الله جانے‘ آج ریحانہ کو کیا ہو
گیا تھا‘ بات بات پر اور بلاوجہ الجھ رہی تھی۔ جب بات کا پتہ ہو‘ تو سلجھاؤ
کی سو صورتیں نکل آتی ہیں۔ میرے بار بار پوچھنے پر بھی۔۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔۔۔
کے سوا‘ کچھ کہہ نہیں رہی تھی۔ چہرا‘ کدو کی طرح پھولا ہوا تھا۔ میں اس کے‘
اس رویے کو‘ متواتر کئی گھنٹوں سے‘ برداشت کر رہا تھا۔ سارا دن‘ کولہو کے
بیل کی طرح‘ کام کرو‘ گھرآتے‘ پانڈی کا فریضہ انجام دو۔ دن بھر کا‘ غلط سلط
کیا‘ اپنی گردن پر لو‘ معذرت خواہانہ انداز اختیار کیے رکھو‘ یہ ہی نہیں‘
کھٹی کمائی تلی پر دھرنے کے باجود‘ بوتھا سیدھا نہ ہو‘ تو بڑی ذہنی اذیت
ہوتی ہے۔
میں کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھا۔ یہ بھی کہ ایک کہہ کر‘ سو سننے کی‘ اب
مجھ میں تاب نہ رہی تھی۔ چخ چخ‘ ناصرف اعصابی تناؤ کا سبب بنتی ہے‘ بلکہ دو
چار گھنٹے بھی چٹ کر جاتی ہے۔ اس کے بعد‘ موڈ سٹ ہونے میں بھی‘ وقت لگتا ہے۔
میں نے‘ کان لپیٹ کر‘ اپنے کمرے میں جا کر‘ لیٹ جانے میں عافیت اور سلامتی
جانی۔ میں لیٹ تو گیا‘ لیکن تذبذب میں لپٹی سوچوں نے‘ آ لیا۔ عجب اتفاق تھا‘
کٹھی مٹھی سننے کے‘ کان متحمل نہیں رہے تھے۔ روح‘ معاملہ جاننے کے لیے
اتاولی ہو رہی تھی۔ میری حالت‘ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ کی سی تھی۔
کیا میں‘ بےعزتی کرانے کے موڈ میں تھا؟ یا ریحانہ کی لاشعور میں چھپی محبت‘
مجھے بےچین و بے کل کر رہی تھی۔ میں تو یہ ہی سمجھ رہا تھا‘ کہ میاں بیوی
کی محبت‘ دل اور دماغ سے نہیں‘ یہ منہ کی حدود و قیود میں‘ بسیرا رکھتی ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے‘ کہ نکاح نے‘ انہیں ایک دوسرے کے لیے‘ لازم و ملزوم کر
دیا ہے۔ ایک دوسرے سے‘ خیانت کرتے ہوئے بھی‘ باہمی تعلق میں‘ کسی ناکسی سطع
پر‘ ایک دوسرے کی ضرورت موجود ہوتی ہے۔ اہل نکاح‘ بہرطور‘ ایک دوسرے کی
کڑوی کسیلی سن کر بھی‘ ایک دوسرے سے‘ ذہنی سطح پر‘ جدا نہیں ہوتے۔ لگاؤ
ناسہی‘ ان کے درمیان‘ لاگ کا رشتہ اول تا آخر موجود رہتا ہے۔
اگر ہمارے درمیان‘ کوئی رشتہ موجود نہ ہوتا‘ تو میں سرہانے لگی چارپائی پر
لیٹا‘ اس طرح بےچین و بےسکون نہ ہوتا۔ یہ معاملہ‘ صرف میری ذات تک محدود نہ
تھا۔ ریحانہ بھی‘ سوجھے منہ والا چہرا‘ ہر پان سات منٹ بعد‘ کرا رہی تھی۔
کیسی بندہ ہے‘ منہ سے کچھ پھوٹتی نہیں‘ بس آنکھیں دیکھا کر‘ پاؤں پٹختی‘
واپس چلی جاتی ہے۔ یہ معاملہ‘ رو بہ رو رہنے سے‘ کہیں خوف ناک تھا۔ میں نے
سوچا‘ فرار کے نتائج‘ سامنا کرنے سے کہیں زیادہ‘ ہول ناک ہوں گے۔ مجھے
معاملے کا‘ سامنا کرنا چاہیے۔ خود ہی‘ کٹی کٹا نکل جائے گا۔ نکرے لگنے سے‘
بات بننے کے بجائے‘ بگڑے گی۔
میں چارپائی سے اٹھ کر‘‘ باہر آ گیا۔ ریحانہ کچن میں کام کر رہی تھی۔ آخر
بات کا کس طرح آغاز کروں۔ اس کی ماں کی بیماری کا پوچھ لیتا ہوں‘ لیکن اس
حوالہ سے‘ تو صبح ناشتے کی میز پر‘ سیرحاصل گفتگو ہو چکی تھی۔ ثریا کی شادی
کی تیاری کے متعلق بات کرتا ہوں۔ یہ موضوع صحت مند نہیں تھا۔ ثریا‘ میری
بہن تھی۔ ریحانہ تو پہلے ہی‘ کہتی آ رہی ہے کہ میں نے‘ ساری کمائی‘ اپنے
بہن بھائیوں پر روہڑ دی ہے‘ اور ہمارے پلے ہی کیا رہا ہے۔ آخر بات کا آغاز
تو کرنا ہی تھا۔
میں نے کہا: کیا کر رہی ہو؟
دیکھ تو رہے ہو‘ تمہارا اور تمہارے بچوں کا‘ سیاپا پیٹ رہی ہوں۔
ہاہیں‘ کیا بکواس کرتی ہو۔ آج یہ کام کوئی نیا کر رہی ہو‘ جو سیاپے کا نام
دے رہی ہو۔
پچھلے دس سال سے‘ آگ میں منہ ہے۔ میرے لیکھے میں‘ شاباش ہی نہیں لکھی۔
کمال ہے‘ کس بات کی شاباش چاہتی ہو۔ یہ کام تو‘ ساری عورتیں کرتی ہیں‘ تم
کوئی الگ سے کر رہی ہو۔
میں جانتی ہوں‘ تمہاری بہنیں کتنا کام کرتی ہیں۔ میرا منہ کھلواؤ۔
یہ جلی کٹی‘ کیوں سنا رہی ہو‘ آخر مجھ سے‘ کیا غلطی ہو گئی ہے‘ جو تم خواہ
مخواہ ماحول خراب کر رہی ہو۔
اچھا‘ تو میں ماحول خراب کرتی ہوں‘ ماحول خراب نہ کرنے والی لے آؤ۔ ساری
کیتی کترائی کھوہ میں ڈال رہے ہو۔
مجھے اس کی جلی کٹی پر غصہ نہیں آ رہا تھا۔ یہ تو‘ روز کا معمول تھا۔ مجھ
پر حیرت کا طوفان ٹوٹ رہا تھا۔ ہوا کیا ہے‘ جو آپے سے باہر نکل رہی ہے۔ یہ
تو یک طرفہ لڑائی تھی۔ تاہم آگہی سے محرومی‘ اس کے جلے کٹے لفظوں سے‘ کہیں
بڑھ کر‘ پریشان کن تھی۔
تمہیں فقط اپنی ذات سے‘ پیار ہے۔ کوئی دوسرا مرتا ہے‘ تو مرتا رہے۔
بڑے ہی افسوس کی بات ہے‘ میں اپنے لیے‘ کیا خاص کرتا ہوں۔ باہر سے‘ کوفتے
کھا کر آ جاتا ہوں اور تمہیں محروم رکھتا ہوں۔ اپنے لیے الگ سے کپڑے سلوا
لیتا ہوں۔
دن میں‘ بیس بار شیشہ دیکھتے ہو‘ اور اپنا چہرا دیکھ دیکھ کر‘ خوش ہوتے
رہتے ہو۔
تمہیں میرے آئینہ دیکھنے سے کیا ہوتا ہے۔
کیوں نہیں ہوتا‘ تم نے آج تک‘ میری تعریف نہیں کی۔ خود سے فرصت ملے گی‘ تو
ہی‘ کوئی دوسرا نظر آئے گا۔
معاملہ سمجھنے میں کئی گھنٹے لگ گیے۔ وہ جو سمجھ رہی تھی‘ وہ بات تو‘ سرے
سے تھی ہی نہیں۔ ابا‘ صرف ابا ہی نہیں تھے‘ وہ میرے گہرے دوست بھی تھے۔ ہم
اپنی ہر چھوٹی موٹی بات‘ ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے۔ ہمارا دکھ سکھ ایک
تھا۔ ان کی موت کے بعد‘ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ میں تنہا ہو گیا تھا۔ یوں
لگتا تھا‘ جیسے دنیا میں‘ میرا کوئی بھی نہ ہو۔ دنیا میں میرا دکھ سکھ کا
کوئی ساتھی ہی نہیں رہا۔
اس دن‘ کام پر جاتے وقت‘ میں نے آئینے میں دیکھا۔ مجھے اپنے چہرے میں‘ ابا
کا چہرا نظر آیا۔ وہ ہی آنکھیں‘ وہ ہی ناک‘ وہی رخسار غرض سب کچھ‘ ابا کے
چہرے سے مماثل تھا۔ یہ دیکھ کر‘ مجھے حیرت آمیز خوشی ہوئی۔ تب سے‘ جب اداس
ہوتا‘ آئینے میں جھانک کر‘ ابا کے ہم زاد سے‘ ملاقات کر لیتا۔ جب بھی کوئی
پریشانی آتی‘ یا مسلہ دریش ہوتا‘ آئینے میں جھانک لیتا۔ آئینے میں‘ موجود
چہرے کے اتار چڑھا‘ سے معاملے یا مسئلے کا حل دریافت کر لیتا۔
آج بھی‘ کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ چھوٹی‘ سخت مالی بحران سے گزر رہی تھی۔ آج جب
ملی‘ اس کی آنکھوں میں‘ بےبسی اور بےکسی کے بادل‘ امڈے چلے آتے تھے‘ لیکن
وہ زبان سے کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔
آج جب میں نے‘ آئینے میں دیکھا‘ کسی قسم کا ابہام نہ تھا۔ چہرے کے اتار
چڑھا کی زبان پر‘ یہ ہی تھا‘ تمہاری چھوٹی بہن ہے‘ اس کے لیے‘ کچھ کرو۔ ابا
کی تو بیٹی تھی‘ اس لیے‘ ابہام کا نمودار ہونا‘ ممکن ہی نہ تھا۔ وہ انہیں
بڑی عزیز تھی۔ میں بھی اسے عزیز رکھتا تھا۔ میں اس کی بہ قدر ضرورت مدد کر
سکتا تھا‘ لیکن یہاں‘ ایک دوسرا ہی معامہ درپیش تھا۔ ریحانہ مجھے‘ اپنی ذات
سے محبت کرنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی‘ چھوٹی کی مالی مدد پر کس طرح تیار
ہو سکتی تھی۔ اسے ثریا کی شادی پر کچھ دینا‘ کھٹک رہا تھا۔ فوزیہ کی مدد کا
ذکر‘ آ بیل مجھے مار‘ سے کم بات نہ تھی۔ کاش‘ میں الگ سے‘ پس انداز کر
لیتا‘ تو آج فوزیہ کی بےچارگی کا مداوا‘ ہو سکتا تھا۔ میں دیر تک ان ہی
سوچوں میں ڈوبا رہا۔ کوئی حل نہیں نکال پا رہا تھا۔ پھر اچانک میرے قدم
آئینے کی طرف بڑھ گیے۔ |