بات مزدور کی ہو یا مزدور کی مزدوری کی…… استحصال کا
احتمال رہتا ہے اور اگر حق کی پہچان نہ ہو تو نصیب میں اندھیرے ہی اندھیرے
ہوتے ہیں،آج کا دور تو کسی بھی طور اندھیرے میں رہنے کا نہیں،حقوق کا ادراک
کیے بغیر آگے بڑھنا قدرے مشکل ہوتا ہے،حق کا پتہ ہوگا تو ڈٹ جانے میں مزہ
آئیگا اسی عہد، حق اور حقوق کی شناخت اور پہچان کے لیے لالہ حسن پٹھان کی
دعوت پر نوید اکرم عباسی اور راقم نے دو دن عون ساہی کی معیت میں گزارے
جہاں بیس کے قریب میڈیا سے وابستہ مردو خواتین بھی موجود تھیں……ہم قلم کے
مزدور گردانے جاتے ہیں ،ہماری مزدوری کا دورانیہ متعین ہونے کے باوجود
زیادہ اور مشاہرہ مکمل طے شدہ ہیملتاہے…… اوور ٹائم کا بھی کوئی تصور نہیں……تو
قادر مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں ……ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات کے
مصداق ہم بھی تکیہ کیے بیٹھے رہے اور ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ سب کے سب
دنگ رہ گئے……یہ عقدہ بھی کھلا کہ مزدور کی تنخواہ کم از کم دس ہزار کے با ر
بار اعلانات تو ہوئے مگر بیچارے مزدورکی قسمت میں آج بھی سات ہزار ماہانہ
ہیں……ایک تولہ سونا کے برابر مشاہرہ تو خواب ہی لگتا ہے۔ ورکشاپ‘ ریفریشر
کورس ہم جیسے شب کے مسافروں کے لئے حقائق سے چشم پوشی کی بجائے آگہی کی
روشنی دیتے ہیں عجب المیہ یہ ہے کہ مزدور فیکٹری کا ہو یا چوک چوراہے کا‘
کسی اخبار کا ہو یا کوئی بھٹہ خشت…… اس کی دکھ بھری آپ بیتی دل کو مٹھی میں
لئے آنکھ لہو کرنے کا بیانیہ ہے۔ حقائق ہوتے ہی تاریخی ہیں اور یہ جان سوز
نوحہ کی صورت دکھائی دیتے ہیں۔ بیگار کیمپوں‘ بانڈڈ لیبر‘ غلامی اور دیہاڑی
دار کی اصطلاحیں سن سن کر کان پک گئے اور ہزاروں ایکڑ پر بنی شاندار
فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں پکار رہا ہے کہ مزدور کی زندگی میں
خوشحالی نہیں آ سکتی۔ عالمی دنیا سے عہد ہوں یا مقامی یونین نمائندگان سے
وعدے ۔۔۔ مزدور کی نسلیں سکھ اور امید کی کرن لئے ان ہی ایکڑوں پر پھیلی
فیکٹریوں سے پرے چند مرلوں کے گھرانے میں پروان چڑھتی دکھائی دیں گی جنہیں
سدا غلام ہی رہنا ہے۔ باپ کا لیا قرض بیٹا اتارے گا اور ماں کی بیماری کے
لئے لیا گیا ادھار وراثت میں ملی چند مرلے اراضی بیچ کر اتارنا ہو گا۔ سمجھ
نہیں آتی طلب و زر کے تحت انسان کا انسان پہ ظلم کیوں؟ عدم مساوات کی طرح
دکھ درد محرومیوں میں گھری انسانیت کیوں حساس ازہان کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی
ہے۔ اندر سلگ اٹھتا ہے۔ یہ سب کچھ اور بہت کچھ جو ہونا چاہئے لیکن نہیں ہو
رہا۔ انفرادی طور پر بھی اجتماعی طور پر بھی بس یہی تڑپ، یہی حسرت تعمیر
اندر سے کرچیں کرچیں کر دیتی ہے۔ ہم حقوق کی آگہی دینے والوں پر ’’غیر کا
ایجنڈا‘‘ لیپ کر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان نے مختلف ادوار میں انٹر
نیشنل لیبر آرگنائزیشن کے کنونشنز پر دستخط کئے، انکی پاسداری کا عہد کیا
مگر نتیجہ صفر رہا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اقوام متحدہ کا 1947 ء سے ہی
رکن ہے اور 36 کے قریب کنونشنز پر دستخط ثبت کر چکا ہے۔ جن میں کام کا
دورانیہ‘ نائٹ ورک ‘ حق تنظیم سازی‘ ہفتہ وار تعطیل‘ طبی معائنہ ومساوی
علاج کی سہولیات‘ بیماری کی صورت میں مالی امداد‘ اوزان کی پیمائش‘ جبری
مزدوری‘ حادثات سے روک تھام‘ زیرزمین کام‘ کم سے کم عمر‘ لیبر انسپکشن‘
چائلڈ لیبر‘ خواتین کے حقوق کا تحفظ،جہیز فندز،بچوں کی تعلیم و دیگر شامل
ہیں اور طرفہ یہ کہ یونین کے قیام پر آج بھی پابندی عائد ہے اور ایک اطلاع
یہ بھی ہے کہ 50 سے کم مزدور جہاں ہوں گے وہاں تنظیم سازی کا حق ہی نہیں
بنتا……ڈینیئل پرل فیلو شپ ایوارڈ یافتہ عون ساہی بڑے عام فہم اور خوبصورت
انداز میں مزدوروں کے حقوق‘ عالمی معاہدوں اور تنظیم سازی کی افادیت واہمیت
پر روشنی ڈال رہا تھا ‘ مزدوروں کی صحت اور مساوی مواقع ‘ چائلڈ لیبر کے
خاتمہ‘ سوشل سیکورٹی‘ سکل ڈویلپمنٹ ‘ مزدوروں کے حقوق اور آجر سے تعلقات‘
تنظیم سازی کا حق ‘ تنازعات کا حل ‘ لیبر لاز کی بہتری سے متعلق سیر حاصل
بحث ہوئی۔ دوبار کیس سٹڈی کی مشق کی گئی اور لاہور میں ایک گھر میں یتیم
ملازمہ کی مالک کے ہاتھوں ہلاکت سے متعلق تحقیقاتی سٹوری کے لیے مختلف
پہلووں کا بھی جائزہ لیا گیا جس میں شرکاء کی دلچسپی دیدنی تھی۔ انسٹی ٹیوٹ
فارریسرچ ایڈووکیٹس اینڈ ڈویلپمنٹ(ارادہ) کی اس کاوش کو سراہا گیا اور خاص
کر دوسروں کے دکھ درد کی زبان بننے والوں کو جب اپنے حقوق بتائیں جائیں اور
ان کے حصول میں درپیش رکاوٹوں سے پردے ہٹائے جائیں تو لگن کم نہیں ہوسکتی
بلکہ دلچسپی بڑھتی ہے، ڈائیلاگ کی راہ ہموار ہوتی ہے ،ہم خیال ملتے جاتے
ہیں، ایک صفحہ پر بہت کچھ جمع ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں نئی دہلی ہم سے
بہت آگے ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ’’عام آدمی‘‘ کو یوں پذیرائی نہ ملتی‘
بڑے بڑے برج نہ الٹتے ‘ عرصہ سے چمٹی جونکوں کو اینٹی کرپشن بل کے خلاف
متحد نہ ہونا پڑتا ……جی ہاں، آگاہی بہت ضروری ہے، اپنے حقوق کا ادراک ضروری
ہے، حق کے لیے بات کرنے کا ڈھنگ آنا ضروری ہے اور اس ضرورت کے لیے لالہ حسن
پٹھان کی دعوت ضروری ہے تاکہ آپ بھی اداروں کے لیے ہاتھ اور زبان بننے کے
ساتھ ساتھ اپنے حقوق کے بھی محافظ بنیں۔صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک بھر
میں قائم، ایکڑ وں پر محیط انڈسٹریل زونز بھی مزدوروں کی زندگیوں کا معیار
بلند نہیں کرسکے، لیبر لاز کی موجودگی میں مزدوروں سے آج بھی غلاموں جیسا
سلوک معمول کی بات ہے،ہزاروں میں سے معدودے چند کو ہی سوشل سیکیورٹی اور
ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ کی سہولتمیسر ہے ، کارخانوں میں معذور ہو کر بے
کار ہو جانے والوں کی تعداد بھی کم نہیں……جن کی کسمپرسی ہر دیکھنے والے کو
خون کے آنسو رلاتی ہے۔ کارخانوں میں 12 گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے تقرر نامے
کا کوئی تصور نہیں ……سستی چائلڈ لیبر عروج پر ہوتی ہے۔ یہاں کسی آئی ایل او
کنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ہی مزدوروں کے حق میں چیخنے والے عملاً
کچھ اقدام کرتے ہیں خواتین ورکرز کی حالت غلاموں سے بھی بری ہے کام پر آؤ
گے تو دیہاڑی ملے گی ہفتہ وار تعطیل کے علاوہ کسی چھٹی کا کوئی تصور نہیں‘
میٹرنٹی لیو نہیں ملتیحقیقت یہی ہے کہ ہمارا مزدور آج تاریک راہوں کا مسافر
ہے جس کی زندگی میں خوشحالی دور دور تک نظر نہیں آتی۔مزدور کی بات ہو یا
مزدور کی مزدوری کی…… استحصال کا احتمال رہتا ہے اور اگر حق کی پہچان نہ ہو
تو نصیب میں اندھیرے ہی اندھیرے ہوتے ہیں،پڑھنے والو……آج کا دور تو کسی بھی
طور اندھیرے میں رہنے کا نہیں۔ |