موبائل فون کے جہاں بہت سارے فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی
کچھ کم نہیں۔ اس ایجاد نے ہماری نوجوان نسل کو بگاڑنے میں جو کسر چھوڑ رکھی
تھی وہ 24 گھنٹوں میں رات دن کے فری کال اور ایس ایم ایس پیکجز نے پوری
کردی ہے۔ بہت کم نوجوان ایسے ہوں گے جو موبائل کا غلط استعمال نہیں کرتے
ہوں گے۔ اگر کہیں رانگ نمبر سے کوئی نمبر مل جائے اور کال یا مسیج کے بعد
اس بات کی تصدیق ہوجائے کہ بات کرنے والے کی آواز میں نسوانیت تھی تو پھر
اس نمبر کی خیر نہیں ہوتی۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک ایسی غلطی ہوگئی ہے جس
کا خمیازا نمبر تبدیل کر کے ہی بھگتنا پڑتا ہے، یا کچھ بڑے بزرگ بیچ میں
آکر رانگ نمبر والے کی غلطی فہمی کو دور کرنے میں مدد کار ثابت ہوتے ہیں،
جس کے لئے انہیں اپنے مزاج کا خوب کھل کر اظہار کرنا پڑتا ہے۔
عام طور پر نوجوانوں میں یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ فلاں نمبر کسی ․․․․․․
کا ہے اور اس پر بات کرتے ہیں․․․․ یا قسمت آزمائی کرتے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی
گفتگو اکثروبیشتر دوستوں کے درمیان سننے کو ملتی ہے اور فون کرنے کے بعد
اگر نسوانی آواز سننے کو نہ ملے تو کسی کا پوچھ کے فون بند اور بات ختم
کردی جاتی ہے اور اگر بدقسمتی سے آگے سے کوئی نسوانیت سے بھری آواز سنائی
دے تو شہہ کار سمجھتا ہے کہ جیسے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا اور اس پر
وہ دل ہی دل میں خوش ہورہا ہوتا ہے۔اکثر ایسا ہوا ہے کہ نسوانی آواز سننے
کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کافی دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد
معلوم ہوا کہ صاحب تو اب تک لڑکی سمجھ رہے ہیں حالانکہ بات کرنے والے کی
آواز میں نسوانیت تھی مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا اور یوں رانگ نمبر
ملا کر بات کرنے والا خود ہی کسی کے چنگل میں پھنس چکا ہوتا ہے۔
ایسے رانگ نمبر پر کوئی بھی نسوانی آواز سنتے ہی ناختم ہونے والا کالز اور
میسیجز کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اس خاتون کا جینا دو بھر کردیا
جاتا ہے۔ رانگ نمبرز پر کوششیں کرنے والے ایسے بے شرم ہوتے ہیں کہ بیسیوں
بار منع کرنے کے باوجود باز نہیں آتے اور اس قدر کال یا میسجز کرتے ہیں کہ
الآمان و الحفیظ۔ یہ بھی سوچنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ایسا کبھی ان کی ماں،
بہنوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔حالانکہ ایسا اگر کبھی کوئی رانگ نمبر ان کے
گھر کے نمبر پر کہیں نظر آجائے تو مد مخالف پر جس قدر ہوسکے چڑھائی کرتے
ہیں اور کچھ تو اس بے شرمی کا بھی اظہار کردیتے ہیں کہ ہم خود یہ کام کرتے
ہیں اور آپ ہم سے کھیل رہے ہیں۔
دوسری طرف یہ مصیبت الگ ہے کہ اگر تنگ ہونے والی خاتون گھر میں بتائے تو
بہت کم گھرانوں میں اس کی بات کو سنجیدہ لیا جاتا ہے ورنہ عام طور پر لڑکی
کو ہی قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔ الٹا اس کو ہی لمبے چوڑے لیکچر دے کر
سمجھانے کی انداز میں خوب زچ کیا جاتا ہے جس کے کم از کم وہ دوبارہ کچھ
کہنے کے قابل نہیں رہتی۔
لیکن ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو نسوانی آواز ڈھونڈتے بھنوروں کا
واسطہ خاتون کے بھائیوں سے بھی پڑ جاتا ہے جو پہلے اچھے انداز میں سمجھاتے
ہیں، اگر وہ انداز کسی کو راس نہ آئے تو پھر دوسرے حربے استعمال کرتے ہیں
اور یوں ایک لمبا سلسلہ چلتا ہے۔ مگر بے چاری لڑکی کی بدنامی تو برحال کچھ
نہ کچھ ہو ہی جاتی ہے اور گھر والوں کی بے رخی الگ برداشت کرنی پڑتی ہے۔
اتنا ہی نہیں کبھی کبھار توان رانگ نمبرز کی وجہ سے جو مصیبت کھڑی ہوتی اس
کا انجام خودکشی تک پہنچتا ہے۔نہ جانے اب تک اس رانگ نمبر کی لت نے کتنے
گھروں کو تباہ کیا ہوگا۔ کبھی کبھار یہ رانگ نمبر کسی ہستے بستے گھر کو بھی
اجاڑ کر لے جاتے ہیں۔ بار بار کی مس کالز اور فضول قسم کے مسیجز جب خاوند
اپنے اہلیہ کے موبائل پر پڑھتا ہے تو ان کے آپس میں معاملات متاثر ہوتے
ہیں۔ یوں یہ رانگ نمبر شک کا ایک چھوٹا سا بیچ بوتا ہے پھر ایک وقت میں وہ
ایسا تناآور درخت بن جاتا ہے جس کے بعد اچھے بھلے گھروں میں جدائیاں ہوجاتی
ہیں۔
رانگ نمبرز پر لڑکیوں اور خواتین کی تلاش میں بھٹکتے ان بھنوروں کوکبھی
کبھار ایسی خواتین سے واسطہ پڑتا ہے کہ ان کو منہ توڑ جواب دینا جانتی ہیں۔
جب منہ کی کھانی پڑتی ہے تو اس کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ وہ آئندہ ایسی
کوئی بھی غلطی نہیں کریں گے یا پھر کم از کم اس نمبر پر دوبارہ کچھ کرنے سے
پہلے سوچیں گے ضرور۔مگر جو انتہائی گھرے ہوئے اور بے شرم ہوتے ہیں وہ تب
بھی اپنی حرکتوں کو نہیں چھوڑتے۔
اس معاملے میں کسی ایک فریق کو قصوروار ٹھہرانا غلط ہوگا۔ کیوں کہ اکثر
غلطی لڑ کے کرتے ہیں تو کہیں لڑکیاں بھی کرتی ہیں۔ مگر نقصان ہر بار لڑکی
کا ہی ہوتا ہے۔ عورت کو اﷲ نے پردوں میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ جس قدر وہ
اپنے آپ کو چھپاتی ہے اس قدر وہ ایک اچھی اور بہتر عورت ثابت ہوتی ہے۔ آواز
بھی اس پردے میں سے ایک ہے، جس پر کنٹرول رکھنا بھی اس قدر ضروری ہے۔موبائل
ایسی مصیبت ہے کہ جس نے ہماری بچیوں کی گھر کی چار دیواری، والدین کے کمروں
بچیوں کے کمروں تک کی تمام رکاوٹوں کو پامال کردیا ہے۔ والدین نے چار
دیواری بنا کر اپنی محسوس کیا کہ اب ان کی عزت محفوظ ہوگئی ہے مگرجب کوئی
رانگ نمبر اس چار دیواری کو عبور کرآتا ہے تب کسی کو اندازہ تک نہیں ہوتا۔
رانگ نمبر پر بات کرنا کسی کا مشغلہ ہے، کسی کی عادت اور کسی کے لیے ٹائم
پاس کا ذریعہ۔ اگر کوئی لڑکی رانگ نمبر پہ کسی لڑکے کو بے وقوف بناتی بھی
ہے تو وہ چند دنوں کے بعد بھول جاتا ہے مگر ایک لڑکی اتنی آسانی سے نہیں
بھول پاتی اور کبھی کبھار تو کسی کا ’’ٹائم پاس‘‘ اس کی عمر بھر کا روگ بن
جاتا ہے۔
جہاں تک ممکن ہو آپ رانگ نمبرز کو نظرانداز (avoid) کریں۔ ان کے کسی میسج
کا جواب دیں نہ کوئی کال سنیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو ایک نہ ایک دن تو آپ
کی جان چھوٹ ہی جائے گی۔ اگرچہ اس دوران آپ کو بہت سارے مسائل کا سامنا بھی
کرنا پڑے گا۔ ایک طریقہ اور بھی ہے۔ آج کل تو آپ ایسے نمبرزکو بلیک لسٹ میں
ڈال کر بھی جان چھڑا سکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر اس طرح کی کوئی بھی غلطی یا کوئی ایسی عادت یا
مشغلہ ہو تو اسے ترک کیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ جیسا آپ آج دوسروں کے ساتھ کر
رہے ہیں کل آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو جائے۔ مکافات ِ عمل کا مطلب ہے کہ
جیسا کرو گے وایسا ویسے بھرو گے۔ مطلب آج جو کسی کے ساتھ آپ کروگے یا آپ اس
کا سبب بنیں گے وایسا ہی کبھی آپ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ بس فرق اتنا ہوگا
کہ تب آپ چاہیں گے کہ ایسا نہ ہوتا مگر تب وہ ہوچکا ہوگا اور سوائے پچتاوے
کے کچھ نہیں ہوگا۔ اچھے بنیں کیوں کہ ایک اچھا انسان کبھی یہ نہیں چاہے گا
کہ بلاوجہ اس کی ذات سے کسی کو تکلیف ہو۔ |