دو دھاری تلوار

بےشک‘ الله نے انسان کو بہترین مخلوق تخلیق فرمایا ہے۔ اسے سوچ و بچار کے ساتھ‘ کھوج و تلاش کی قوت بھی عطا کی ہے‘ اور یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں۔ میں ڈارون کی تحقیق پر حیران تھا۔ ہر جانور ناصرف رہنے کے حوالہ سے‘ مختلف ہے‘ بلکہ کھانے کے اطوار بھی‘ الگ سے رکھتا ہے۔ انسان نے‘ جہاں عالی شان عمارتیں تخلیق کی ہیں‘ وہاں حیرت انگیز‘ سائیسی ایجادات سے بھی‘ زندگی کے ہر گوشے کو مالا مال کر دیا ہے۔

جانور بھی‘ زمین پر عرصہ دراز سے‘ اقامت گزین ہے‘ لیکن کوئی ایک چیز ایجاد نہیں کر سکا۔ عین ممکن ہے‘ اس نے بھی چیزیں ایجاد کی ہوں‘ لیکن وہ انسان کے تصرف میں نہیں ہیں۔ اس کے برعکس‘ انسان نے‘ جانوروں کے لیے‘ بہت سی چیزیں بنائی ہیں۔ انہیں پکڑنے‘ رکھنے اور تصرف میں لانے کی اشیا تک‘ غور کرتا ہوں‘ تو حیرانی کی انتہا نہیں رہتی۔

میں دیر تک‘ ڈارون کی تھیوری پر غور کرتا رہا‘ مجھے اس میں سچائی کی کوئی جھلک دکھائی نہ دی۔ یہ مغرب والے عجب احمقانہ سوچیں سوچتے رہتے ہیں۔ ڈارون کی تھیوری ہی کو دیکھ لیں‘ ہے کوئی اس میں عقل مندی کی بات۔ بعد میں‘ مجھے خیال آیا‘ کہ میں نے مردے کی بات پر غور کرکے‘ اچھا خاصا وقت برباد کر دیا ہے۔ ساتھ میں‘ چائے بھی برف کر دی ہے۔ گرم چائے ہی‘ چائے پینے کا بنیادی اصول ہے۔ اسی میں‘ چائے کا لطف پنہاں ہوتا ہے۔

سامنے والی میز پر‘ چار لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ خوش لباس ہونے کے ساتھ ساتھ‘ خوش مزاج بھی تھے۔ ان میں سے ایک صاحب کی زبان منہ میں نہ پڑ رہی تھی‘ متواتر کائیں کائیں کرکے‘ دماغ کی چولیں ڈھیلی کر رہے تھے۔ دوسرے‘ زیادہ بول نہیں رہے تھے‘ لیکن متواتر قہقہے داغ رہے تھے۔ وہ اپنے حال میں مست تھے۔ انہیں کسی دوسرے سے تعلق واسطہ ہی نہ تھا۔

بائیں جانب‘ تھوڑا ہٹ کر‘ ایک میز پر بڑے میاں اکیلے ہی بیٹھے تھے۔ چہرے پر جھریاں تو تھیں ہی‘ لیکن کسی باطنی کرب نے ان کے چہرے کو‘ ناصرف ویران کر دیا تھا‘ بلکہ بیمار سا بنا رکھا تھا۔ وہ ہر کسی کو‘ پھٹی پٹھی اور نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے ہونٹوں کی نقل و حرکت سے‘ لگتا تھا‘ کہ منہ میں بڑبڑا رہے ہیں‘ لیکن کسی سے‘ کچھ کہہ نہیں پا رہے تھے۔ پھر ان کی نگاہیں‘ ایک بل باٹم میں ملبوس‘ نوجوان پر جم کر رہ گئیں‘ جو عنایت حسین بھٹی کے گرامون فون پر لگے‘ گانے پر تھرک رہا تھا۔ منہ کے جو پوز بنا رہا تھا‘ اس سے اندازہ ہو رہا تھا‘ عنایت حسین بھٹی کے گانے کی نقل اتار رہا تھا۔ اس نوجوان کے قدموں کی تھرکت کے ساتھ ساتھ‘ بزرگ وار کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے۔ ان رنگوں میں‘ بےبس غضب‘ سب سے واضح اور نمایاں تھا۔ وہ بٹر بٹر دیکھنے کے سوا‘ کچھ کرنے یا کہنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔

دائیں جانب‘ ایک گوشے میں‘ تین مرد اور ایک خاتون‘ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا انداز‘ قطعی خفیہ سا تھا۔ ان تینوں میں‘ دو جوان اور ایک پچاس سے زائد عمر کا تھا‘ تاہم باحیثیت اور تازہ دم تھے۔ خاتون بھی‘ کم عمر کی نہ تھی‘ ہاں غازہ کاری نے‘ اسے قبول صورت بنا دیا تھا۔ کچھ دیر‘ وہ کھسر پھسر کرتے رہے‘ پھر خاتون بالائی منزل کی طرف چل دی۔ شاید‘ کمرہ بک کروایا ہوا تھا۔ اس کے جانے کے‘ تھوڑی دیر بعد‘ عمر میں سنئیر حضرت بھی‘ بالائی منزل کی طرف بڑھ گیے۔ کافی دیر کے بعد‘ کپڑے وغیرہ درست کرتے ہوئے‘ نیچے اترے‘ اور ادھر ادھر دیکھے بغیر‘ باہر کا رستہ ناپا۔

اس کے چلے جانے کے بعد‘ دونوں جوان‘ بالائی منزل کی طرف باری باری بڑھے۔ انہوں نے زیادہ وقت ضائع نہ کیا۔ یہ بھی ممکن ہے‘ ان کے پلے‘ دانے ہی اتنے ہوں۔ مل بانٹ کر‘ استعمال کا اصول‘ ایک کراہت ناک جانور سے‘ منسوب چلا آتا ہے۔ ان دونوں میں سے ایک‘ پیچھے مڑ مڑ کر‘ دیکھ رہا تھا۔ کام فصلیں اجاڑنے والے کا سا اور حرکتیں پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے والے کی سی‘ ہاں فصلیں اجاڑنے کی خصلت‘ دوئی کا دروازہ بند کر رہی تھی۔

باسی یا جھوٹا‘ باہوش نہیں کھاتا۔ جو بھی سہی‘ جھوٹا کھانے والے‘ انسان سے‘ دیکھ کر‘ حیرت زدہ ہونا‘ فطری عمل تھا۔

پچھلی نشتوں پر‘ تھوڑی دیر پہلے‘ بھنبھناہٹ سی‘ سنائی دے رہی تھی۔ وہاں کہرام سا مچ گیا۔ میں نے گبھرا کر‘ پیچھے مڑ کر دیکھا۔ دو میزوں پر‘ لوٹ مار کی کیفیت طاری تھی۔ پھر‘ ایک میز پر‘ چھینا جھپٹی کے عالم میں‘ کھانا ایک صاحب کے کپڑوں پر گر گیا۔ وہ صاحب‘ سب کو ٹوٹ ٹوٹ پڑ رہے تھے۔ الزام کی زد میں‘ کوئی نہیں آنا چاہتا تھا۔ گرما گرمی میں‘ بات بھونکنے سے آگے نکل گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ سب دست و گریبان کی گرفت میں آ گیے۔ جن صاحب پر سالن گرا تھا‘ ان کے دونوں رخسار آلو سے مثل ہو گیے تھے۔ کچھ نہ پوچھیے‘ ایسی مارا ماری ہوئی‘ کہ چھڑانے اور بچ بچاؤ کرنے کی بجائے‘ وہاں بیٹھے لوگوں نے‘ فرار میں عافیت جانی۔ اسی بھگ دوڑ کے دوران‘ پولیس آ گئی۔ سپاہی بڑی سرعت رفتاری سے جھپٹے‘ گرنیں دبوش کر اسی رفتار سے پلٹے۔ مثاثرہ شخص سمیت‘ سب کو لے کر چلے گیے۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں‘ کہ رستے میں ہی لین دین طے پا گیا‘ یا وہ منزل مقصود تک پنچا دیے گیے۔ جو بھی سہی‘ لہو گرم رکھنے کے اس انداز سے‘ لطف ضرور ملا۔ درندہ فضا کا ہو‘ یا زمین پر دھاڑ رہا ہو‘ چیرنے پھاڑنے کا انداز مختلف نہیں ہوتا۔

میں نے غور کیا‘ کہ ڈارون نے انسانی ارتقا کا‘ پرندے سے رشتہ نہیں جوڑا‘ حالاں کہ انسان پرندوں کے خصائل سے‘ الگ تر نہیں ہے۔ سوچ میں ہوں‘ آخر کن بنیادوں پر‘ ڈارون کے نظریے کی نفی کروں۔ خصائل ہی کیا‘ ان کی بعض جبلتیں‘ ایک جیسی ہیں۔ گویا موجودہ صورت میں‘ انسان کسی ناکسی سطع پر‘ ڈارون کی تھیوری پر‘ اترتا نظر آتا ہے۔ اتنی ترقی کے باجود‘ ڈارون کے کہے پر‘ خط نہیں کھینچا جا سکا۔ اگر ماہرین سماجیات نے‘ اس حساس معاملے کو‘ سنجیدہ نہ لیا‘ تو انسان کا تشخص اور شناخت‘ اس دو دھاری تلوار کی گرفت سے‘ نہ نکل پائے گا۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 191257 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.