ماں کا مزار

ماں کرہ ارض پہ اﷲ کے کرم رحمت اور مہربانی کا استعارہ ہے کہ جب خیالوں میں گمانوں میں اور اذہان کی سوچ سے ماورا رب نے انسان کے ساتھ اپنی محبت کا ذکر کیا توپتہ چلا کہ وہ ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے۔ماں تو اپنی اولاد کو کانٹا چبھتے نہیں دیکھ سکتی ستر ماؤں سے زہادہ مہربان بھلا انسان کو کیسے مصیبت میں ڈال سکتا ہے الا یہ کہ کوئی خود ہی زہر کھانے پہ مصر ہو۔کوئی خود ہی آگ میں کودنے کو تیار بیٹھا ہو۔معروف شاعر انور مقصود اپنی مشہور ِ زمانہ نظم میں ایک ماں کے ذکر کرتے ہیں اور سامعین کی چیخیں نکل جاتی ہیں ۔بیٹا بری طرح ماں کو پیٹ کے ناشتہ کئے بغیر سکول آ جاتا ہے اور ماں خون آلود ہاتھوں اور ماتھے سے بہتے خون کو بھلا کے بیٹے کے ناشتے کے لئے فکر مند ہوتی ہے۔ماں کا پیار اس کائنات کی آفاقی سچائی ہے اور اسی لئے کسی بزرگ نے یہ کہا تھا کہ میں اپنی ذات میں بھلے کتنی ہی فاحشہ اور بری کیوں نہ ہو اپنی اولاد کے لئے ولی کا درجہ رکھتی ہے۔ماں ناراض ہو سکتی ہے۔اسے وقتی طور پہ غصہ بھی آ سکتا ہے لیکن اپنی آنکھوں کے سامنے وہ اپنی اولاد کا دکھ نہیں دیکھ سکتی۔

نبی مکرم ﷺ کے دور اقدس میں ایک صحابی عالم نزع میں تھے۔پتہ چلا کہ ان کی والدہ ان سے ناراض ہیں۔ ماں کو بلا بھیجا اور فرمایا تمہارے بیٹے کا آخری وقت ہے اسے معاف کر دو۔ ماں کہنے لگی کبھی نہ کروں گی۔ناراضگی شاید زیادہ تھی۔ بارِ دیگر ارشاد ہوا کہ معاف کر دو۔دوبارہ انکا سن کے ختمی مرتبتﷺ نے لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دیا۔ ماں نے حیرت سے پوچھا وہ کس لئے؟فرمایا اگر تم اسے معاف نہیں کر سکتیں تو پھر اسے جلا دیا جائے گا۔ماں نے لمحے کی تاخیر کے بغیر کہا میں معاف کرتی ہوں ،میں معاف کرتی ہوں۔ہر ان پڑھ اور پڑھی لکھی ماں اپنی دانست میں اپنی اولاد کا بھلا چاہتی ہے۔اسلام اسی لئے تو ماں کے حقوق اور اس کی خدمت کی تلقین کرتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا جنت میں پڑوسی بننے والا قصائی جز اس کے اور کوئی خصوصیت نہ رکھتا تھا کہ ماں کا خدمت گذار تھا۔دنیا بھر کے تمام مذاہب اور تمام صاحبانِ عقل و دانش اس بات پہ متفق ہیں کہ ماں سے بہترین رشتہ اس دنیا میں اور کوئی ہے ہی نہیں۔ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ مجھ پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے تو ارشاد ہوا تیری ماں کا،پھر فرمایا تیری ماں کا تیسی بار بھی سوال کے جواب میں یہی ارشاد ہوا۔ چوتھی بار فرمایا تیرے باپ کا۔اس سے ماں کی عزت و احترام اور اس کے حقوق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

یہ ساری باتیں میرے ذہن میں ایک معاصر کی خبر دیکھ کے آئیں جس میں ذکر ہے کہ کراچی کے چھ بھائی کراچی میں اپنی ماں سے لازوال محبت کے اظہار کے لئے اس کا مزار بنا رہے ہیں۔اس مزار کی تعمیر پہ اب تک پچاس لاکھ کے قریب خرچ ہو چکا لیکن مزار ابھی زیر تعمیر ہے اور یہ سارے بھائی اپنا تن من دھن اس مزار کی تعمیر کے لئے ایک کئے ہوئے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے اپنی جان بھی داؤ پر لگا رکھی ہے۔ہم یو ں بھی طالبان تو ہیں نہیں کہ مزارات کو بموں سے اڑانے کی سوچیں ہمیں یہ بھائی اپنے دل کے بہت قریب لگے لیکن خبر کا اگلا حصہ پڑھ کے ہمارے ہاتھوں کے طوطے یوں اڑے کہ مزار کی تعمیر کے لئے یہ بھائی ڈکیتیاں کرتے اور لوگوں کے گھروں میں گھس کے اپنی ماں کے مزار کی تعمیر کے لئے مال اکٹھا کرتے اور دوسری ماؤں کی گود اجاڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ماں کا احترام درست اس سے والہانہ پیار اور عقیدت کا اذہار اپنی جگہ لیکن اس کے لئے کسی دوسرے کی جان لینا یا اسے اس کے اسباب سے محروم کرنا کسی صورت جائز نہیں بھلے وہ ماں کی تعمیر ہی کے لئے کیوں نہ ہو۔مجھے خبر کے اس آخری حصے کی وجہ سے ان بھائیوں کی سوچ سے گھن آنے لگی۔

ابھی میں اسی سوچ کے تحت جل بھن رہا تھا کہ تاریخ نے میرے غصے کو ٹھنڈا کیا۔ میرا خیال تھا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہو گا کہ کوئی مزار بنوا رہا ہو اور اس پہ عوام سے لوٹی ہوئی دولت خرچ کر رہا ہو۔ تاریخ اس پہ مسکائی اور مجھے تاج محل کے سامنے کھڑا کر دیا۔سوال پہ سوال میں نے قصہ ماضی کہہ کے جان چھڑائی تو تاریخ مجھے حال میں لے آئی۔اس نے مجھے مزاروں کی تصاویر دکھانا شروع کیں اور سوال پوچھنا کہ یہ مزار کیا عوام کی دولت لوٹ کے نہیں بنائے گئے۔میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ پھر تاریخ نے ایک اور چٹکی لی کہ کراچی کے ان چھ بھائیوں کو تو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور اب وہ اپنا کیا بھگتیں گے لیکن جن مزاروں کی طرف تاریخ اشارہ کرتی ہے ان کے متولین سے تو موجودہ حکومت بھی مک مکا کر چکی۔انہیں تو اب بھی لوٹ مار کے لئے ایک محدود علاقہ دے دیا گیا ہے تا کہ ان مسجع و مقفع مزاروں کی تزئین و آرائش کا سلسلہ رکنے نہ پائے۔کل کلاں خدا نخواستہ اگر کسی اور مزار کی تعمیر کی ضرورت پڑے تو فنڈز کی کمی آڑے نہ آئے۔ تاریخ کا مضمون مجھے ہمیشہ ہی سے ناپسند رہا ہے کہ اپنی تمام تر دلچسبیوں کے باوجود تلخ سوالات کھڑے کرتا ہے جن کے جواب اکثر ہمارے پاس نہیں ہوتے اور ہوتے بھی ہیں تو ہم شہیدوں کے احترام میں خاموش اور با ادب کھڑے رہتے ہیں۔اس ملک کے اقتدار پہ قبضہ غداری ہے اور اس ملک کے مجبور اور مقہور عوام کے مال و دولت کو غصب کر کے مزاروں کی تعمیرآئین و قانون کی پاسداری ہے۔ تاریخ نے چٹکی لی کہ اقتدار پہ قبضہ کرنے والا غدار ہے تو جو اقتدار عطا کرتے ہیں ان کے مال کو لوٹنے والا غدار کیوں نہیں؟

تاریخ میرے سامنے پاکستان کے بہت سے مزاروں کا کٹیلاگ لئے کھڑی تھی اور میں نظریں چرا رہا تھا۔پھر تاریخ نے ایک اور کتاب اٹھائی ان میں ان مزاروں کے فرضی خاکے تھے جن کے صاحبانِ مزار ابھی زندہ ہیں اور ان کے مزاروں کے لئے فنڈ اکٹھا ہو رہا ہے۔میں نے غور سے دیکھا تو اس کٹیلاگ کے آخری صفحے پہ رؤف کلاسرہ کی ایک سٹوری کو متشکل کر کے دکھایا گیا تھا جس میں پاکستان کے بیورکریٹس کا ذکر کیا تھا جنہوں نے عیدی کے نام پہ کروڑوں ڈکار لئے تھے۔ میری سادگی دیکھئیے پہلے میں عیدی کو ایدھی سمجھا۔پاکستانی عوام بھی ان کی عیدی کو ایدھی سمجھ کے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ورنہ کراچی کے بھائی پولیس کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں تو یہ بڑے بڑے مزاروں والے کیا ہمارے مامے لگتے ہیں؟

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291734 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More