کملا کہیں کا

نمرود کو‘ اپنی جاہ وحشمت پر ناز تھا۔ وہ سمجھتا تھا‘ کہ زندگی اسی کے دم قدم سے‘ رواں دواں ہے۔ اگر وہ نہ رہا‘ تو چار سو بربادی پھیل جائے گی۔ اسے یہ بھی گمان تھا‘ کہ وہ ہر اونچ نیچ پر قادر ہے۔ وہ کچھ بھی‘ کر سکتا ہے۔ اس کے رستے میں آنے والا‘ ذلت ناکی سے دوچار ہو گا۔ وہ بلاشبہ‘ شیطان کی بدترین لعنت تھا۔ میری تخلیق‘ اس سے پہلے وقوع میں آچکی تھی‘ لیکن میرا ظہور‘ نمرود کی سرکشی کے موقع پر ہوا۔ بڑا بنتا پھرتا تھا پھنے خاں۔ جب مجھ سے پنجہ آزما ہوا‘ تو کئی سو سال‘ چھتر کھاتا رہا اور آخر‘ ملک جہنم کی راہ لی۔ اس کا مال و منال‘ اسے چھتروں سے نہ بچا سکا۔

سکندر اعظم‘ دنیا فتح کرنے چلا تھا۔ جب میری زد میں آیا‘ پانی مانگنا بھی نصیب میں نہ رہا۔ اس نے علاقے کے علاقے ملیا میٹ کر دیے‘ لیکن مجھے فتح نہ کر سکا۔ اب غیرجانب دار تجزیہ نگار ملاحظہ کر لیں‘ حقیر میں ہوں یا مجھے کہنے یا سمجھنے والے‘ حقیر ہیں۔ زبانی کلامی اور عمل کی زندگی میں‘ زمین آسمان کا فرق ہے۔

آج میرے خلاف جلسے ہو رہے ہیں‘ جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ سرعام‘ مجھے برا بھلا کہا جاتا ہے۔ عجب اندھیر ہے‘ مجھے برا کہا جا رہا۔
۔۔۔۔۔ مجھے؟!۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انسانیت کا محسن ہوں۔
انسان ناشکرا رہا ہے۔ جو احسان کرتا‘ اسی کا گلا کاٹتا ہے۔ میں نے‘ انسان کو‘ ناصرف نمرود اور سکندر سے نجات دلائی‘ بلکہ خواتین کی بےلباسی کو‘ ختم کرنے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ یہ تو الله کا خصوصی انعام اور احسان ہے‘ جو میرے خلاف‘ سب کہنے سننے تک ہی محدود ہے۔ عملی صورت کی کوئی مثال دیکھائیے‘مان جاؤں گا۔ رولا ڈالنے کی‘ اچھکل میں نے ہی دی ہے۔ میں نے‘ اس ذیل میں‘ کسی کو بھول میں نہیں رہنا چاہیے۔ اگر خود ساختہ یا درامدہ‘ سپرے چھٹرکا جاتا‘ تو بھی‘ مجھے کچھ نہ ہوتا۔ اگرچہ میں حقیر کیڑا ہوں‘ لیکن اب میری تجسیم‘ حقیر کیڑے کی نہیں رہی۔


حضرت انسان کی‘ عادت رہی ہے‘ کہ کسی دوسرے نظریے یا مذہب والے کو قبول نہیں کرتا۔ آواگون کو‘ صرف ہندو میتھ سمجھا جاتا ہے‘ حالاں کہ یہ ان کے ہاں‘ میتھ نہیں‘ عقیدہ ہے۔ آج میں نئے پران کے ساتھ‘ زندہ ہوں اور آتے وقتوں میں بھی‘ اپنی نئی تجسیم کے ساتھ‘ زندہ رہوں گا۔۔ دنیا کا احتجاج‘ میرا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا۔ وہ میرے نئے جنم کے‘ نئے رنگ روپ سے‘ آگاہ نہیں ہے۔ میں اپنے خلاف‘ انسانی نفرت کا انتقام ہوں۔

آج‘ دنیا کا شاید ہی‘ کوئی ادارہ ہو گا‘ جہاں میرے‘ ہاں میرے ہونے کو‘ سوالیہ بنایا جا سکتا ہے۔ وائٹ گاہ ہو‘ یا ائی ایم ایف کدہ‘ میرے ہون سے محروم نہیں ہیں۔ یہ چھوٹے موٹے ادارے‘ کس پانی میں ہیں‘ یہ تو میرے جی حضوریے ہیں۔ یہ سب میری ایک چھینک پر۔۔۔۔۔۔ واہ۔۔۔۔۔۔ واہ‘ سبحان الله‘ کہتے ہیں۔ جس نے بھی سر کشی کی‘ جوتوں کی ایڑ میں آ گیا۔ آج انسان اپنا کیا بھگت رہا۔ احسان فروشی کی سزا‘ ملنا فطری ضابطہ ہے۔ انتقام لینا‘ میرا اصولی حق ہے۔

آخر برداشت کی بھی‘ کوئی حد ہوتی ہے۔ انسان نے‘ چادر سے باہر پاؤں نکالا ہے‘ اپنے کیے کی بھگتے بھی۔۔۔۔۔ چادر سے نکلنے والے پاؤں‘ نمرود کے پاؤں پر ہوتے ہیں۔ ان سے‘ جو بھی ہوتا ہے‘ غلط ہی ہوتا ہے۔ میں ہر غلط ہونے پر‘ انگلی رکھتا آیا ہوں‘ رکھتا رہوں گا۔ ہاں البتہ‘ میں زیادہ تر‘ سانس کی نالی پر انگلی رکھتا ہوں۔ میں نے ساڑھے چار ہزار سال‘ انسان سے تعاون کیا ہے۔ انسان نے میری قدر نہیں پہچانی‘ اب ہر گیلے سوکھے کو‘ میرا انتقامیہ ادا کرنا ہی پڑے۔ مساوات کے اصول تحت‘ میں رو رعایت سے کام نہیں لے سکتا۔ کل کی‘ میرے خلاف واک میں‘ کم زور اور ہر ایرا غیرا شامل تھا۔ اب اگر کوئی خیر کی آشا رکھتا ہے‘ تو اس سے بڑھ کر‘ حماقت اور کیا ہو گی۔

مجھے پاکستان کے‘ شہر قصور میں بیٹھے بےبابائی‘ بیمار‘ کم زور اور ڈھیٹ بڈھے‘ مقصود حسنی پر بڑا تاؤ آتا ہے۔ میرے ساتھ‘ اڑی لگائے بیٹھا ہے۔ گرہ میں دام نہیں‘ کالے کیڈر والا تھا۔ اپنے ایم فل الاؤنس کے لیے‘ برابر انیس سو ستانوے سے‘ درخواستیں گزار گزار کر‘ میرا دماغ خراب کر رہا ہے۔ پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فانڈیشن کیا میرا اٹوٹ انگ نہیں؟!
کیا میرا انتقامیہ دیے بغیر کچھ حاحل کر لے گا۔۔۔۔۔ نہیں کبھی نہیں۔
کہتا ہے‘ گرہ میں دام نہیں۔ فوٹو کاپیوں اور رجسٹرڈ ڈاک کے لیے‘ کہاں سے پیسے آ جاتے ہیں۔ جتنا اس لایعنی کام پر خرچ کر چکا ہے‘ میرا انتقامیہ‘ اس سے کہیں کم بنتا تھا۔ احمق ہے سسرا۔۔۔۔احمق ۔

کل میرے خلاف‘ واک کے لیے‘ لوگوں کو اکسا رہا تھا۔ خیر یہ تو اتنا بڑا جرم نہیں۔ وہ بکواسی اور پرے درجے کا یاووہ گو ہے۔۔۔۔۔۔ پتا ہے کیا کہہ تھا۔۔۔۔۔ کہتا تھا‘ لوگو عملی اقدام کا مطالبہ کرو۔ شرم نہیں آتی اس بڈھے کو۔ پاؤں قبر میں لٹکائے بیٹھا ہے‘ لیکن شرارت اور سازش کو شعار رکھتا ہے۔

اس کے کہنے سے‘ کیا ہوتا ہے‘ لوگ تو زبردستی لائے گیے تھے۔ اگر بات مرضی پر رہتی‘ تو سڑک اور پنڈال‘ ویرانے کا نقشہ پیش کرتے۔ میں نہیں چاہتا‘ کہ اس چند روزہ مہمان کا خون‘ اپنے سر لوں۔ جو بھی سہی‘ انتقامیہ وصول کیے بغیر‘ میں ایک کوڑی بھی نہیں دوں گا۔ کسی کو اگر اس پر ترس آتا‘ اس کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔۔اب تک میرا انتقامیہ‘ میری گرہ میں‘ چپ چاپ رکھ دیتا۔ بےبابائی ہو کر‘ حق طلب کرتا ہے کملا کہیں کا۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 191250 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.