البیلاشہید
محترم عدنان بھائی کاپیہم اصراربالآخرہمارے انکارپرغالب آچکاہے۔ہمارے تمام
اعذار،جواگرچہ اعذارمقبولہ کہے جاسکتے ہیں،اپنی وقعت کھوچکے ہیں۔اس کی
وجوہات میں سے ایک یہ احساس بھی ہے کہ ہم بھی اس بڑھیاکی طرح جوتھوڑاساسوت
کات کرلے آئی تھی کہ یہ یوسف کامول اگرچہ نہیں بن سکتا،مگریوں اس کانام
خریداران یوسف میں توشامل ہوہی جائے گا۔ہم یہاں ''انگلی کاٹ کے شہیدوں میں
شامل ہوجانے والے محاورے ''سے قصداًاغمازبرت رہے ہیں کہ شہادت کوئی ہنسی
کھیل نہیں ہے۔تف ہے ان سیکولرولادین لوگوں پر،جنہیں یوں تومذہب سے اللہ
واسطے کابیرہوتاہے ،مگراپنے کتے کی موت مرنے والے راہ نماؤں کے لیے وہ ''شہید''کالاحقہ
بڑیی ڈھٹائی سے استعمال کرتے ہیں،کاش وہ جان سکتے کہ کہلانے سے کوئی
شہیدنہیں ہواکرتا،بلکہ شہادت تونام ہے بندے کی اس انتہائی قربانی کا،جووہ
اپنے رب کے حضورپیش کرکے شہادت حق کی گراں قدرذمے داری سے سبک دوش ہوتاہے
اورنتیجے میں خلدبریں کی لازوال وبے مثال اورلافانی ودائمی نعمتوں کاعالم
ارواح سے ہی مستحق قرارپاتاہے۔یہ رتبہ بلندکوئی کھیل تماشانہیں ،خوش قسمتی
اورسعادت کی آخری نشانی ہے،جوسعیدروحوں کوہی ملاکرتاہے۔
مفتی سعودالرحمن شہیداسم بامسمیٰ تھا۔سعودکے لفظ پہ غورکیجیے۔یہ سعادت سے
ہے ۔وہ سرتاپاسعادت کامجمسہ ومرقع تھا۔اس نے بڑی مختصرسی زندگی پائی۔یکم
جنوری 1986ء سے 5مئی 2011ئ…فقط پچیس چھبیس برس،مگراس دوران میں آپ
سعودبھائی کے گردہمیشہ سعادت کاہالہ دیکھیں گے۔2008ء تک اس کاشمارمہمانان
رسول ۖ میں رہا،وہ مہمانان رسول ۖ جن کے قدموں تلے اعزازواکرام کے لیے نوری
اپنے پربچھایاکرتے ہیں ۔2008ء سے اس کاشماروارثان انبیا میں ہونے لگا۔امت
محمدیہ علیٰ صاحبہاالصلوة والسلام کے علمائے دعین متین میں ،جن
کوسرکاردوعالم ۖ نے انبیائے بنی اسرائیل کی طرح قراردیاہے،جن کوفضیلت میں
یوں تشبیہ دی کہ جیسے میں محمدرسول اللہ ۖ تم صحابہ میں سے ادنیٰ صحابی کی
بہ نسبت،جیسے چاندستاروں میں ،جیسے بینانابیناؤں میں۔قربان جاؤں سعودبھائی
کے۔ان کوفرعون وہامان اورشدادوقارون کی وراثت نہیں ان نفوسو قدسیہ کی وراثت
ملی جن سے افضل واکمل،اطہرواشرف اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے کسی
کوبنایاہی نہیں۔حاصل یہ کہ سعودبھائی ان میں سے تھے جن میں سے بننے کی
محبوب رب العالمین رحمت للعالمین ۖ نے ترغیب دی ہے،فرمایا:عالم بنویامتعلم
،خبردار!تیسرانہ بنناکہ ہلاک ہوجائے گا۔(مشکٰوة)
سعودبھائی کی پیشانی پہ خالق لم یزل نے سعادت لکھ دی تھی۔یہ اسی کاایک حسین
اظہارتھاکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دورطالب علمی سے ہی دورحاضرکے افضل
الجہاد''کلمہ حق''کے لیے قبول فرمالیا۔اس جہادکے لیے جس میں شرکت موت کے
پروانے پردستخط کرنے کے مترادف ہے۔جوشہادت گہہ الفت میں قدم
رکھناہے۔جوپھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کابسترہے۔جہاں اپنوں کی ملامتیں بھی
قدم قدم پراستقبال کے لیے موجودہوتی ہیں اورپرایوں کے تیرونشتربھی۔ہاں
ہاں!اصحاب وازواج رسول ۖ کی عرت وناموس کی نگہ بانی،جسے اچھے اچھے دیونگی
قراردیتے ہیں اورکنی کتراتے ہیں۔یہ کتنابڑاجہادہے اس کااندازہ
لگاناہوتوباطل کے تیروں کے رخ کودیکھیے،کہ محدث نبیل حضرت مولانامحمدیوسف
بنوری نے اہل حق کی یہی علامت بیان فرمائی تھی،بلکہ ان سے بہت پہلے امام
ابن تیمیہ حرانی نے بھی یہی ارشادفرمایاتھاکہ حق کودیکھناہوتوباطل کے تیروں
کودیکھوکہ اس کارخ کس کی طرف ہے،اس کاسب سے بڑاہدف کون ہے؟یہاں تومعاملہ
صرف باطل کے تیروں کانہیں اپنوں کے نشتروں کابھی ہے۔عیاں راچہ بیان،اصیل
رااشارہ کافی است۔سعودالرحمن کواللہ تعالیٰ نے اس عظیم سعادت کے لیے بھی
قبول فرمالیا۔اس نے اپنے تعلیمی اوقات سے بچ جانے والاوقت اس شغل عزیزکی
نذرکردیا۔ا س نے اس میدان میں بھی کامیابی کے وہ وہ سنگ میل عبورکیے جوبڑے
بڑوں کے لیے بھی مثل اک خواہش ناتمام ہواکرتے ہیں۔سپاہ صحابہ
اسٹوڈنٹس،اسلامک اسٹوڈنٹس موومنٹ اورپھرمسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ
فارم سے دفاع اسلام واستحکام پاکستان کی جدوجہدبھی کی اوراہل سنت والجماعت
کے نظم کاحصہ بن کردورحاضرکے سب سے بڑے طاغوت کی بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کراسے للکاراکہ لاشیں گراکر،سہاگ اجاڑکر،خاک وخون کاابلیسی کھیل
رچاکراورآتش وآہن برساکریہ نہ سمجھ لیناکہ حق مٹ جائے گا،حق کہنے والے دب ج
ائیں گے…نہیں ،نہیں ،تیرے پاس تیربہت ہیں توادھرسینے بھی بہت ہیں۔جھنگوی
کاپاک خون وہ بیج بوگیاہے جس کوکوئی برگ وبارلانے سے نہ روک سکاہے اورنہ ہی
روک سکے گا۔فاروقی کی قربانی عنداللہ وہ مقبولیت حاصل کرچکی ہے کہ اس کی
آوازکومنزل سے ہم آہنگ ہونے سے نہ کوئی روک سکاہے اورنہ ہی روک پائے
گا۔ایثار کی جواں شہادت اپنے جیسے لاکھوں جوانوں کوایثاروقربانی کی راہ
دکھاچکی ہے۔اعظم کی للکارجب تک کفرکے ایوان باقی ہیں ان ایوانوں کے
سرودیوارہلاتی رہے گی۔حیدری کے روحانی فرزنداس کفرودجل سے تقیے کانقاب
نوچتے اوراس کی قباتارتارکرتے رہیں گے،تاآں کہ اسے آئین پاکستان کے ذریعے
لوہے کی لگام نہ پہنادیں۔
سعودبھائی کے پاس وقت تھوڑاتھااورکام بہت،سوانہوں نے سالوں کے فاصلے مہینوں
میں اورمہینوں کے ہفتوں میں طے کیے۔مشن حقہ کی آبیاری میں وہ ہرانتہاسے آگے
گزرجانے کاولولہ صادق رکھتے تھے۔ان کے پاس وقت تھوڑاتھاسوکبھی کبھی وہ
ڈسپلن کی پاس داری کوبھی وقت کاصیاع سمجھ کرنازمیں اس کی خلاف ورزی بھی
کرجایاکرتے تھے،مگراس کے پیچھے چھپی مخلصانہ اسپرٹ سے قائدین چوں کہ واقف
وآگاہ تھے،سووہ درگزرکردیاکرتے تھے کہ شہزادہ ہے اورشہزادے بھلاکب اصولوں
کے پابندہوتے ہیں۔اس کے باوجودانہوں نے حتی الوسع جماعتی ڈسپلن کی ہمیشہ
پابندی کی اوراپنے ہم رکاب ساتھیوں کوبھی یہی درس دیا۔سعودبھائی کی کس کس
اداکاذکرکیاجائے،ان کی ہرادانرالی تھی،خلاق عالم نے ان کی اس انفرادیت کی
تادم آخرلاج رکھ لی اوروہ شہیدبھی بڑے منفردٹھہرے،انہیں شہیدناموس اصحاب
رسول ۖ کے ساتھ ساتھ ایک اورانفرادیت بھی عطاہوئی اوروہ ہے شہیدحرمین ہونے
کی۔امام احمدبن حنبل نے کسی موقع پرفرمایاتھاکہ ہم کون ہیں ؟اس کی گواہی
ہماراجنازہ دے گا،سوسعودبھائی کاعنداللہ کیامقام تھااس کی گواہی لینی
ہوتواس ٹھاٹھیں مارتے انسانوں کے سمندرکودیکھ لیجیے،جس میں دیوبندی،بریلوی
اوراہل حدیث ،اپنے اوربیگانے سب ہی تھے اورآج وہ سب سعودبھائی کی عظمت کی
گواہی دے رہے تھے۔سعودبھائی تیرے کیاکہنے،توواقعی البیلاتھا۔
حق مغفرت کرے عجب آزادمردتھا
اللہ تعالیٰ مفتی سعودالرحمن شہید سمیت تمام شہدائے ناموس اصحاب رسول ۖ کی
قربانی قبول فرماکراسے مشن حقہ کی تکمیل کاذریعہ بنائے رکھے اورہم آپ سب
کوتادم آخراس مشن سے وابستہ رہنے کی توفیق اوراسی پرنثارہونے کی سعادت
عطافرمائے۔آمین |