کامنا

وہ جہاں گیا‘ بددیانتی‘ بدمعاشی‘ حرام کاری‘ ہیرا پھیری اور دغابازی کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ کوئی بھوک سے‘ مرتا ہے‘ تو مرے‘ کسی کو‘ بھوکے پیاسے کی ضرورت سے‘ کوئی دل چسپی نہ تھی۔ دام لائے‘ ضرورت خریدے اور چلتا بنے۔ اگر بےدام ہے‘ تو سماج کے بڑے بڑے دیالو اور کرپالو‘ منہ موڑ لیتے ہیں۔ سنتے ہوئے‘ انہیں سنائی نہیں دیتا۔ دیکھتے ہوئے‘ انھیں دکھائی نہیں دیتا۔ سماج کی اس کٹھور رخی پر‘ کسی سر پھرے یا ضرورت کے مضروب کا‘ ننگی کرپان لے کر‘ نکل آنا‘ کوئی غیر فطری بات نہ تھی۔ کچھ آستین میں خنجر چھپا کر نکل آئے تھے۔ اس نے بھی‘ تاج اور ظالمانہ سماجی اطوار کے خلاف‘ بغاوت کرنے کا‘ تہیہ کیا۔ پھر اس نے سوچا بہت سووں نے یہ رستہ اختیار کیا۔ کیا ہوا‘ کچھ بھی تو نہیں۔ بغاوتیں کچل دی گئیں۔ اگر کامیاب ہوئیں‘ تو تخت پر قابض ہونے والے بھی‘ پہلوؤں کے رستہ پر چل نکلے۔ وہی بےراہروی‘ زندگی کا حصہ و خاصہ رہی۔

وہ دیر تک سوچتا رہا‘ کہ آخر کیا کرئے‘ جس سے بہتری کی کوئی صورت نکلے۔ دھیان کے بطن سے ہی گیان جنم لیتا ہے۔ وہ ویدی کی تبدیلی پر قادر نہ تھا۔ وہ سوچ کے بےثمر ہونے پر‘ یقین نہیں رکھتا تھا۔ ہر کٹھنائی کو‘ پار کرنے کا رستہ ضرور موجود رہتا ہے۔ وہ سوچ کے سمندر میں‘ کئی گھنٹے غرق رہا۔ جب واپس آیا‘ اس کے دامن میں گیان کے گلاب مہک رہے تھے۔

زیادہ دن نہ گزرے ہوں گے‘ کہ علاقے کے بچے بچے پر کھل گیا‘ کہ گرداس مل نے تیاگ اختیار کر لیا ہے۔ سو طرح کی باتیں ہوئیں۔
کسی نے کہا‘ نکھٹو تھا‘ گھرداری سے فرار اختیار کر گیا ہے۔
کسی کا کہنا تھاَ‘ کہ وہ مزاجا دنیادار نہ تھا۔ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا میں نہ تھا۔
غرض‘ جتنے منہ‘ اتنی باتیں سننے کو مل رہی تھی

اسے تپسوی ہوئے‘ دن‘ مہینے‘ پھر کئی سال گزر گیے۔ لوگوں کا یہ قیافہ‘ غلط ثابت ہوا‘ کہ چند دن کی بات ہے‘ بھوک‘ پیاس عزیزوں کی محبت‘ اسے اسی دنیا میں‘ واپسی پر مجبور کر دے گی۔ اسی دھیان نےاسے‘ دنیا کی ہر ضرورت سے‘ بالا کر دیا تھا۔ بھوک پیاس محبت نے‘ اس کے دھیان میں خلل ڈالا‘ لیکن سب بےاثر رہا۔ وہ اٹل تھا‘ اور اٹل رہا۔ اب علاقے میں‘ اس کے متعلق‘ پہلے سی باتیں نہ ہوتی تھیں۔ اب کسی کو‘ اس کے پہنچا ہوا‘ قیاس کرنے میں‘ کوئئ شبہ نہ رہا تھا۔ لوگ اسے گیانی سمجھ کر‘ اس کے پاس حاضر ہوتے۔ ان میں ہر قوم اور مذہب کی عورتیں زیادہ تھیں۔ سلام و پرنام کے بعد‘ دو زانو ہو کر‘ بیٹھ جاتیں۔ انتظار کرتیں‘ کہ شاید آنکھیں کھول کر‘ خوشی کے پرشاد سے سرفراز کرے گا۔ جب خاموشی کے سوا کچھ نہ میسر آتا‘ تو سلام وپرنام کے بعد‘ الٹے قدموں واپس لوٹ جاتیں۔

سو طرح کے چڑھاوے چڑھنے لگے۔ وہ سب‘ لوگوں کے استعمال میں آتا۔ کوئی یہ معلوم نہ کر پایا‘ کہ وہ کب اور کیا کھاتا پیتا ہے۔ سوتا کب ہے۔ حاجت کے لیے کب جاتا ہے۔ اسے جس نے بھی دیکھا‘ آنکھیں بند کیے ہوئے دیکھا۔ اب وہ‘ ایک پہیلی کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے‘ غور کیا‘ لیکن کوئی اس کے دھیان کو جان نہ سکا۔ کچھ شریروں نے‘ اس کی تپسیا بھنگ کرنے کی بھی کوشش کی‘ لیکن اس کے دھیان میں‘ رائی بھر فرق نہ آیا۔

اس کی تپسیا پر‘ دیو گڑھ میں بھی‘ ہلچل مچ گئی۔ کچھ نے سوچا‘ یہ منش‘ برہما سے سورگ پتی ہونے کا‘ بردان چاہتا ہے۔ اگر یہ ہی عالم رہا‘ تو برہما بردان دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ شنی دیو کیا‘ اس کی تپسیا بھنگ کرنے کے لیے‘ پون دیو‘ پھر اگنی دیو کو میدان میں اترنا پڑا۔ قیامت کی آگ کا گھیراؤ‘ اس کی تپسیا میں آڑے نہ آ سکا۔ اسی طرح کی‘ بیسیوں‘ زمین اور سورگ لوک سے‘ آفتیس اور آزمائشیں اتریں‘ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ برہما اول اول مسکراتا تھا‘ لیکن اب وہ بھی فکرمند ہوا۔ ایسا دھیانی ہی‘ بردان کا مستحق ٹھہرا کرتا ہے۔ وشنو اور شیو شنکر بھی‘ اس کے دھیان سے متاثر ہوئے۔ وہ برہما کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے بردان دینے کی سفارش کی برہما کو آخرکار ‘ اس دھیانی کے پاس آنا ہی پڑا۔ پوتر میں برہما ہوں‘ کہو کیا بردان میں چاہتے ہو‘ بولو بے دھڑک کہو گرداس مل نے بڑے احترام سے‘ برہما دیو کو اپنا پرنام پیش کرکے‘اس کے قدم لیے۔ پھر بولا‘ پتا شری! آپ دیکھ رہے ہیں‘ کہ انسان کس قدر وحشت پر اتر آیا ہے۔ شانتی نام کی چیز‘ ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ آپ مجھے سورگ لوک کے مقدس درخت کا روپ دے دیں۔ مجھ پر پھل کی بجائے‘ انسان لگیں۔ اس کی مانگ میں بلاشبہ خلوص موجود تھا‘ لیکن اس مانگ کے کسی ناکسی گوشے میں‘ میں اوروں سے برتر ہوں‘ کا احساس موجود تھا۔ برہما بردان دے کر برہما لوک لوٹ گیے۔
اس معاملے کو‘ صدیاں بیت گئیں۔ سورگ لوک کے شجر پتر اور دیوتا‘ خون ریزی میں مصروف تھے۔ وہاں کے انسانوں نے‘ بڑی عالی شان عمارتیں تعمیر کر لی تھیں۔ سائنس کی ترقی عروج پر تھی۔ ہر شجر پتر احساس برتری کا داعی تھا۔ جنسی طوفان زروں پر تھا۔ سورگ لوک کو‘ رہائش کے لیے‘ ناکافی سمجھا جا رہا تھا۔ مزید کی ہوس نے‘ زمین پر قبضے جمانے کے‘ منصوبے تیار کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس منصوبے پر‘ دن رات‘ بڑے زور و شور سے‘ سوچا جا رہا تھا۔ معلومات جمع کرنے کا عمل‘ عروج پر تھا۔ اس سوچ اور اس کی تیاری کے نتیجہ میں‘ سورگ لوک کا‘ امن اور سکون بھرشٹ ہو چلا تھا۔ ہر کوئی‘ زیادہ سے زیادہ کو‘ وراثت بنانے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔

ایک روز‘ لوگوں نے دیکھا‘ کہ ایک شجر پتر‘ مقدس شجر‘ جو اس نسل کا پتاما تھا‘ کے نیچے‘ ایک ٹانگ پر کھڑا‘ جاپ کر رہا تھا
وہ باآواز بلند کہہ رہا ۔۔۔۔۔۔برہما دیو پرگٹ ہوں۔۔۔۔۔۔برہما دیو پرگٹ ہوں۔۔۔۔۔

اس کے انداز سے لگتا تھا‘ کہ ٹلنے والا نہیں ہے۔ لوگ اس کے پاس آ رہے تھے۔ وہ اسے پوج رہے تھے۔ اپنی حاجت روی کے لیے کہہ رہے تھے‘ لیکن وہ اپنے کام میں مصروف تھا۔ سورگ کے دیو بھی ششدر تھے کہ یہ شجر پتر‘ برہما جی سے کیا مانگنے والا ہے۔

کوئی کہہ رہا تھا‘ یہ زمین پر قبضے کے لیے‘ برہما کی حضوری کا آرزو مند ہے۔ یہ بھی کہ‘ ان کا پتاما زمین کا باسی تھا‘ اس لیے‘ زمین پر ان کے استحقاق کو‘ رد نہیں کیا جا سکتا۔
کسی کا خیال تھا‘ کہ وہ دیوتاؤں کو‘ سورگ سے باہر کرنے کے لیے‘ کشٹ اٹھا رہا ہے۔
غرض سو طرح کی باتیں‘ سورگ کے باسیوں میں چل رہی تھیں۔
ایک بوڑھا شجر پتر‘ مسکرا رہا تھا۔ اس نے شجر مقدس کی پوری کتھا پڑھ رکھی تھی۔ وہ جانتا تھا‘ شخص کسی بھی لوک کا ہو‘ سیمابی فطرت رکھتا ہے۔ بےچینی میں امن اور سکون کی کامنا کرتا ہے۔ وہ خرابی برداشت نہیں کرتا‘ لیکن خرابی کیے بغیر رہ بھی نہیں سکتا۔ اس بوڑھے کو‘ گیان ہو گیا تھا کہ یہ تپسوی‘ منش پتر بننے کے لیے‘ برہما دیو کو کشٹ دے رہا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا‘ کہ یہ تپسوی‘ برہما سے بردان حاصل کیے بغیر‘ یہاں سے نہیں ٹلے گا‘ کیوں کہ جو دھار کر آتے ہیں‘ کٹ جاتے ہیں‘ قدم پیچھے نہیں رکھتے۔ یہ اصول بھی ہے‘ اور ویدی کا ویدان بھی‘ یہ ہی چلا آتا ہے۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190919 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.