کا داعی ہے۔

یہودیوں کی طاقت اور مسلمانوں کی کمزوری
اس مختصر جائزے کے آخر میں، میں ایک ایسی حقیقت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس سے عام مسلمان بے خبر ہے۔

یہودیوں کی طاقت اتنی زیادہ اور مستحکم اس لئے ہے کہ بیرون اسرائیل تمام یہودی مسلسل اس کی مادی، معنوی، سیاسی وروحانی مدد کررہے ہیں۔ اور اس سلسلے میں یہ لوگ آپس میں ہمہ وقت رابطہ رکھتے ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں مسلمان فرقہ بندی، کم ہمتی، جنگ وجدال اور آپس میں عدم اعتماد کے شکار ہیں۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ اتحاد و ہم آہنگی کا مقابلہ فرقہ واریت سے ہورہا ہے،نتیجہ اظہر من الشمس ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی فطری یا منطقی شے نہیں ہے اور نہ ہی یہ یہودیت وصہیونی بربریت کا مقابلہ ہے آفاقی اسلام سے، بلکہ بات وہی ہے کہ اتحاد کا مقابلہ ہے فرقہ واریت سے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب یہود فلسطینی مسلمانوں کے خلاف جارحیت کے لئے متحد ہوتے تو مسلمانوں کو بطریق اولیٰ اتحاد کرنا چاہیے تھا۔ تاکہ اس زیادتی وظلم کا منہ توڑ جواب دیا جاتا اور عرب دنیا میں امن واستقرار پایاجاتا۔ مسلمان یہ نہ سمجھیں کہ یہودیوں کا اتفاق واتحاد زبانی جمع خرچ ہے، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے، مندرجہ ذیل معلومات اس کی گواہی دیتی ہیں:
- یہودی صنعت کاری میں ۱۹۵۰ء سے لے کر ۱۹۶۳ء تک ۹۰۰ ملین ڈالر کا نفع ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہودی مال دار طبقہ سے چندہ بھی جمع کیا گیا، جس میں سے صرف کینیڈا سے ۵۰ ارب ڈالر حاصل ہوئے۔
- اسرائیل کے لئے یہودی سالانہ ۱۰ /ارب ڈالر تحفوں میں ادا کرتے ہیں، اس میں سے ایچلڈ گھرانے نے اپنے جد اعلیٰ کی سالگرہ کے موقع پر ۱۰۰/ ملین ڈالر ادا کئے۔

اب کیا مسلمان یہودیوں سے اس اتحاد و یکجہتی پر بغض و کینہ پروری کریں گے۔ حالانکہ یہ تو ایک ایسی صفت ہے جس کو اپنانا اسلام میں فرض ہے۔ اور اسلام اس صفت کو بنظر استحسان دیکھتا ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ یہود کے اس اتحاد سے عبرت حاصل کریں، اور اس سے نتائج اخذ کریں کیونکہ ان کا اتحاد ظلم و زیادتی کے لئے ہے، اور مسلمان کا اتحاد اعلاء کلمۃ اﷲ کے لئے ہے، مساوات و بھائی چارے کے فروغ کے لئے ہے۔ لہٰذا جب ہمارا مقصد عظیم اور نیک ہے تو اس عظیم اور نیک مقصد کے لئے ہمیں آپس میں تعاون اور اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ جب مسلم امہ طاقت ور رہے گی تو اس کے منافع و مفادات کا انحصار صرف اسی پر نہں رہے گا بلکہ دنیا کے کونے کونے میں جہاں کہیں ترقی اور عروج ہوگا، امت مسلمہ بجائے اس کے کہ اس کے سامنے قربانی کا بکرا بنے، اس سے استفادہ کرے گی اور اگر امت مسلمہ کمزور وناتواں ہوگی تو نہ صرف یہ ضعف کا شکار ہوگی بلکہ اپنے اڑوس پڑوس کے لئے بھی ضعف اور اضمحلال کا سبب بنے گی۔

قیام اسرائیل کی فکر انہی دنوں میں پروان چڑھی تھی جن دنوں خلافت اسلامیہ کھوکھلے پن کا شکار ہوئی اور برٹش سامراج کو استعمار بننے کا موقع ملا۔ اگر مسلمانوں میں اتحاد و یکجہتی کی قوت رہتی اور وحدت قائم رہتی تو یہود اسرائیل کے بارے میں سوچنے کی جرأت بھی نہ کرسکتے۔ گویا ہم ہی نے اپنی کمزوری کی وجہ سے اسرائیل بنانے میں مدد کی اور ہم نے ان جنونی افکار کے متعلق چشم پوشی سے کام لیا جو یہودی دماغ میں رچے بسے تھے اور ہیں۔ بنظر غائر اگر ہم دیکھیں تو ہم نے ان کو صرف اسرائیل صغریٰ یا کبریٰ بنانے ہی کا موقع نہیں دیا بلکہ ہم نے انہیں عالم اسلام کے بہت سے علاقوں پر قبضہ بھی دلادیا۔ ضعف کی وجہ سے ہماری حالت بکریوں کی تھی تو وہ بھیڑیا بن گئے۔ چنانچہ مسلمانوں کو چاہیے کہ قوت اور عروج و ترقی کے لئے کمربستہ ہوجائیں تاکہ وہ اپنا اور اپنے زیرنگیں کفار ذمیوں کا دفاع کرسکیں اور اس مقدس سرزمین میں امن وسلامتی کا بھی دفاع کرسکیں(٭)۔
(الفاروق ، رمضان المبارک ۱۴۱۶ھ)
 

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878585 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More