یہ کون سا جذبہ اسلامی ہے؟

ہمارے ہاں بسا اوقات مذہب، فرقے اور مسلک کے نام پر دہشت گردی اور بد امنی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہفتہ عشرہ قبل لاہور میں رونما ہونے والے سانحہ بادامی باغ کو نشے میں دھت ایک عیسائی کی مبینہ توہین رسالت کہا جائے، ذاتی و شخصی انتقام کی کہانی یا قبضہ ما فیاکی کارستانی۔۔۔ یہ واقعہ ملک بھر کی اقلیتی برادری کے عدم تحفظ اوردنیا بھر میں پاکستان کی رسوائی کا باعث بنا۔ مذہب اور عشق رسول ﷺ کے نام پر عیسائی برادری کو ہراساں کر کے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنااور ان کی املاک نذر آتش کرناانتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ اسلام تو ایسا عالمگیردین ہے جو عقیدے، مذہب اور رنگ و نسل سے قطع نظر کسی بھی ایک انسان کے قتل نا حق کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ جس نبیﷺ کی محبت اور حرمت کے نام پر بے گناہ انسانوں پر یہ ظلم ڈھایا گیاوہﷺ تو اپنے بد ترین دشمنوں کو بھی معاف فرمادیا کرتے تھے۔ آفاقیت کے حامل مذہب اور عفو درگزر کے پیکر ﷺ کے نام پر بے گناہوں کو عدم تحفظ اور عدم استحکام کا شکار بنانا کہاں کا اسلام اور کہاں کا عشق رسول ﷺ ہے؟ اگر کوئی توہین رسالت جیسے گھناؤنے جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے اسلامی اور ریاستی قوانین کے مطابق سزا دی جانی چاہئیے۔ مگر قانون کواپنے ہاتھوں میں لینا اور کسی کے انفرادی جرم کی سزا اجتماعی طور پر پوری برادری ، بستی، یا کالونی کو دیناسرا سر ظلم اورغیر اسلامی عمل ہے۔ سانحہ بادامی باغ میں بھی ایک فرد کی مبینہ غلطی کی سزا پوری کالونی اور علامتی طور پر وطن عزیز میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو دی گئی۔ ایسے واقعات ہماری عدم برداشت اور اسلامی تعلیمات کی اصل روح سے دوری کے مظہر ہیں۔

مزید افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کچھ عرصے سے ہمارے ہاں توہین رسالت کے واقعات ذاتی دشمنی اور انتقام کی تسکین جیسے گھناؤنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ سانحہ جوزف کالونی کے پیچھے بھی ذاتی عداوت کے علاوہ، قبضہ اور لوہا فیکٹریوں کے کاروباری مافیا کے ہاتھوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جو ان غریب عیسائیوں کو بستی سے بے دخل کر کے کروڑوں کی زمین ہتھیاناچاہتے تھے۔
جہاں ایک جانب توہین رسالت کے جرم پرقوانین موجود اور سزائیں متعین ہیں ۔ وہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتوں کو ہر طرح کا قانونی ا ور آئینی تحفظ حاصل ہے ۔ پاکستان کے پرچم پر موجود سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کی علامت ہے۔ دستور پاکستان اقلیتوں کو ہر طرح کی مذہبی، شخصی اور معاشرتی آزادی فراہم کرتا ہے ۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اقلیتوں کے حقوق کے علمبردار تھے ۔ انہوں نے نچلی ذات کے ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون مقرر کیا۔ ہندو وزیر قانون کی تعیناتی انکی اس سوچ کا مظہر تھی کہ ایسی قانون سازی نہ کی جا سکے جس سے اقلیتوں کے حقوق متاثر ہوں۔ آج اسی قائد کے جانشین اور نام لیوا اقلیتوں کوتشدد کا نشانہ بنائے اور خوف و ہراس میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے بجا طور پر سانحہ بادامی باغ پر پنجاب حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ توہین رسالت کے مرتکب ملزم کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے اگلے روز تک کوئی حفاظتی تدابیر نہ کی گئیں۔ ڈی سی او کی جانب سے وزیر اعلیٰ اور محکمہ پولیس کے حکام بالا کو واقعہ کی اطلاع فراہم کی گئی تھی۔ اصولاً ماضی کے واقعات اور عوامی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے بر وقت حفاظتی اور مصالحتی اقدامات کیے جانے چاہیئے تھے مگر کوتاہی برتی گئی۔ مقامی پولیس کی جانب سے جوزف کالونی خالی کرانے کامعاملہ بھی ایک معمہ ہے۔ جس پر چند افسران کی معطلیاں اور تبادلے ناکافی اقدامات ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ اگر دو سال قبل رونما ہونے والے سانحہ گوجرہ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملزمان کو سزائیں دی جاتیں اور مناسب اقدامات اٹھائے جاتے تو مذہب کے نام پر عوامی جذبات کو مشتعل کرنے والے افراد کو عبرت حاصل ہوتی اور یہ واقعہ رونما نہ ہوتا۔ سانحہ گوجرہ کی رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانااور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں غفلت اور بے نیازی برتنا، اقلیتوں کے معاملے پر حکومت کی بد انتظامی اور غیر سنجیدگی کا مظہر ہے۔ جس پر سپریم کورٹ نے بھی اسے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

پنجاب حکومت کی غفلت اور کوتاہی قابل تنقید سہی، مگر متاثرین کی بحالی اور آباد کاری کے لیے اسکے فوری اقدامات قابل تحسین ہیں۔ راتوں رات خیمہ بستیوں کا انتظام ، قیام و طعام اور علاج معالجے کا بندوبست ، گھروں کی فوری تعمیر اور مالی امداد جیسی کار گزاری قابل ستائش ہے۔

اس منفی صورتحال کے دیگر مثبت پہلو بھی ہیں ۔ جس طرح میڈیا نے اس سانحے کو نمایاں کیا اور حکومت اور متعلقہ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ، سپریم کورٹ کا از خود نوٹس ، وفاقی حکومت کی طرف سے امداد کا اعلان، علمائے کرام اور عوام الناس کی جانب سے مسیحی برادری سے اظہار یک جہتی پاکستانی قوم کی اقلیتی برادری کے ساتھ محبت اور رواداری کے مظاہر ہیں۔چند نام نہاد مسلمانوں ، مفاد پرستوں اور شر پسندوں کے اقدامات پاکستان اور پاکستانی عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ یوں بھی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں عدلیہ، بیوروکریسی ، افواج ، پارلیمنٹ اور دیگر تمامشعبہ ہائے زندگی میں ہمیشہ اقلیتوں کو بھر پور نمائندگی حاصل رہی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مٹھی بھر عناصر کے خلاف عوام الناس میں آگاہی پیدا کی جائے اور انہیں ان شر پسندعناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے سے روکا جائے۔ علمائے کرام اور مذہبی نمائندوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ اثر میں بین الامذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے سعی کریں ۔ خاص طور پر حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کی محض تحقیقات تک ہی محدود نہ رہے بلکہ ملوث ملزمان کو گرفتارکرئے اور قرار واقعی سزا دلوا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 28509 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.