پاکستان کے صحرائے تھر میں بھوک سے تڑپتی انسانیت

پاکستان کے تھر کا علاقہ بے آپ وگیاہ جنگل ماناجاتا ہے. ہریالی کا یہاں دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں ہوتا ہے .جب بھی خشک سالی آتی ہے تھر میں موت کا پیغام لے کر آتی ہے خشک سالی کی وجہ سے نہ صرف فصلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں، بلکہ انسانوں کی خوراک نا پید ہونے سے قحط پڑ جاتا ہے جانوروں کا چارہ اور گھاس وغیرہ بھی ختم ہو جاتا ہے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور بھی بھوک اور پیاس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جانے لگتے ہیں۔

جس سال یہاں بارش نہیں ہوتی ،تھر کے باشندے بھوک، پیاس اور قحط سالی کا شکار ہو کر انتہائی اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ،لیکن قابل ا فسوس بات یہ ہے کہ وہاں سے منتخب ہونے والے سرکاری نمائندوں نے کبھی بھی ذمہ داری کا احساس نہیں کیا کہ لوگوں کو اس خوفناک قحط اور اذیت ناک زندگی سے نجات دلائ جائے .ان کی حفاظت کے لئے ضروری تدبیر اختیار کی جائے۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق سال رواں بھی تھر کا علاقہ خشک سالی کی وجہ سے قحط جیسی آفت سے دو چار ہے۔ پہلے یہاں کا قدرتی حسن مور پُر اسرار بیماری سے ہلاک ہوا، اس کے بعد ہرن، بھیڑیں اور اونٹ ہلاک ہوئے ، اب یہاں کے بسنے والے ہزاروں انسان بھوک کی وجہ سے موت کی آغوش اور بیماری کے ہاتھوں موت کے مُنہ میں جا چکے ہیں ،جبکہ تھر کے سرکاری ہسپتال طبی سہولتوں سے محروم ہیں افسوس کہ اس شدید قحط اور بیماری کی لپیٹ میں تھر کے انہائی غریب اور مفلوک الحال لو گ بُری طرح سسک رہے ہیں ،لیکن حکومت اور دھرتی کے وارث ہونے کے دعویدار سندھ فیسٹیول منانے میں مصروف تھے اور انہیں سندھ کی دھرتی پر رونما ہونے والے انسانی تاریخ کے اس بدترین قحط کا ذرا بھی ادراک نہ ہوسکا تھا۔

حکومت سندھ اور یہاں کے سیاستدان اسلام آباد کی ٹھنڈی فضاؤں اور کراچی کی روشنیوں میں گُم ان آفت زدہ سسکتے بلکتے لوگوں کے غم سے نا آشنا اپنی ہی دنیا میں مست رہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے سندھ کے تمام غریبوں کو روٹی، کپڑا اور مکان دے دیا ہے ،جبکہ 60ہزار گندم کی بوریاں قحط زدہ علاقوں میں تقسیم کرنے کا دعویٰ کیا گیا، کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے اس کے ٹینڈر ہی نہیں ہو سکے اور صر ف چند سو بوریاں انتہائی محدود علاقے میں بھیجی گئیں، جبکہ دور افتادہ علاقوں میں گندم نہ پہنچ سکی اور لوگ بھوک اور پیاس سے مرتے رہے۔ حالانکہ ڈیڑھ سو بچوں کی المناک موت کی ذمہ داری ان حکمرانوں اور ان کے بے حس کارندوں پر عائد ہوتی ہے ۔ ایک اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست میں بسنے والے ہر فرد کی جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔میسر ہے ۔

افسوس کہ آج اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے اور مملکت خداداد پاکستان پر حکمرانی کرنے والے یہ سبق بھلا بیٹھے ہیں اور انہیں سندھ کے تپتے صحرا میں بھوک سے بلکتے معصوم بچے اور ان کی غم زدہ مائیں دکھائی نہیں دیتیں ۔ سندھ کے اس تپتے صحرا میں بھوک سے نڈھال ننگے پاؤں پناہ کی تلاش میں گھروں کو چھوڑنے والے غریب باشندے نظر نہیں آتے اور نہ ہی تھر کے صحرا کے وہ ہزاروں بھوکے جانور جو بھوک سے نڈھال خوراک کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں ۔ حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے سندھ کے اس صحرا کے 15لاکھ باشندوں اور لاکھوں جانوروں کی زندگی داؤ پر لگی ہے ۔ مگر سندھ کی حکومت نے 10کروڑ کی قلیل امداد کا اعلان کیا ہے ۔ کیا یہ رقم 15لاکھ انسانوں اور بھوک سے بلکتے ہزاروں بچوں کی زندگیوں کے چراغ بجھنے سے روک سکے گی ۔ خبروں کے مطابق پاکستان کے سندھ کی حکومت نے سندھ فیسٹول پر محض نمائشی پروگراموں پر 45کروڑ روپے کی رقم خرچ کی ،جبکہ 15لاکھ انسانوں کی زندگیا بچانے کے لئے 10کروڑ کی قلیل امداد؟ کیا یہی انسانیت ہے اور کیا یہ حکمران مسلمان کہلانے کے حق دار ہیں؟

وہاں کی وفاقی حکومت نے بھی اس عظیم المیہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور تھر کا یہ ریگستان غریبوں، مزدوروں ،کسانوں اور ان کے معصوم بچوں کے لئے موت کا صحرا بن چکا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے۔ صرف نعرے لگانے اور تقریریں کرنے سے خوشحالی نہیں آتی ۔ خوشحالی لانے کے لئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 164326 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More