معمول کی کا میاب ٹارگٹ گلنگ کاروائیوں، بنک ڈکیتی کی
وارداتوں ، اغوا برائے تاوان کی گٹھ جوڑ اور ان کے علاوہ حسب سابق کی طرح
جاری دیگر جرائم و کرائم سے تو موروثیت میں ملنے والی نرم وگداز کرسیوں اور
ٹھنڈے ایوانوں کا لطف اٹھاتے اسمبلی وسینٹ ممبران کے کانوں پر جوں تک نہیں
رینگتی ۔ ہاں اگر ان کاروائیوں میں کسی نامور شخصیت کو نشانہ بنایا گیا ہو
یا کسی کاروائی پر پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں ہلچل مچی ہو تو ان کے یخبستہ
کان بھی قدرے گد گدا جاتے ہیں۔ جس کا اظہارحسب مراتب یا تو صرف اظہار مذمت
کی صورت میں برآمد ہوتا ہے ، یا تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کی آڑ لی جاتی ہے ،
یا امدادی چیک کا سہارا لیا جاتا ہے ، یا مصنوعی پھولوں کا گلدستہ پیش کر
کے اپنے کانوں پر رینگنے والی جوں کا احساس دلایا جاتا ہے ۔
بم دھماکے پہلے غیر معمولی کاروائیوں میں شمار کیے جاتے تھے لیکن رفتہ رفتہ
وہ بھی معمول کا حصہ بنتے جارہے ہیں اسی وجہ سے اب ہر دھماکے کے بعد صرف
ایک ایسی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل پر ہی قناعت کر لی جاتی ہے جس کمیٹی کی
تحقیقات کی ابتدا جائے وقوعہ پر پڑنے والے گڑھے کی لمبائی اور گہرائی کے
ناپ تول سے ہوتی ہوئی بم دھماکے میں استعمال ہونے والے بارودی مواد کے
تخمینے پر ہوتی ہے ۔
عوام کی حفاظت پر مامور اور اپنی حفاطت کے لیے پریشان سکیورٹی اہلکار،
ٹھیکیداروں کے ناقص مٹیریل کا لطف اٹھاتے ہوئے اکھڑی ہوئی سڑکوں پر ناکہ زن
ہوتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق گاڑیوں کی چیکنگ ، ڈرائیونگ لائسنس ، گاڑی
کے کاغذات اور شناختی کارڈ کا مطالبہ بھی پر زور انداز میں کرتے ہیں ۔ اور
عدم موجودگی کی صورت میں شہادت کی انگلی پر انگوٹھے کو مخصوص حرکت دے کر
کچھ مطالبہ رکھا جاتا ہے اور پھر یوں معاملہ طے پاجاتا ہے روپوں کی صورت
میں یا کسی سیاسی تنظیم سے وابستگی کی صورت میں۔ اور جو بیجارے نہ تو روپے
دینے پر آمادہ ہوں اور نہ ہی ان کی کوئی سیاسی شناخت ہو تو حکومتی قوانین
بھی آخر انسانوں پر ہی نفاذ عمل کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔
جب تک ملکی قوانین کا نفاذ بااثر ، مالدار اور سیاسی شناخت رکھنے والوں
پرنہیں ہوگا اس وقت تک ہمیں ذہنی طور پر ایسے واقعات کے لیے ہر وقت تیار
رہنا چاہیے کہ ایک ہی ٹرین چار چار بار بھی بم دھماکوں کی آماجگاہ بن سکتی
ہے اور کیوں نہ بنے جب کہ آپ بلا روک ٹوک، چیکنگ کی مشقت سے گزرے بغیر
آسانی کے ساتھ ریلوے اسٹیشن کی ٹریک پر پہنچ سکتے ہوں۔اسی وجہ سے جنوری
2013میں جعفر ایکسپریس سبی اور مچھ کے درمیانی علاقے ’’پنیر‘‘ میں دہشت
گردی کا نشانہ بنی ، جس کے نتیجے میں ایک سکیورٹی اہلکار سمیت تین افراد
لقمہ اجل بنے اور انیس افراد زخمی ہوئے تھے۔ اگست 2013میں اسی ٹرین کو ’’بولان‘‘
کے علاقے میں راکٹ سے نشانہ بنایا گیااورچھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی ۔
نومبر 2013میں ’’ڈیرہ مراد جمالی ‘‘ میں پٹری پر دھماکہ کیا گیا۔8اپریل
2014منگل کی صبح نو بجے جعفر ایکسپریس کو ئٹہ سے تقریباً 150کلو میٹر کے
فاصلے پر واقع’’سبی ‘‘ کے مقام پر پہنچی تو ریلوے اسٹیشن پر وقتی قیام کے
دوران اس کی ایک بوگی میں دھماکہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 17افراد جاں بحق
ہوئے۔ابھی یہ خبر تازہ ہی تھی کہ بدھ 9اپریل کو اسلام آباد سیکٹر H-11میں
واقع فروٹ منڈی میں امرود کی پیٹیوں کی بولی لگائی جارہی تھی کہ اسی اثناء
میں زوردار دھماکہ ہواجس کے نتیجے میں 19 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی
ہوگئے۔
ملک میں ایک طرف دہشت گردی کے پھلتی پھولتی کاروائیاں میدان جنگ کا سا منظر
پیش کررہی ہیں جبکہ دوسری جانب ملک میں امن و امان کے ذمہ داران ٹھنڈے
ایوانوں میں’’تحفظ پاکستان بل‘‘پیش کرنے پر دست و گریباں ہیں۔ پیر کی شام
ایاز صادق کی زیر صدارات قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا اور وقفہ سوالات
کے بعد وفاقی وزیر زاہد حامد نے ملک میں دہشت گردی کے خلاف تحفظ پاکستا ن
بل ترمیم کے ساتھ تیسری مرتبہ پیش کیا۔حسب روایت حذب اختلاف کی جماعتوں نے
شدید رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے بل کی پرچیاں پھاڑتے ہوئے واک آؤٹ
کیا۔اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ قانون انتہائی سخت ہے اورحکومت نے اس
قانون کے بنانے میں اپوزیشن سے کوئی مشاورت نہیں کی ۔اگر حکومت مشاورت کرتی
تو کوئی نہ کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جاتا ۔
اگر تحفظ پاکستان ایکٹ سخت ہے تو عام قوانین کے ذریعے دہشت گردوں سے نمٹنا
ممکن نہیں ۔ جبکہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر دہشت گردوں کے خلاف گواہی دینے
کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا اور موجودہ قوانین کے معیار اتنے اونچے ہیں کہ
دہشت گردی کے شبہے میں گرفتار ہونے والوں کی بلا حیل وحجت ضمانتیں ہوجاتی
ہیں ۔اپوزیشن کی آنکھ سے دیکھا جائے تو سخت ایکٹ کی وجہ سے قانون کے غلط
استعمال کا قوی اندیشہ ہے اور اگر عام شہری کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ایسی
شکایات تو عام قوانین سے متعلق بھی ہیں ۔ اصل مسئلہ قوانین کے غلط استعمال
کی روک تھام ہے اور اس پر اسی وقت قابو پایا جاسکتا ہے جب چیک اینڈ بیلنس
کا نظام مؤثر ہو۔ |