حکومت کی عدم توجہی اور عوام کی جہالت کی بدولت ملک میں
ڈبہ پیروں اور جعلی عاملوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ جعلی
پیروں اور عاملوں کی بڑھتی ہوئی یہ تعداد یقینا ملک و قوم کے لیے نقصان کا
باعث ہے، کیونکہ ملک میں سادہ لوح عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے ان جاہلوں
کے حکم پر چلتے ہیں ، جس کی وجہ سے اب تک نجانے کتنے لوگ جان، مال اور عزت
سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پیر کے روز مری میں ایک ظالم ماموں
نے ایک جعلی عام کے کہنے پر اپنی مراد پانے کے لیے سفاکیت کی تمام حدیں
عبور کرتے ہوئے اپنی ہی بہن کی گود اجاڑ دی۔ ظالم ماموں نے ایبٹ آباد کے
نواحی علاقے چٹہ پل سے تعلق رکھنے والے اپنے ہی تین بھانجوں کو ذبح کرکے
جنگل میں پھینک دیا، جن میں سے دوبھانجے جعلی پیر کی جہالت کی بھینٹ چڑھ کر
موت کی وادی میں جاسوئے، جبکہ اپنے ماموں کی درندگی کا شکار تیسرا بھانجا
زخمی حالت میں موت سے جنگ لڑرہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بچوں کو قتل کرنے
والا شخص ندیم کسی سفلی عامل کا معتقد ہے اور اس سے جادو ٹونا سیکھنا چاہتا
تھا، مذکورہ عامل نے ہی اسے یہ حکم دیا تھا کہ اگر تم ماہر عامل بننا چاہتے
ہو تو تین بچوں کو قتل کرو۔ بچوں کے والد ضیاءالدین کا کہنا ہے کہ ہماری
ندیم سے یا کسی اور سے کوئی دشمنی نہیں۔دوسری جانب اس واقعہ سے ایک روز قبل
ہی ملتان میں ایک نوجوان جعلی اور جاہل پیر کے ”فرمان “پر عمل کرتے ہوئے
اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔ جعلی عامل و پیر نے اس نوجوان سے کہا کہ ان کے
گھر کے نیچے خزانہ دفن ہے۔اس نوجوان نے اس ”مدفون خزانے“ کو نکالنے کے لیے
تقریباً 30 فٹ لمبی اور ٹیڑھی میڑھی تنگ سرنگ کھود کر اس میں خزانہ ڈھونڈنے
جا گھسا۔ اس نوجوان کو خزانہ تو نہ ملا لیکن موت کا پروانہ ضرور مل گیا۔
امدادی ٹیموں نے دو روزہ مشقت کے بعد اس نوجوان کی لاش اس سرنگ سے برآمد
کی۔اسی طرح ماہ رواں کی ابتدا میں بھی میانوالی میں اسی قسم کا ایک واقعہ
پیش آیا تھا، جس میں جعلی عامل و پیر نے اپنے بے اولاد مرید کو یہ ہدایت
کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کسی بچی کو قتل کرے گا تو اس کے اولاد ہوگی، جس پر
اس ظالم و سفاک شخص نے اپنے رشتہ دار کی ایک چار سالہ بچی کو قتل کردیا۔
واضح رہے ملک میں جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کی بڑی تعداد عوام کی جان،
مال، عزت و آبرو کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہے۔آئے دن ان عاملوں کے حوالے سے
رونگٹے کھڑے کردینے والا کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے۔انتہائی قابل افسوس بات
یہ ہے کہ 21ویں صدی میں بھی ملک میں بہت سے لوگ توہم پرستی کا شکار
ہیں،سادہ لوح افراد دھڑا دھڑ ان عاملوں کے آستانوں کا رخ کرتے ہیں جن کی
بدولت ان کے یہ آستانے آباد ہیں۔ جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کے جال میں
پھنسنے والوں میں خواتین پیش پیش ہوتی ہیں۔گھریلو جھگڑوں سے نجات، شوہر
کوراہ راست پر لانے، مقدمہ بازی، کاروباری بندش، اولاد کے حصول، بیرون ملک
رہائش ودیگر مقاصد کے حصول کے لیے خواتین کی بڑی تعداد جعلی عاملوں اور
جعلی پیروں کے آستانوں کا رخ کرتی ہیں۔ گلی گلی میں پھیلے عاملوں کے دعوے،
اشتہاری مہم، وال چاکنگ، ہورڈنگز، بینرز، پمفلٹ اور اشتہارات کی بھرمارسے
متاثر ہوکرمسائل کے گرداب میں پھنسی مختلف طبقات کی تعلیم یافتہ، ان پڑھ،
ہرعمر کی خواتین انہیں اپنے مسائل کا ” واحد حل“ سمجھنے لگ جاتی ہیں۔
”عاملین“ چٹکی بجاتے میں ان کے مسائل کو حل کرنے کا جھانسہ دے کر ان سے
بھاری رقوم بٹور تے ہیںاور سادہ لوح مایوس خواتین ان کی چکنی چپڑی باتوں
میں آکرمسائل کے حل کے لالچ میں اپنی جمع پونجی سے محرومی سمیت عزت گنوانے
جیسے مسائل کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ملک میں متعدد بار جعلی عاملوں اور
پیروں کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔
معاشرے میںجعلی عاملوں اور جعلی پیروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے
ہاتھوں لوگوں کوپہنچنے والے جانی ومالی نقصان پر گہری تشویش کااظہار کرتے
ہوئے ملک کے متعدد علمائے کرام نے ماہ رواں حکومت سے اپیل کی تھی کہ ملک
بھر میں جعلی پیروں اور عاملوں کے گھناؤنے کاروبار کو روکنے کے لیے موثر
قانون سازی کی جائے اور لوگوں کی جانوں سے کھیلنے والے سفاک درندوں
کوکیفرکردار تک پہنچانے کے لیے ایسی عبرتناک سزا ئیں دی جائیں، جن سے دوسرے
عبرت پکڑیں ۔علمائے کرام کا کہنا تھا کہ ضعیف العقیدہ افراداپنے مسائل کے
حل کے لیے شارٹ کٹ کی تلاش میں جعلی عاملوں سے رجوع کرتے ہیں اور ان کے
تمام مطالبے پورے کرنے کے باوجودمقصد کے حصول سے محروم رہتے ہیں۔ کم علمی
اور ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے جعلی عاملوںکاکاروبار پھل پھول رہا ہے اوراسے
روکنے کے لیے حکومت کو ان کے خلاف ملک گیر آپریشن کرنا چاہیے اورایسے
واقعات میں ملوث افراد کو سنگین سزادینے کے لیے موثر قانون وضع کرنا چاہیے۔
ضعیف الاعتقادی کمزور ایمان کی علامت ہے، جہالت کی وجہ سے جعلی عاملوں کا
کاروبار وسعت اختیار کررہاہے، جو معصوم لوگوں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں
کرتے۔ اللہ کے در کو چھوڑنے والا دردر بھٹکتا ہے، اگر ہم قرآن و سنت پر عمل
پیراہوں تو ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے۔ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک
تھام کے لیے حکومت اورعلمائے کرام کے علاوہ زندگی کے ہرشعبے سے تعلق رکھنے
والے افراد کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا۔حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان جعلی
عاملوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کرے ۔
دوسری جانب مری میں عامل کے کہنے پر ماموں کے ہاتھوں بھانجوں کے قتل اور
ملتان میں عامل کے کہنے پر نوجوان کی موت کے بعد عوام کی اکثریت نے ملک میں
پھیلے جعلی عاملوں اور پیروں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کیا ہے۔ محمد سلیم
کا کہنا تھا کہ 65سالوں میںجعلی عاملین، جعلی پیروں اور جادوگروں کے خلاف
کچھ نہیں کیا گیا، اس وقت ملک بھر میں ہزاروں عامل عوام کے مال وجان سے
کھیل رہے اورکھلے عام مکروہ دھندے کی تشہیر میں مصروف ہیں، کوئی انہیں
پوچھنے والا نہیں،حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،ان جاہل عاملوں کے کہنے
پر جہالت کے مارے ان کے معتقد دوسروں کو قتل کررہے ہیں اور ماﺅں کی گودیں
اجاڑ رہے ہیں، حکومت کو چاہیے فوری طور پر ان عاملوں کے خلاف آپریشن کرے۔
طالب اعوان کا کہنا تھا کہ جعلی عامل اور جعلی پیر ہمارے معاشرے کا ناسور
ہیں، جو جاہل عوام کو جرائم پر ابھارتے ہیں، اسی قسم کے جاہل عامل خواتین
کو مسائل کے حل کا جھانسہ دے کر ہزاروں خواتین کی عزتیں پامال کر چکے ہیں،
جبکہ بعض عورتیں عاملوں کے کہنے پر جادو کے لیے بچے کا خون، دل، جگر اور
کھوپڑی حاصل کرنے کے لیے معصوم بچوں کے اغوا اور بہیمانہ قتل تک کے واقعات
میں ملوث ہو جاتی ہیں۔ یہ سب انہی عاملوں کا کیا دھرا ہے، حکومت کو ان سے
نمٹنے کی سخت ضرورت ہے۔ اصغر منیر کا کہنا تھا کہ ماﺅں کی گودیں اجاڑنے
والے ان جاہل عاملوں اور ڈپہ پیروں کے خلاف کریک ڈاﺅن ہونا ضروری ہے، یہ
ملک کے ہر شہر میں عوام کو بے وقوف بنارہے ہیں۔ طاہر وسیم کا کہنا تھا کہ
مری میں عامل کے کہنے پر بچوں کے قتل کے بعد اب کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی
کہ حکومت ان جاہل عاملوں کے خلاف کریک ڈاﺅن نہ کرے، اس قسم کے کئی واقعات
منظر عام پر آچکے ہیں جن میں ان عاملوں نے خواتین کی عصمت دری کی، کئیوں کو
خود قتل کیا اور کئیوں کے قتل کا حکم دیاہے، اگر حکومت انہیں مسلسل یونہی
چھوٹ دیتی رہے گی تو یہ ملک میں مزید پھیلتے رہیں گے۔ عوام کی اکثریت نے
حکومت سے جعلی پیروں اور جعلی عاملوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کا مطالبہ کرتے
ہوئے کہا ہے کہ سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے والے ان عاملوں کے جگہ جگہ بنے
ٹھکانے فوری طور پر ختم کرکے ان پر پابندی لگائی جائے۔واضح رہے کہ لوگوں کو
بدھو بنانے والے جعلی عاملوں کے خلاف مختلف ادوار میں صوبائی اسمبلیوں میں
قراردادیں منظور ہوتی رہی ہیں،لیکن اس کے باجود ان کے خلاف کوئی موثر قانون
سازی نہیں ہوسکی اور نہ کوئی سخت کارروائی ہوسکی۔ جعلی عامل عوام کو بے
وقوف بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔چار سال قبل لاہور میں جعلی عامل
کے قبرستان سے بچے کی لاش نکالنے کے واقعہ کے بعد پولیس نے لاہور میں
نجومیوں اورعاملوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کرتے ہوئے متعدد جعلی عاملوں کو
گرفتار کیا تھا اور عاملوں کے بہت سے اڈے بند بھی کردیے تھے۔اس کے باوجود
اب بھی ملک کے تقریباً ہر شہر میں جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کی بھرمار
ہے، ان کی وجہ سے پے در پے سانحات رونما ہورہے ہیں، لیکن حکومت ان کے خلاف
ایکشن نہیں لے رہی۔ |